پہاڑوں کے بیٹے

294

اُمِ ایمان
(پندرہویں قسط)
اس معرکے میں گل رحمن ایک چٹان سے ٹیک لگائے اطمینان سے بیٹھا تھا، ہم نے اس کی طرف فائرنگ کی بوچھاڑ کی، ٹینک کے ذریعے بھی نشانہ بنایا، لیکن جب گرد و غبار کا طوفان بیٹھتا تھا وہ اسی طرح پوزیشن پر بیٹھا نظر آتا تھا۔ اس کی ہیبت ہی تھی جس نے اتنی بڑی فوج کو جو مکمل ہتھیاروں سے لیس تھی، پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔
لیکن جب بعد میں پتا چلا کہ وہ تو بہت پہلے شہید ہوچکا تھا تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ میں نے دوربین سے اس کا خوب نظارہ کیا تھا، اس کی آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں کی مسکراہٹ اب بھی میرے ذہن کے پردے میں محفوظ ہے، بلکہ میں نے تو خود اس کے ہاتھوں کو کلاشنکوف اور بعد میں مشین گن چلاتے دیکھا تھا۔
اس واقعے کے بعد مجھے اپنا ایک ایک پل افغان فوج کے ساتھ گزارنا عذاب کی طرح لگنے لگا، اور میں جتنی جلدی ہوسکا بھاگ کر مجاہدین سے آملا۔
اس سے پہلے میں ایک دفعہ چھٹی پر اپنے باپ اور گھر والوں سے ملا اور اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ میرے باپ نے میری سخت مخالفت کی اور کہا کہ اب جب کہ ہماری آسائش کے دن آئے ہیں تو تم فوج کی نوکری چھوڑ رہے ہو! کرنل ہونے کے لحاظ سے میری تنخواہ اور گھر بار، پھر عہدے کا رعب… میرا باپ مجھ پر سخت ناراض ہوا، اس نے مجھے برا بھلا کہا، لیکن میرا ارادہ تبدیل نہ ہوا۔
اور ایک دن میں موقع پر اپنے گھر سے نکلا اور مجاہدین سے آملا۔
عبدالاحد! تم نے صحابیِ رسول حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی تقلید کی ہے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ نہایت آسودہ زندگی گزار رہے تھے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑوں اور خوشبویات کا استعمال ان کی عادت تھی، لیکن جب سرورِ کائناتؐ نے دعوتِ حق کا آوازہ بلند کیا تو مصعبؓ کے دل و دماغ پر اس کا گہرا اثر ہوا اور انہوں نے توحید کی آواز پر لبیک کہا۔ لیکن مشرکین بھلا ان کو یوں ہی چھوڑنے والے تھے! انہوں نے ظلم و ستم کے ایسے ہتھکنڈے اختیار کیے کہ توحید کے شیدائیوں کا جینا دوبھر کردیا۔‘‘
ابوخبیب نے گرم جوشی کے ساتھ عبدالاحد سے اٹھ کر ہاتھ ملایا اور سینے سے لگا کر گرم جوشی سے تھپکی دی۔
’’جانتے ہو مصعبؓ بن عمیر کی شہادت پر رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا۔‘‘ ابوخبیب نے اپنی جگہ پر دوبارہ بیٹھتے ہوئے ساتھیوں سے پوچھا۔
سب تجسس کے ساتھ ابوخبیب کو دیکھنے لگے۔
’’جنگِ اُحد میں جب کہ ایک اتفاقی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیل گئی، اس خبر سے مسلمانوں کی فوج تین گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ پہلے گروہ نے کہا ’’رسولؐ اللہ کے بعد لڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ اور یہ کہہ کر مدینے کی راہ لی۔
دوسرے گروہ نے کہا ’’حضورؐ کے بعد جینے سے کیا حاصل؟ اور پھر شہادت کے لیے مردانہ وار لشکرِ کفار میں گھس گئے۔ تیسرا گروہ وہ تھا جو حضورؐ کے گرد حصار بنا کر حفاظت کررہا تھا اور یہ گروہ صرف چودہ جانبازوں پر مشتمل تھا۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر دوسرے گروہ میں سے تھے، انہوںنے یہ خبرسن کر قرآن کی یہ آیت تلاوت کی ’’اور محمد تو ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں‘‘ (آل عمران)، اس کے ساتھ انہوں نے نعرہ لگایا کہ ’’میں رسولؐ اللہ کا عَلم سرنگوں نہ ہونے دوں گا‘‘، اور پھر ایک ہاتھ میں شمشیر آب دار اور دوسری میں عَلم اٹھاکر کفار پر ٹوٹ پڑے۔ ابن قیمہ کفار کا ایک مشہور اور نامور شہسوار تھا، اس نے تلوار کا زوردار وار کیا اور عَلم والا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ حضرت مصعبؓ نے فوراً دوسرے ہاتھ سے عَلم تھاما۔ ابن قیمہ نے دوسرے وار سے اسے بھی شہید کرڈالا، اب کٹے ہوئے بازوئوں کے ساتھ حضرت مصعبؓ نے عَلم کو تھام لیا اور سینے سے چمٹا کر کھڑے ہوگئے۔ اب ابن قیمہ نے جھنجھلا کر سینے پر نیزے کا وار کیا اور مصعبؓ بن عمیر شہید ہوگئے۔‘‘
ابوخبیب یوں بیان کررہے تھے جیسے ان کی آنکھیں صدیوں کا فاصلہ طے کرکے اس معرکے کو دیکھ رہی ہوں۔
’’میرے ساتھیو! مصعبؓ بن عمیر کی شہادت کے بعد بھی عَلم نہ گرنے پایا، ان کے بھائی ابوالروم بن عمیر نے بڑھ کر اس کو تھام لیا اور جنگ کے اختتام تک اس کو سنبھالے دادِ شجاعت دیتے رہے، اور جنگ ختم ہونے کے بعد اسی طرح اسے مدینہ لائے۔‘‘
’’ابوخبیب! آپ بتا رہے تھے کہ مصعبؓ بن عمیر کی شہادت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا‘‘۔ عبدالاحد نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’ہاں، جب قریش میدانِ جنگ سے چلے گئے اور مسلمان اپنے شہیدوں کے کفن دفن کی طرف متوجہ ہوئے تو ان شہیدوں میں مصعبؓ بن عمیر خاک و خون میں غلطاں نظر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شہادت کا بہت صدمہ ہوا، آپؐ نے ان کے قریب کھڑے ہوکر یہ آیت تلاوت کی (ترجمہ) ’’مومنین میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا اسے سچ کر دکھایا۔ بعض ان میں سے اپنی مدت پوری کرچکے ہیں اور بعض ابھی انتظار کررہے ہیں اور انہوں نے اپنے ارادے میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا‘‘۔
’’عبدالاحد! آپ کو مصعبؓ بن عمیر کی تقلید مبارک ہو، خدا آپ کو ان کی طرح شہادت سے سرفراز کرے۔‘‘ شیر دل جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا تھا، بول اٹھا۔ اس کے ساتھ ہی ہر طرف سے عبدالاحد کے لیے مبارک باد کا شور اٹھا۔ مجاہدین کی تعداد تو زیادہ نہ تھی لیکن آوازوں کا شور بہت زیادہ تھا، تمام مجاہدین حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابوخبیب مسکرا کر بولے ’’شاید فرشتے بھی عبدالاحد کو مبارک باد دے رہے ہیں۔‘‘
…٭…
زبیر کی نظر جمال اور کمال کے قدموں پر پڑی۔ فرش پر ان کے زخمی خون آلود پائوں کے نشانات چمک رہے تھے۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر فوجیوں کو رکنے کے لیے کہا، لیکن اس کے حلق سے کوئی آواز نہ نکلی۔ فوجی اس کے بیٹوں کو کھینچتے ہوئے دروازے میں غائب ہوگئے۔
زبیر نے مڑ کر دیکھا، فیروزے خان بھی کب کا جا چکا تھا۔ ’’یاخدایا! میں انہیں کیسے روکوں؟‘‘
ایک سپاہی نے زبیر کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ اس کے ذمے زبیر کو اس کے کمرے تک پہنچانا تھا۔ زبیر کسی معمول کی طرح آگے بڑھا۔ دل تڑپ رہا تھا لیکن دماغ کہہ رہا تھا کہ ’’ذرا صبر کرو، ذرا ٹھیرو، اگر انہیں ذرا سا بھی شک ہوگیا کہ یہ تمہارے بیٹے ہیں تو ان کا بچنا ناممکن ہوجائے گا۔‘‘
کمرے میں داخل ہوتے ہوئے زبیر نے مڑ کر سپاہی کی طرف دیکھا اور کہا کہ ’’میں کرنل فیروزے سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کس سلسلے میں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’بس یوں ہی، مجھے ایک بات پوچھنی تھی۔‘‘ زبیر نے بات بنائی۔
’’اب تو کل صبح ہی ملاقات ہوسکے گی۔‘‘
’’نہیں نہیں! صبح نہیں، ابھی اِسی وقت۔‘‘ زبیر نے زور دے کر کہا۔
سپاہی نے مشکوک انداز میں اسے دیکھا ’’اچھا میں کوشش کروں گا‘‘، اور دروازہ بند ہوگیا۔
انتظار اور انتظار… شاید ایسا جان لیوا انتظار کسی نے نہ کیا ہو۔
ٹہل ٹہل کر جب تھک جاتا تو بستر پر بیٹھ کر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتا: ’’میری جان! میرے بیٹو! آخر یہاں کیسے پہنچ گئے؟‘‘
زبیر ساری رات تڑپتا رہا۔ ٹہل ٹہل کر اس کی ٹانگیں تھک گئیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ وضو کرکے خدا کے حضور سر جھکا دیتا۔ دل کو تھوڑا سکون ہوتا، لیکن پھر وہی بے چینی اور بے سکونی۔ بیٹوں کے زخمی گھسٹتے ہوئے وجود نظروں میں پھرنے لگتے۔ ’’یاخدا! یہ رات اس قدر لمبی کیسے ہوگئی؟ پو پھٹنے کا نام نہیں لیتی۔‘‘
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، سیاہ آسمان پر ستارے جگمگا رہے تھے۔ خدا خدا کرکے رات گزری۔ ناشتا لے کر آنے والے سپاہی سے زبیر نے اپنا مطالبہ دہرایا۔ اس نے سر ہلایا۔
زبیر نے ناشتے کو دیکھا، دل اگرچہ نہیں چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی اس نے پیٹ بھر کر ناشتا کیا ’’پتا نہیں آنے والے وقت میںکیا معاملہ درپیش ہو۔‘‘
فیروزے خان اپنے دفتر میں ملا، اس نے زبیر سے اس قدر بے چینی ظاہر کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔ زبیر نے قلم اور سادہ کاغذ لے کر دو جملوں میں روداد تحریر کی:
’’بھائی! کل دو لڑکے جو پکڑے گئے ہیں، وہ میرے بیٹے جمال اور کمال ہیں، وہ زخمی ہیں ان کی مدد کرو۔‘‘
فیروزے نے یہ تحریر پڑھی اور لائٹر سے ایش ٹرے میں جلا ڈالی اور پھر احتیاط کے ساتھ واش روم میں بہا دیا۔ پھر ٹیلی فون اٹھا کر کسی سے بات کی اور پھر ٹوپی اٹھائی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’چلو آئو دیکھتے ہیں۔‘‘
دس منٹ بعد وہ لوگ بلڈنگ نمبر 99 میں داخل ہورہے تھے۔ زبیر کو یاد آیا کہ پہلے دن وہ لوگ تقریباً آدھا گھنٹہ جیپ میں گھما کر اسے بلڈنگ کی طرف لائے تھے۔ ضرور وہ لوگ انہی راستوں میں چلاتے رہے تھے، میری آنکھوں پر تو پٹی تھی۔ یہاں کسی قسم کی ٹریفک کی آوازیں بھی نہیں آتی ہیں۔ زبیر کو یاد آیا۔
فیروزے کے پیچھے جب وہ ایک کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ جمال اور کمال دونوں خون میں لت پت لوہے کی کرسی پر بندھے پڑے ہیں۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر سخت چہرے والا روسی، جس کے چہرے پر انتہا کی سختی اور منحوسیت برس رہی تھی، مڑا ’’کرنل فیروزے! ان لڑکوں نے آخر تک زبان نہیں کھولی۔‘‘
زبیر اپنے بیٹوں کو دیکھ رہا تھا۔ کھلی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی مسکراہٹ سر سے بہتے خون کی لکیروں کے باوجود واضح نظر آرہی تھی۔
’’کیا یہ مر چکے ہیں؟‘‘ فیروزے نے روسی سے پوچھا۔
’’ہاں یہ تو سورج نکلنے سے پہلے ہی مر گئے تھے۔ دراصل یہاں آنے سے پہلے ہی ان پر بہت زیادہ تشدد کیا جا چکا تھا۔ یہ تو میری چند گھنٹوں کی تفتیش بھی برداشت نہ کرپائے۔
زبیر کو اپنے خون میں ابال سا محسوس ہوا، اچانک وہ آگے بڑھا اور روسی کی گردن اپنے دونوں ہاتھوں میں دبوچ لی۔ اس کے جسم کی ساری قوت گویا ہاتھوں میں در آئی تھی۔ فیروزے نے آگے بڑھ کر زبیر کو روکنا چاہا لیکن اتنی دیر میں روسی کا مُردہ جسم زبیر کے ہاتھوں میں جھول رہا تھا۔
’’یا اللہ! زبیر تم نے یہ کیا آفت ڈھائی؟ تمہیں پتا ہے کہ روسی کی موت ہماری موت بھی ثابت ہوسکتی ہے۔‘‘
’’فیروزے بھائی میں اپنے بیٹوں کے قاتلوں کو یوں کیسے چھوڑ سکتا تھا!‘‘
فیروزے نے چند لمحے سوچا، پھر اس روسی کو فرش پر لٹا کر اوپر سے بندھا ہوا بھاری وزن رسّی کھول کر دیکھا اور اس کو فرش پر گرایا عین روسی فوجی کے سر پر… سر کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز آئی اور کافر کا ناپاک خون فرش پر بہنے لگا۔
دروازہ کھلا اور دو سپاہی شور سن کر اندر داخل ہوئے۔ فیروزے نے سپاہیوںکو صورت حال سے آگاہ کیا۔ دونوں نے معاملے کا جائزہ لیا اور سر ہلاتے ہوئے باہر چلے گئے۔
فیروزے بھی زبیر کو لے کر اپنے آفس چلا آیا۔ خون نے خون کی چمک اور سرخی کو پہچان لیا تھا۔ فیروزے کا چہرہ اگرچہ جذبات کا اظہار نہیں کررہا تھا کہ یہ حکمت کا تقاضا تھا، لیکن وہ دل ہی دل میں فیصلہ کرچکا تھا۔ جمال اور کمال کے چہروں کی حسین مسکراہٹ اسے منزل کا پتا سمجھا گئی تھی۔
فیروزے نے چند اور افغان سپاہیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جو پہلے ہی روسیوں کے مظالم سے بے زار تھے۔
ابتدا میں کئی مہینوں انہوں نے مجاہدین کو افغان ڈاکٹر کے ساتھ مل کر مُردہ ظاہر کیا، کیوںکہ انہیں بے ہوشی کا انجکشن دے دیا جاتا تھا، اور پھر دفنانے کے بہانے انہیں آزاد کردیتے۔ لیکن انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ ان کا یہ سلسلہ زیادہ عرصے نہیں چل سکتا۔ زبیر نے چند مجاہدین کے ہاتھوں کمانڈر ادریس کو پیغام بھی بھیجا اور آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں پوچھا تھا کہ یا تو اس سینٹر کو تباہ کرکے مجاہدین سے آملیں، یا یونہی خاموشی سے مجاہدین کی مدد کریں؟ کمانڈر ادریس نے انہیں ابھی وہیں رکنے کا پیغام بھیجا تھا۔
فیروزے زبیر سے کئی دفعہ کہہ چکا تھا کہ یہاں رہنا خطرناک ہے۔ روسیوں کو کسی لمحے بھی شک ہو سکتا ہے۔
ایک دن جب زبیر، فیروزے کے آفس آیا تو دیکھا کہ وہ بہت گھبرایا ہوا ہے۔ چہرہ خوف و دہشت سے سفید ہورہا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ