کورونا کو ہلکا نہ لیں

708

۔”پیما” کی رکن ڈاکٹر ناصرہ سہیل کی جسارت میگزین سے گفتگو

ڈاکٹر ناصرہ سہیل نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے MBBS کیا۔ میڈیسن میں FCPS کیا۔ آج کل لیاری جنرل ہسپتال، کراچی میں میڈیسن کی اسسٹنٹ پروفیسر اور ICU انچارج ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی ممبر ہیں۔ ان سے کورونا کی بیماری اور علاج سے متعلق گفتگو کی گئی،جو نذرِ قارئین ہے۔

سوال:کورونا چونکہ ایک متعدی بیماری ہے، جب آپ کو اس ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری دی گئی تو آپ کے کیا محسوسات تھے؟
جواب:ایک عام انسان کی طرح فطری خوف تو محسوس ہوا۔ ہم جو عام OPD کرتے ہیں، وہاں بھی آنے والے کسی مریض کے متعلق معلوم نہیں ہوتا کہ کس میں کورونا ہوگا۔ اور ICU میں تو ہم ہوتے ہی کورونا مریضوں کے بیچ میں ہیں، وہ مرض جس سے بچنے کے لیے لوگ دور ہورہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ڈاکٹروں نے OPDs بند بھی کی ہیں۔ میں جاتی رہی کیونکہ میرے ذہن میں یہی خیال رہا کہ دوسرے مریض بھی تو ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ پھر جب یہ ذمہ داری ملی کہ ہسپتال میں کووڈ یونٹ بنانا ہے اور ICU کو اپ گریڈ کرنا ہے، تو ہم نے کام شروع کیا، ضروریات کی فہرست بنائی۔ پھرکووڈ کے مریض داخل ہونا شروع ہوئے۔ ان کا علاج بھی کرنا ہوتا ہے اور گھر آکر جونیئر ڈاکٹروں سے رابطہ رکھ کر ان کی رہنمائی بھی کرنا ہوتی ہے۔ اور یہ ساتوں دن کی چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ہے۔ تو مصروفیت اور ہر وقت کی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ جو خوف ہے، وہ فوبیا کی طرح تو نہیں ہے۔ یہ خیال آتا ہے کہ مریضوں کو ہماری ضرورت ہے۔ دعائیں پڑھتے رہتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے کچھ آئے تو اس کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ جو نصیب میں ہے وہ تو ہوگا۔ ہمارا کام احتیاط کرنا ہے۔
سوال: وبا کے شروع سے لے کر اب تک کس قسم کے مریض زیادہ تر دیکھنے میں آئے؟ علامات میں کوئی تبدیلی محسوس ہورہی ہے؟
جواب:شروع میں اتنے سیریس مریض ہمارے ہسپتال نہیں آتے تھے۔ بڑی عمر والے ایک دو سیریس مریض آئے تھے، ورنہ بخار، کھانسی ہوتی تھی اور ایکسرے صحیح ہوتا تھا۔ دو مہینے سے کیس بڑھے ہیں۔ سانس کی تکلیف کے ساتھ مریض زیادہ آرہے ہیں۔ وجہ یہی ہوگی کہ مجموعی طور پر تعداد بڑھی ہے تو یہاں بھی زیادہ آرہے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ خوف زدہ ہوگئے ہیں اور آخر میں آتے ہیں۔ مریضوں کی اکثریت پانچ دن سے زیادہ گھر میں گزار کے آرہی ہوتی ہے۔ مریض ہر طرح کے ہی ہیں۔ جوان اور بوڑھے بھی ہیں اور وہ بھی جنہیں کوئی اور بیماری نہیں۔
سوال:کووڈ مریض کو ہسپتال میں داخل کرنے کا کیا پیمانہ ہے؟
جواب:کسی مریض کو سانس کی تکلیف ہو اور اکسیجن سیچوریشن گررہی ہو، یا اس کے ایکسرے میں خرابی ہو خواہ آکسیجن سیچوریشن صحیح بھی ہو۔ ایسے مریضوں کو ہم HDU یا ICU میں داخل کرتے ہیں۔ 50 سال سے اوپر کے مریض، دمہ یا ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر یا کسی اور بیماری کے ساتھ کورونا کے مریضوں کو بھی ہم داخل کرتے ہیں۔ سانس کے علاوہ دوسری تکالیف والے مریضوں کو ہم عموماً داخل نہیں کرتے سوائے اس کے کہ الٹی دست بہت زیادہ ہوں یا بخار بہت تیز ہو۔ ایسے مریضوں کو ہم HDU میں داخل کرتے ہیں۔ ہمارا آئسولیشن وارڈ الگ ہے۔ شروع میں وہاں مریض آئے، لیکن اب لوگ گھر میں ہی آئسولیشن کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہم انہیں احتیاطیں سمجھا کر واپس بھیج دیتے ہیں۔
سوال: یہ چیزیں کتنی مؤثر ہیں؟
Tocilizumab, Remedesvir, Plasma antibodies, steroids
جواب:Tocilizumabہمیں ملنا شروع ہوئی ہے۔ ابھی کم مریضوں پر استعمال ہوئی ہے ، اس لیے نتائج کے متعلق فی الحال کہہ نہیں سکتے۔ Remedesvir بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ پلازما کا یہ طریقہ ہے کہ این آئی بی ڈی سے پلازما منگواتے ہیں۔ ان کا فارم بھر کر ای میل کرتے ہیں، اور بعد میں دس دن مریض کا فالو اپ کرتے ہیں، اور این آئی بی ڈی کو بھی ڈیٹا بھیجتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں، اس لیے ان کے اثر کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اسٹیرائیڈز کا رول گائیڈ لائنز میں لکھا ہے۔ اس میں سے ہم ایک دوا، Solu-medrol ایک مرحلے پر دے رہے تھے۔ اب dexamethasone بھی استعمال کررہے ہیں۔
سوال: وینٹی لیٹر پر ڈالنے کا کیا پیمانہ ہوتا ہے، اور اس کا کتنا فائدہ ہے؟ آپ کے مریضوں میں اوسطاً کتنے لوگ وینٹی لیٹر سے واپس زندگی کی طرف آئے ہیں؟
جواب:وینٹی لیٹر کے بعد واپسی کا تناسب بہت کم ہے۔ مریض کی آکسیجن سیچوریشن گر رہی ہو تو پہلے آکسیجن دینے کے ساتھ Proning، deep breathing exercises، chest physiotherapyکراتے ہیں۔ آکسیجن کی کم مقدار سے شروع کرتے ہیں۔ ضرورت ہو تو بڑھاتے جاتے ہیں۔ ہائی فلوآکسیجن جیسے 15لیٹر فی منٹ تک دیناہو تو non rebreather ماسک لگا کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود سانس سیچوریشن ٹھیک نہ ہورہی ہو تو CPAP یا BIPAP استعمال کرتے ہیں۔ اس کا فیصلہ ٹیسٹ ABGs دیکھ کر کرتے ہیں کہ مریض ٹائپ 1 یا2 Respiratory failure میں ہے۔ اس کے بعد بھی مریض کا سانس صحیح نہ ہو اور سیچوریشن 85 فیصد سے اوپر نہ آئے، مریض غنودگی میں جارہا ہو تو وینٹی لیٹر لگاتے ہیں۔
سوال: کووڈ کی تشخیص سے لے کر پیچیدگیاں دیکھنے کے لیے جو ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں، ان کی کیا ترتیب ہونی چاہیے؟
جواب:سب سے پہلے تشخیص کے لیے کووڈ PCR ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس جو مریض آتے ہیں، ان میں سے کچھ کے پاس رپورٹ ہوتی ہے اور کچھ کا ٹیسٹ ہمیں کرانا پڑتا ہے۔ عموماً وہ علامتوں کے ساتھ ہوتے ہیں، اس لیے PCR اور دیگر ٹیسٹ بھی ہم داخلے کے ساتھ کراتے ہیں:
سینے کاCBC, LDH, CRP, Ferritin, Xray
اگر دوسرے انفیکشنز کا شبہ ہوLactate, procalcitonin, cultures
اگر دوسرے اعضاء کے متاثر ہونے کا شبہ ہو UCE,LFT, glucose levels,
اگر دل کی بیماری کا شبہ ہو۔ECG, Troponin
HRCT ہمارے ہسپتال میں نہیں ہورہا لیکن ایکسرے سے ہی تشخیص ہوجاتی ہے۔
سوال: روزانہ دیکھے جانے والے اور ایڈمٹ ہونے والے مریضوں کی اوسط تعداد کیا ہے؟
جواب: ہسپتال میں کووڈ کی اوپی ڈی الگ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ICU, HDU میں داخلے کے مریض ریفر ہوکر آتے ہیں جو کہ سول، جناح اور شہر کے مختلف ہسپتالوں سے اور ہیلپ لائن نمبر کے ذریعے آرہے ہوتے ہیں۔ روزانہ 10،15 داخلے ہوتے ہیں۔
سوال: داخل شدہ مریضوں میں سے کتنے صحت یاب ہوتے ہیں؟
جواب: ابھی ڈیٹا کا تجزیہ نہیں کیا ہے۔ تقریباً نصف یا اس سے کچھ زیادہ صحت یاب ہوچکے ہیں۔
سوال:آپ کے ICU ، HDU میں میں بیڈز کی تعداد؟
جواب:ICU میں 31 ، HDU میں 155
140 بیڈز آئسولیشن کے ہیں۔ شروع میں وہاں مریض آئے، لیکن اب نہیں آتے۔ آتے بھی ہیں تو گھر واپس چلے جاتے ہیں اور گھر میں آئسولیشن کو ترجیح دیتے ہیں۔
سوال:اس وبا کے دوران یقیناً آپ کو اضافی کام کرنا پڑرہا ہوگا، ایسے میں کیا خیال آپ کو متحرک رکھتا ہے؟
جواب:کام دوگنا بھی نہیں، تین گنا بڑھ گیا ہے۔ صبح ہسپتال جاکر واپسی میں بھی دیر ہوتی ہے۔ اور ویسے ساتوں دن، چوبیس گھنٹے مستعد رہنا پڑتا ہے۔ بس یہ خیال آتا ہے کہ ہم مریضوں کو نہیں دیکھیں گے تو کون دیکھے گا! اور ہمیں جونیئر ڈاکٹروں اور اسٹاف کی بھی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنا ہے۔ اور یہ کہ باقی ہسپتال بھی تو کام کررہے ہیں۔ اللہ ہمت دے۔
سوال: PPE کے ساتھ کام کرنے میں مشکل ہوتی ہے؟
جواب:ہوتی ہے۔ ائیر کنڈیشنر کی سہولت ہے لیکن کبھی گرمی لگنے لگتی ہے۔ دستانے پہن کر لکھنے کا کام اور فون مشکل ہوجاتا ہے۔ گاگلز یا فیس شیلڈ دیر تک لگانے سے بھی الجھن ہونے لگتی ہے، ماسک سے سانس لینے میں دشواری بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسروں کی بات سننے اور بولنے میں دقت ہوتی ہے۔ کبھی ایک دوسرے کی پہچان نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر، نرس، وارڈ بوائے، سوئپر سب ایک جیسے لگتے ہیں۔ اب میں نے کہا ہے کہ سب لوگ اپنے گاؤن پر نام لکھ کر لگائیں۔ حفاظتی گاؤن تین سائز میں آتا ہے۔ کبھی غلط ناپ کا مل جائے تو مشکل ہوتی ہے۔
سوال: کیا ایسے مریض آتے ہیں جو خود یا ان کے لواحقین بیماری کو قبول نہ کریں؟ کیا وجہ ہوتی ہے، آپ کیسے مطمئن کرتی ہیں؟
جواب: پچاس فیصد مریض اور ان کے لواحقین denial phase میں آتے ہیں۔ لوگ چھپاتے ہیں اور گھر میں ہی مررہے ہیں۔ اسی خوف سے گھر میں رہتے ہیں کہ ہسپتال گئے تو ہسپتال والے کورونا بنادیں گے۔ بہت سے طبیعت بگڑنے پر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹائیفائیڈ یا کوئی اور بخار ہے۔ اگر ساتھ میں کوئی اور بیماری بھی ہو تو پھر تو بالکل نہیں مانتے، کہتے ہیں کہ ہارٹ، شوگر، بلڈپریشر، دمہ کی وجہ سے طبیعت خراب ہورہی ہے۔ اگر PCR منفی آجاتا ہے جو کہ تیس فیصد امکان ہوتا ہے تو پھر سمجھانا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ دیگر علامات موجود ہوتی ہیں اور ایکسرے بھی خراب ہوتا ہے۔ اگر مریض کا انتقال ہوجائے تو سرٹیفکیٹ پر لکھنے سے بھی منع کرتے ہیں۔ خصوصاً اگر کوئی اور بیماری بھی ساتھ ہو یا ٹیسٹ کی رپورٹ بعد میں آئے تو اصرار بڑھ جاتا ہے۔ لیکن سب لوگ ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ کچھ بہت سمجھ دار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بعض لواحقین تلخ کلامی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ تم لوگ غلط انجکشن لگاؤ گے،وہ گالیاں دیتے ہیں اور دھمکاتے بھی ہیں۔ کبھی مجمع ہوتا ہے تو گارڈ پر بھی قابو پالیتے ہیں۔ ڈیتھ کے بعد بہت ہنگامہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں مریض دیکھ کر بیماری کا پتا چل رہا ہوتا ہے۔ برسوں سے ٹی بی، نمونیا، pleural effusion، COPD پھیپھڑوں کی بیماریوں کے مریض دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ایسا اچانک تیز بخار اور ڈی سیچوریشن ہم نے ان میں سے کسی مریض میں نہیں دیکھی، اور نہ اتنی مختصر مدت میں ایکسرے ایسا خراب ہوتے دیکھا۔
سوال: کیا مریضوں میں نفسیاتی دباو اور خوف ہے؟ آپ کے جونیئر ڈاکٹروں میں دباو اورخوف ہے؟
جواب:مریضوں میں خوف بھی بہت زیادہ ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی ان کی طبیعت بگڑجائے گی۔ خصوصاً اگر کسی مریض کا ICU میں انتقال ہو تو باقی مریض خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور رونے بھی لگتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہمیں چھٹی دے دیں، ہم گھر جاکر مرنا چاہتے ہیں۔ بعض مریضوں کو anxiety, depression ہوجاتا ہے۔
ہمارے کچھ RMOs چھٹی لے کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ پوسٹ گریجویٹ ٹرینی دباؤ میں ہوتے ہیں۔ کانٹریکٹ پر نئے ڈاکٹر رکھے ہیں۔ ڈاکٹر بھی ہر طرح کے ہیں۔ کچھ گھبرائے ہوئے ہیں لیکن کچھ بہت جذبے سے کام کررہے ہیں۔
سوال: لوگوں میں بہت باتیں پھیل رہی ہیں کہ لیب والے بھی ٹیسٹ کی غلط رپورٹ دے رہے ہیں، ڈاکٹر بھی خود کورونا بنا دیتے ہیں۔ آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گی؟
جواب:ہم تو مریض کی خیرخواہی کرتے ہیں۔ اگر علامات آتی ہیں اور مریض کی حالت بگڑتی ہے تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ ٹیسٹ منفی ہونے کے باوجود ہمارا پیشہ ورانہ تجربہ جو کہتا ہے، ہم اسے جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمیں نہ کسی مریض کو کورونا بنانے کے پیسے ملتے ہیں، نہ سرٹیفکیٹ بنانے کے، نہ کوئی اور فائدہ ہوتا ہے۔ اور نہ کوئی اور ڈاکٹر ایسا کررہا ہوگا۔ ہم لوگ خود مشکل میں ہیں۔ کئی ڈاکٹر بیمار ہیں اور ان میں سے کچھ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ہم پیسے لے کر اپنے ہی لیے موت کیوں خریدیں گے! ہمیں سرکاری اعلان شدہ ہائی رسک الاؤنس بھی نہیں ملا ہے۔ اور ہم میں سے جن کی کانٹریکٹ جاب ہے، ان کی تو برسوں سے تنخواہ بھی نہیں بڑھی ہے۔
سوال: ہسپتال اور حکومت کی طرف سے مریضوں کو دی جانے والی سہولیات سے آپ مطمئن ہیں؟
جواب: ان دو تین مہینوں میں ہمیں بہت سہولیات ملی ہیں ۔ ہمارا ICU, HDU نیا سیٹ ہوا۔ دو ہفتے میں ہمیں وینٹی لیٹرز مل گئے۔ مانیٹرز، سکشن مشینیں، تین پورٹیبل ایکسرے مشینیں، ABG مشین، ECG مشینیں، defibrillator، ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کے لیے گلوز، ماسک، سینی ٹائزر وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ personal protective equipment((PPE، فیس شیلڈز۔ اسٹاف کو اپائنٹ کیا گیا۔ ہر طرح کی دوائیں بھی ہیں۔ ہم جو ڈیمانڈ کرتے ہیں، مل جاتا ہے۔ PCR ٹیسٹ ہسپتال میں نہیں ہوتا لیکن ہمیں یہ سہولت دی ہے کہ DHO کا نمائندہ آکر نمونے لے جاتا ہے اور ۴۸ گھنٹے میں رپورٹ آجاتی ہے۔ ایکسرے رپورٹ کے لیے ریڈیالوجسٹ بھی ہے۔
سوال: ڈاکٹروں اور اسٹاف کے لیے مزید کیا سہولیات ہونی چاہئیں؟
جواب:نیگیٹو پریشر ICU ہونا چاہیے۔ کیونکہ ڈاکٹروں اور اسٹاف کا پہلے ہی اتنا exposure ہوتا ہے۔ ICU سیٹ ہونے کے بعد یہ کام کچھ مشکل ہوگیا ہے۔ اس میں کمرے کے اندر ہوا کا دباؤ منفی یا باہر سے کم رکھنا پڑتا ہے۔ اندر کی ہوا باہر نہیں جاتی یا خاص فلٹر روم میں جاتی ہے اور باہر سے تازہ ہوا زیادہ اندر آتی ہے۔ اسٹاف کی تعداد اتنی ہو کہ ہر پندرہ دن بعد ہم انہیں تین ہفتے کا ریسٹ دے دیں تاکہ مریض نظرانداز نہ ہوں۔ کام کرنے والے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو اضافی الاونس دیا جائے اور یہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ہونا چاہیے۔ ان کا بھی حق ہے۔
سوال: لوگوں نے گھروں میں انجکشنز، pulse oximeters، یہاں تک کہ آکسیجن سلنڈر بھی خرید کے ذخیرہ کیے ہیں، پلازما بیچ رہے ہیں۔ اس پر آپ کا تبصرہ؟
جواب:بہت ہی غلط بات ہے۔ ایسے موقع پر جب دوسروں کی مدد کا جذبہ بڑھ جانا چاہیے، ایسا کرنا بے حسی اور خدا خوفی کی کمی کی علامت ہے۔ اللہ کی رحمت کہ اس نے ہمیں محفوظ رکھا۔ ہم خواہ کتنی ہی تدبیر کرلیتے یہ ممکن نہ ہوتا۔ تو یہ اس کا شکرانہ ہے کہ ہم اُن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی نہ کریں جن کی بیماروں کو ضرورت ہے۔ جو دکان دار ہیں، وہ ان چیزوں کے نرخ کم کریں۔ اسی طرح شروع میں ماسک اور گلوز کی کمی ہوگئی تھی، لوگ جعلی سینی ٹائزرز بنا کر بیچ رہے تھے۔ ان حالات میں تو کثرت سے استغفار کرنا چاہیے۔ اسی طرح جسے بیماری سے دوسری زندگی ملی، وہ شکرانے کے طور پر پلازما دے۔ اگرچہ یہ یقینی علاج نہیں لیکن اس کے ذریعے بھی کوششیں جاری ہیں۔
سوال: ہیلتھ کیئر سے وابستہ لوگوں کی اسکریننگ کیسے ہونی چاہیے؟
جواب: ہیلتھ کیئر سے وابستہ لوگ، اگر علامات ظاہر ہوں یا direct exposure ہوا ہو، تو ٹیسٹ کروائیں۔ exposureہوا ہو اور علامات نہ ہوں تو ایک ہفتہ آئسولیشن کرکے واپس اجائیں۔
سوال: کیا اپ کے ہسپتال میں ڈاکٹروں اور ان کی فیملی کے لیے بیڈ مختص کیے گئے ہیں؟
جی ہاں HDU اور ICU میں بیڈ مختص ہیں۔
سوال:عوام اور ڈاکٹروں کے لیے آپ کا کوئی پیغام؟
جواب:اس بیماری کو چھوٹا یا ہلکا نہ سمجھیں۔ یقین نہ آئے تو ہسپتال آکر دیکھ لیں۔ پی پی ای پہن کر مریضوں کو دیکھیں۔ یہ مرض سازش ہو یا نہ ہو، پھیل چکا ہے۔
احتیاطی تدابیر میں کاہلی نہ کریں۔ کوئی علامت ہو تو مستند ڈاکٹر سے مشورہ لیں۔
جن کو بیماری ہوئی ہے، انہیں اچھوت نہ سمجیں۔
گھر میں کوئی بیمار ہے تو PPE پہن کر اُس کی دیکھ بھال کریں۔ خصوصاً بوڑھوں کو نہ چھوڑیں۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ بوڑھے مریض کمرے میں اکیلے رہے، کوئی انہیں اٹھانے بٹھانے والا بھی نہیں تھا، اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔ یہ غلط بات ہے۔ ڈاکٹر بھی تو مریضوں کے قریب جاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے لیے میرا پیغام ہے کہ ڈریں نہیں، بلکہ اس مرض کا مقابلہ کریں۔ دوسرے مریضوں کو نظرانداز نہ کریں اور ان کے لیے OPD کریں۔ وہاں triage ایریا بنائیں (جہاں مریضوں کو چھانٹ لیں) تاکہ آپ کے ساتھ باقی مریضوں کی حفاظت بھی ہوسکے۔
یہ پیشہ ہمارا انتخاب تھا اور ہم نے حلف اٹھایا ہوا ہے۔ کڑے وقت میں بیٹھ جانا اور محاذ سے پیچھے ہٹ جانا سراسر غلط ہے۔
آپ کا بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو مریضوں کی خدمت کا اجر دے۔

حصہ