مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

426

یوں تو اس عمر تک آتے آتے انسان لاتعداد پیاروں کو دنیا سے جاتے دیکھتا ہے، صدمات برداشت کرتا ہے، سنبھل کر پھر کاروبارِ زندگی میں مصروف ہوجاتا ہے۔ لیکن اب کے تو جانے والوں کا یوں تانتا بندھ گیا ہے کہ سیدالانبیاءؐ کی وہ حدیث، جس میں آپؐ نے اس دنیا کی ایک جامع تعریف کی ہے، وہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے۔ سید الانبیاءؐ نے فرمایا: یہ دنیا ’’عابرِ السبیل‘‘ یعنی ایک عبوری پڑائو (Transit Lounge) ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے ایک ایسا عالم ہے کہ جیسے ریلوے کے کسی پلیٹ فارم پر انتظار گاہ کے دروازے پر کھڑا ہوں اور اچانک کسی ٹرین کی آمد کا بگل بجتا ہے اور ایک پیارا اور محبوب شخص کشاں کشاں ٹرین کی جانب روانہ ہوجاتا ہے۔ تیز رفتاری کا عالم یہ ہے کہ رخصت ہونے کی اجازت کا مرحلہ بھی نہیں آنے پاتا۔ دنیا جب پُرسکون اور پُرامن تھی تو وہ جنہیں اللہ نفسِ مطمئنہ کی موت نصیب کرتا تھا، ایسے لوگ موت کے ہنگام میں کس قدر پُرسکون ہوا کرتے تھے۔
ہر کسی سے اجازت طلب کرتے اور اپنے پیاروں سے اگلی زندگی میں اللہ کے فضل و کرم اور عنایت کے سہارے ملنے کا وعدہ کرکے ایسے رخصت ہوتے جیسے جہاز کی بورڈنگ کا اعلان ہوا، اعمال کی گٹھڑی ہاتھ میں پکڑی، آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تولا اور اپنے اللہ کی رحمت پر بھروسا کرتے ہوئے آخرت کے جہاز پر سوار ہوگئے۔ لیکن سید الانبیاءؐ نے آج کے دور یعنی آخر الزمان کی تیز رفتاری کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے، فرمایا ’’اُس وقت تک قیامت نہیں آسکتی جب تک زمانہ آپس میں بہت قریب نہ ہوجائے‘‘۔ یعنی سال مہینے کے برابر، مہینہ ایک ہفتے کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر، اور دن ایک گھڑی یا گھنٹے کے برابر، اور گھنٹہ ایسے، جیسے چنگاری جلی اور بجھ گئی۔‘‘ (ترمذی، ابنِ حبّان) ۔
دنیا کی تیز رفتاری اور وقت کی کمیابی آج ہمیں وہیں پر لے آئی ہے، اور دنیاوی دوڑدھوپ میں ہمارا حال بالکل سورۃ ’’التکاثر‘‘ کی ابتدائی آیات والا ہوچکا ہے ’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ تم اسی فکر میں غلطاں قبروں کے کنارے پہنچ جاتے ہو۔‘‘
دنیا کی ایسی ہی مصروفیت ہم پر مدتوں سے غالب تھی کہ اللہ نے ہمیں جھنجھوڑنے اور موت کی یاد دلانے کے لیے ’’کورونا‘‘ بھیجا، اور ہمارے پیاروں کو اپنے پاس بلانا شروع کردیا۔
میری عمر کے لوگوں پر ایک وقت میں یہ عالم تو ضرور آتا ہے کہ یارانِِ سفر ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگتے ہیں، لیکن اتنی تیزی سے ایک ساتھ اتنے لوگوں کے جانے کے دکھ کا زندگی میں پہلی دفعہ تجربہ کررہا ہوں۔ ماضی میں بھی جب شہر وبائوں کے غلبے میں انسانوں سے خالی ہوتے تو لکھنے والوں کا قلم دکھ اور کرب کی جو کہانیاں لکھتا تھا، ان میں بیان کی گئی کیفیت آج کے ماحول جیسی ہے۔ موجودہ کورونا وائرس خاندان کا سربراہ، جب 1918ء میں ’’ہسپانوی فلو‘‘ کے نام سے آیا تو کیتھرین این پورٹر (Katharine Anne Porter) کے ناول کی ہیروئن مرنڈا کے جو روز و شب اس نے ناول میں دکھائے گئے ہیں، وہ دراصل مصنفہ کی اس اذیت ناک زندگی کے آئینہ دار ہیں جو اس نے وبا کے دوران گزاری تھی۔
مرنڈا قرنطینہ میں ہوتی ہے اور پورے ناول میں شہر کا نقشہ ویسا ہی دکھایا گیا ہے جیسا آج کے کسی شہر کا عالم۔ ماسک پہنے، ایک دوسرے سے دور زندگی گزارتے انسان۔ ناول کی مصنفہ کیتھرین جب فلو کے خاتمے کے بعدگھر سے باہر نکلی تو اُس نے ایک انٹرویو میں کہا ’’ایسا لگتا تھا جیسے میں لوگوں سے ملنا جلنا، دوست بنانا، ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا سب کچھ بھول گئی ہوں۔‘‘
کچھ مہینوں یا برسوں بعد جب کورونا ختم ہوجائے تو شاید ہم لوگوں کی بھی حیرت کا یہی حال ہو۔ لیکن اُس وقت تک ہماری بزم سے پتا نہیں کتنے لوگ کوچ کرجائیں۔
چند دن پہلے طارق عزیز اور اسحاق نور کا نوحہ تحریر کیا، تو لاتعداد ایسے دوستوں کا ذکر چھوڑ گیا کہ ان کی موت تو میرا ذاتی دکھ تھا۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ صرف چند دن بعد ہی اس موسمِ غم میں ماتم گساری کے لیے ایک اور فہرست تیار ہوجائے گی۔ یارِ خوش گفتار ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کہ جسے میں نے زندگی میں کبھی ڈاکٹر کہا اور نہ شیخ۔ میرے لیے تو وہ پنجاب یونیورسٹی کا قاری مغیث تھا، جس کے پیچھے نماز پڑھنے اور اس کے لحنِ دائودی کے سحر کا عین عالمِ شباب میں بھی لطف آتا تھا۔ ایک بڑا آدمی تھا، چند کمروں والے شعبۂ صحافت کو ابلاغ عامہ کے اتنے بڑے ادارے میں تبدیل کرگیا۔ کون تھا جو اس ادارے میں آکر طلبہ سے مخاطب ہونے کو خوش نصیبی شمار نہیں کرتا تھا! مفتی نعیم چلے گئے کہ زندگی بھر جن سے براہِ راست آمنا سامنا نہ ہوسکا، لیکن ٹی وی شوز میں جب کبھی سیکولر لبرل بوچھاڑ ہوتی، دین کا مضحکہ اڑانے والے میدان میں اترتے، مفتی صاحب اپنا کُل اثاثہ لیے میدان میں کود پڑتے۔ لاتعداد شوز میں ان کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ ایک ایسا سچا اور کھرا مومن جسے دین کے دفاع کے لیے کبھی جبّہ و دستار کی فضیلت کی پروا رہی اور نہ ہی اپنے مقام و مرتبے کی۔ جو کچھ تھا اُس نے اس جنگ پر قربان کردیا۔ سوچتا ہوں کہ جب مفتی صاحب کی روح اللہ کے حضور حاضر ہوئی ہوگی تو وہ تمام دشنام، طعنے جو انہوں نے ان ٹاک شوز میں برداشت کیے تھے، یہ سب کے سب دامن کے داغ بن کر کیسے بارگاہِ ایزدی میں روشن ہوئے ہوں گے۔
ٹیلی ویژن کی مجلس شامِ غریباں کہ جسے بچپن میں علامہ رشید ترابی کے علمی جلال کے ساتھ سننا شروع کیا تھا، 1973ء میں ان کے انتقال کے بعد بے کیف سی ہوگئی تھی۔ چند سال کے وقفے میں بہت سے لوگ اس مسند پر آئے لیکن جس شخص نے علامہ رشید ترابی والے علم کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی پیاس بجھائی وہ علامہ طالب جوہری تھے۔ دونوں کا کمال یہ تھا کہ اپنے موضوع کو قرآن اور صرف قرآن کی حکمت سے سجاتے اور سنوارتے تھے۔ علامہ طالب جوہری جیسی فصاحت اب کہاں سننے کو ملے گی۔
کیا المیہ ہے، موت نے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے، یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور سامنے ٹیلی ویژن پر سید منور حسن کے رخصت ہوجانے کی خبر چل رہی ہے۔ ایک دم ایسے لگا جیسے جماعتِ اسلامی کا دامن بالکل خالی ہوگیا ہے۔ ایک سکتے کا عالم ہے۔ اتنا بڑا آدمی چلا گیا۔ وہ کہ جو آج کے دور میں ایک مردِ حق کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔ میں نے پینتالیس سال اس شخص کے چہرے پر عجز و انکسار اور غیرت و حمیت کی گرم جوشی کو باہم رنگ آمیزی کرتے ہوئے دیکھا۔ ان دونوں کا ملاپ اس مردِ مومن کا چہرہ تھا۔ ایک مجسم سجدہ چہرہ۔ لیکن اللہ کے نام کی غیرت پر شعلے کی صورت روشن۔ عابدِ شبِ زندہ دار، کہ جس کی خلوتیں اللہ کے روبرو عاجزی میں گزرتیں اور دن اس کے نام کی سربلندی کے لیے شمشیرِ بے نیام کی طرح مسلسل جہاد میں رہتے۔
منور حسن تو اپنی ذات میں ایک ایسی انجمن تھے کہ جن کے جانے سے اس اقبال کے ساقی نامے والے مئے خانے کا دروازہ ہی بند ہوگیا۔ اب اس ساقی خانے کے وہ متوالے زندہ ہی نہیں جو ہتھیلیوں پر سروں کے چراغ روشن لیے پھرا کرتے تھے، اور پھر ایک دن وہ انہی روشن چراغوں کے ساتھ زمین کا رزق ہوگئے۔ منور حسن کو دفنانے والے یہ راز خوب جانتے ہیں کہ

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

جدید دور کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ جن صاحبانِ علم و گفتار کو سننا چاہو تو ان کی ہزاروں ریکاڈنگ موجود ہیں۔ جب چاہا انہیں دیکھ کر پیاس بجھالی۔ لیکن عمرِ عزیز کے وہ ساتھی کہ جو تصویر میں محفوظ تھے نہ تقریر میں، وہ سب بھی یوں ہی چلے جارہے ہیں، جیسے درختوں سے آفتوں کے موسم میں پرندے کوچ کیا کرتے ہیں۔ ان کی یاد تو دہرا عذاب ہے کہ ہر دفعہ آنکھیں بند کرکے ان محفلوں میں لوٹنا پڑتا ہے جہاں وہ ہنس بول رہے تھے، اور واپس آنکھیں کھولو تو چہرہ یاد کے آنسوئوں سے تر ہو جاتا ہے۔

حصہ