ہم ناسمجھ بندے

401

فائزہ حقی
کافی دن گزرے میاں طفیل محمد راہِ عشق میں جاں سے گزر گئے۔ ہمارے یہاں ایک سیکولر اخبار آتا تھا‘ اس کے ادارتی صفحے پر میں نے ان کے نام کافی مضامین پڑھے جن کا لب لباب تھا کہ ’’یہ صاحب قرون اولیٰ کی مسلمانوں کے سے اوصاف کے حامل شخص تھے اور بہت عمدہ اور بہترین مسلمان تھے اور ان میں یہ مسلمانانہ خوبی تھی اور وہ ان اسلامی اوصاف کے حامل تھے۔‘‘
اس کے کافی عرصے بعد ایک اور صاحب قاضی حسین احمد کا انتقال ہوا۔ ان کے بارے میں بھی میں نے جس قسم کی باتیں پڑھیں‘ وہ یہ جتانے کے لیے کافی تھیں کہ وہ حضرت بھی ایمان کے اعلیٰ درجوں پرفائز تھے اور انہوں نے بھی امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے یہ کارہائے نمایاں انجام دی اور اس طرح انہوں نے امتِ مسلمہ کی بھلائیوں کے لیے وہ کام کیے اور وہ دل کے مرض میں بھی اسی لیے مبتلا ہوئے کہ ان کے دل میں امت مسلمہ کا درد تھا۔
لیجیے… ایک دور یہ بھی تھا جو گزر گیا بلکہ ہم نے نہایت بے پروائی سے گزار دیا۔ لیکن اب …؟
ایک بار پھر جماعت اسلامی ہی کے چوتھے امیر جناب منور حسن صاحب کا انتقال ہوا؟ ایک بار پھر دنیا نے ان کی خوبیوں کو بیان کرنا شروع کردیا۔ منور حسن صاحب میں یہ خوبی تھی‘ ان کے اندر اتنی خدا پرستی تھی‘ وہ اتنے بڑے مسلم رہنما تھے‘ ان میں یہ بھی خوبی تھی اور وہ اس خوبی سے بھی متصف تھے مگر …؟یہ سارے خدا پرست تھے کون؟ ان سارے خدا پرستوں میں یہ خدا پرستی ڈالی کس نے؟ ان سارے خداپرستوں میں اتنی ساری خوبیاں آ کیسے گئیں؟
ہم صرف ان پر غور کرتے ہیں جن پر غورکرنے کی دعوت ہمارا دجالی میڈیا دیتا ہے ورنہ ان سارے خدا پرستوں میں جو بات مشترک تھی وہ یہ کہ ’’یہ سب جماعت اسلامی کے امیر رہے ہیں‘ اور ان کے اندر یہ ساری خوبیاں، یہ ساری خصوصیات، جماعت اسلامی نے کھوج کر نکالیں اور پھر ان خوبیوں کو پروان چڑھایا۔
لیکن ہم کسی کی خوبیوں کو صرف اس کی میت پر ہی بیان کرنے کے عادی ہو چلے ہیں اور الحمدللہ جماعت اسلامی زندہ ہے اور وہ زندوں کو ہی اپنے میں جگہ دیتی ہے لیکن ہمیں جماعت پسند نہیں کیوں؟ کیوں کہ ہمارا دجالی میڈیا ہمارا ایک مائنڈ سیٹ بنا چکا ہے لہٰذا جو اس کے خلاف ہوگا‘ ہم اس کے خلاف ہوں گے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ان کی تعریف کبھی نہ کبھی تو ضرور کریں گے اور وہ بھی اُس وقت جب وہ کچھ کرنے سے قاصر ہوچکے ہوں گے۔ یعنی ان کی موت کے بعد…آخر ہماری ایمانی حس اُسی وقت ہی کیوں جاگتی ہے جب کہ وہ بندہ اپنی تمام کوششیں کرکے یہاں کے حساب سے ناکام چلا جاتا ہے؟
تو کیا یہ ناکامی اس کی ہوتی ہے؟
جی نہیں… اس کی تو اتنی بڑی کامیابی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر یہ کہہ دیتا ہوگا کہ ’’اے میرے رب! میں نے تو اپنی پوری کوششیں کرلیں لیکن تیرے یہ ناسمجھ بندے…؟‘‘
درحقیقت یہ ناکامی تو ہماری ہے کہ ہم نے ان پر یقین ہی نہ کیا اور جب ہم اس حالت میں اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے اور ہمارا پروردگار اپنے جلال میں ہم سے پوچھے گا کہ ’’تم مردہ پرست لوگ‘ تمہیں صرف مردوں ہی کی اچھائیاں نظر آتی تھیں‘ جب یہ ہیرے جواہر جیسے لوگ تمہارے درمیان تھے اور تمہیں راہِ حق کی طرف بلا رہے تھے‘ اُس وقت تمہیں ان کی کوئی خوبی نظر نہ آئی کہ تم اس کی پیروی کرتے …؟‘‘
آہ…!اس وقت کیا جواب ہوگا ہمارے پاس ؟اس وقت ہم کیسے اپنا سر اپنے رب کریم کے سامنے اٹھا سکیں گے‘ کیا ہے کوئی جواب ہمارے پاس…؟

حصہ