فکر مودودی کے اثرات اور مغربی مفکرین

1781

مجتبیٰ فاروق/ مرتب: اعظم طارق کوہستانی
مولانا مودودی( ۱۹۷۹ ء ۔۱۹۰۳ء) بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر ، مفسر ، مورخ ،متکلم، قائد اور مجدد تھے ۔ جنھوں نے دین اسلام کے احیائے نو کے لیے امت میں نئی روح پھونک کر فکر اسلامی کو پر اعتماد ،عمدہ اور مدلل اسلوب میں اجاگر کیا ۔ مغربی فکر وتہذیب سے مرعوبیت کے شکار نئی نسل اسلام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے وہ اسلام کوفرسودہ اور ازمنہ وسطیٰ کا مذہب سمجھتے تھے اور الحاد کو اپنا قبلہ منتخب کر چکے تھے اس مرعوبیت پر مولانا مودودی نے کاری ضرب لگادی ۔ آپ نے اپنی تحریروں سے نوجوانوںکو حیرت انگیز حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔ مغربی فکر و تہذیب اور الحاد وبغاوت کی قعرِ مذلت اور بحر ظلمات سے نکال کر سراپا اسلام کے شیدائی بنا دیا ہے۔مولانا مودودی نے جس دور میں علمی ، فکری اور تحقیقی کام شروع کیا وہ مغربی فکر و فلسفہ ار اشتراکیت کے غلبہ کا زمانہ تھااور ان ہی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ علمی و فکری افق پر صرف ان ہی کی پکار سے لوگ مرعوب ہورہے تھے ۔ ان کے بغیر لوگوں کو کوئی اور آواز متاثر نہیں کر رہی تھی ۔یہ مولانا مودودی ہی تھے جنھوں نے اسلام کو فعال ، متحرک اور مدلل بنایا اور اس کے غالب ہونے کا تصور دیا ۔ انھوں نے اسلامی فکر اور اس کے لازوال عقائد ،نظام معیشت و تجارت،نظام معاشرت و خاندان ،نظام تعلیم و تربیت ،نظام سیاست اورملکی و بین الاقوامی قوانین ، تحریک و دعوت اور سماجیات پر نادر کتابیں لکھ کر عصر حاضر میں اسلام کے توانا وجود کو منوایا ۔ انھوں نے نہ صرف مغربی فکر و تہذیب سے مرعوبیت کوختم کرنے میںبھی نہایت اہم رول ادا کیا بلکہ مغربی دانشوروں کے اعتراضات کی تردید بھی کی اور ان کا عقلی و منطقی دلائل سے زبر دست مقابلہ کیا ۔ نیز تورات (عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید) اور عیسائی ویہودی مصنفین کے حوالوں سے عیسائیت اور یہودیت کے فسادات اور تضادات بھی مبرہن کئے ہیں۔
مولانا مودودی ان چند اسلامی مفکرین میں سے ہیں جنھوں نے برطانوی استعمار کے مذموم مقاصد اور مغربی فکر و فلسفہ کا نہ صرف صحیح ادراک کیا بلکہ اس کے تدارک لئے فکری جہاد بھی کیا ۔ ان کی فکر ابتدا ہی سے دفاعی نہیں بلکہ اقدامی نوعیت کی تھی اور ان کے افکار میں مرعوبیت اور معذرت پسندانہ لہجہ کا شائبہ تک بھی نہیں تھا ۔انھوں نے اسلام کو اسی طرح پیش کیا جس طرح ماضی میں امام غزالیؒ ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہ ؒجیسے مجددین نے پیش کیا ۔ مولانا کو اگر انہی کی صف میں شامل کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔مولانا مودودی نے اسلام کا جامع ،مکمل اور واضح تصور پیش کیا اور اپنی شاہکار تحریروں کے ذریعہ فکر اسلامی کے مختلف گوشوں پر قابل فخر کام کیا ۔نیز جدید افکار و نظریات کا علمی اور تحقیقی انداز (Systematic) سے تنقیدی جائیزہ بھی لیا ۔انھوں نے جہاں مغربی فکر و تہذیب کا طلسم توڑا وہیں ان دانشوروں پربھی زبر دست فکری حملہ سے تنقیدی جائیزہ بھی لیا ۔انھوں نے جہاں مغربی فکر و تہذیب کا طلسم توڑا وہیں ان دانشوروں پربھی زبر دست فکری حملہ کیا جو اسلام اور اس کی تہذیب کو ماضی کا قصہ پارینہ اور فرسودہ تصور کرتے تھے ۔ مولانا موصوف بیسویں صدی کے ایک ایسے مفکر تھے جنھوں نے اسلام کونہایت پرزور اور مدلل انداز میں دنیائے انسانیت کے لیے متبادل قرار دیا اور اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے قابل عمل ٹھہرایا ۔انھوں نے ان حا لات میں کا م کیا جب مغربی فکر و تہذب کا رعب لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھااور مسلمانوں کی کوئی تحریک نہیں تھی ، کوئی نظریہ اور تعلیمی نظام نہیں تھا ، فہم و بصیرت کا زویہ متعین نہیں تھا ،اور جو کچھ تھا وہ بھی زوال پزیر تھی غرض کہ مسلمان ہر معاملے میں یاس وقنوطیت اور روایت پسندی کے بھول بھلیوں کے شکار تھے اور مسلم معاشرہ ہر طرف بے یقینی کی دلدل میں اتر گیا تھا ۔انہی حالات میں مولا نا مودودی نے علمی سفر شروع کیا ۔ ولی نصر لکھتے ہیں کہ :
’’اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام انسانی زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے اور قرآن پاک مکمل دستور العمل ہے۔ یہ ہرزمانے کے لیے کامیابی اور فلاح وبہبود کا ضامن ہے جو دنیائے انسانیت کے لیے ہمیشہ قابل تقلید رہے گا۔ سید مودودیؒ نے اس بحث کو مضبوط استدلال سے واضح کیا اور انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک خاص اسلوب اور نہج میں ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیاہے۔ برصغیر میں اسلام ایک مکمل نظام زندگی کے طور پیش کرنے کا سہرا مولانا مودودیؒ کے سر ہی بندھتا ہے۔‘‘ اُنھوں نے اس کی توضیح وتشریح گہرائی اور انتہائی علمی وفکری قوت کے ساتھ مدلل انداز میں کی ہے۔ بقول Malise Ruthven مولانا مودودی کے نظریہ میں’’ اسلام محض چند قوانین کا نام نہیں رہتا بلکہ ایک مکمل سماجی نظام بن جاتا ہے ‘‘مولانامودودیؒ کو اس بات پر یقین محکم تھا کہ اسلام روحانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، خاندانی، اخلاقی مسائل کا ایسا مکمل حل پیش کرتا ہے جس کے بعد ایک انسان کو کسی اور نظریہ یا مذہب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیںپڑتی ہے ۔اسلام دور حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور قوت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں بھی اسلام اپنی نمائندگی خوب کرتا ہے کیوں کہ یہ مکمل نظام حیات ہے ۔ سید مودودیؒ نے اس پہلو کو بھی اپنی تصانیف میں نمایاں کیا ہے۔ جیوشوا ۔ٹی ۔وائیٹ اور نیلوفر صدیقی(Joshua T White and Neloufer Sidique) لکھتے ہیں :
مذہب کے بارے یہ عوامی بحث میںمولا نا مودودی کا یہ بنیادی کارنامہ ہے کہ اسلام بیک وقت ایک مکمل نظام زندگی ، نظریہ ،تہذیب اور قانون ہے ۔ اس فکر کے وہ علمبردار ہیں۔ان کی بیشتر تعلیمات اسی بنیادی نظریہ کے ارد گرد گھومتی ہیں۔
مولانا نے اسلامی فکرمیں دور حاضر سے ایسی ہم آہنگی پیدا کی کہ اب ہر خاص وعام اس بات پر متفق ہے کہ اسلام عصر حاضر کا دین ہے۔ انہوں نے اس بات کی خوب وضاحت کی کہ اسلام کیسے عصر حاضر سے مطابقت(Relevancy) رکھتا ہے اور اس میں مولانا مودودیؒ پوری طرح کامیاب بھی رہے۔ اس تعلق سے دور جدید کی ایک عظیم داعی مریم جمیلہ لکھتی ہیں کہ ’’میری یہ رائے گہرے مطالعے اور غور و فکر سے بنی ہے کہ جس طرح آپ اپنی گراں قدر کتابوں اور کتابچوں میں اسے پیش فرما رہے ہیں ، وہ اسلام کی صحیح تر ین تعبیر و تشریح ہے ۔ آپ نے اسلام کو وقت کی کسی عارضی و سطحی مصلحت سے مملو نہیں کیا ، نہ کسی اجنبی نظریے یا فلسفے کی اس میں آمیزش ہونے دی ہے ۔آپ نے اسلام کو جس طور سے اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے ۔ اس کی روشنی میں میرا تاثر ہے کہ اسلام واحد راہ ہدایت اور اعلیٰ و ارفع اسلوب حیات ہے ۔‘‘ غرض کہ انھوں نے اسلام کو علم اور دلیل کے ذریعے کردار میں ڈھالا ۔ اسی وجہ سے آج ۷۵ سے زائدزبانوں میں ان کی کتابوں اور تحریروں کو پڑھا ، سمجھا اور ان پر عمل کیا جارہا ہے ۔
(جاری ہے)

اسلام دوست جماعتوں میں اختلاف و افتراق

سید ابواالاعلیٰ مودودیؒ

اس سلسلے میں پہلا کام آپ کا یہ ہونا چاہیے کہ جو اختلاف و افتراق دوست جماعتوں میں پایا جاتا ہے وہ آپ کے طرز عمل سے اور نہ بڑھنے پائے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پر چوٹیں ہوں۔ آپ کے خلاف طرح طرح کی باتیں کی جائیں اور نئے نئے الزامات آپ کے خلاف گھڑے جائیں اگر آپ نے بھی چوٹوں کے جواب میں چوٹیں شروع کردیں۔ باتوں کے جواب میں باتیں کرنے لگے اور نئے نئے الزامات کے جوابات میں آپ نے بھی دوسروں کے خلاف الزامات گھڑنے شروع کردیے تو آپ افتراق و اختلافات کو اور پھیلانے کا سبب بنیں گے۔ آپ کا حال اس بچے کا سا نہیں ہونا چاہیے جو پھٹے ہوئے کپڑوں میں انگلی ڈال کر اسے اور پھاڑتا چلا جاتا ہے۔ خاموشی اور خلوص کے ساتھ اپنا کام کرتے چلے جائیے اور پلٹ کر کسی کو جواب نہ دیجیے، آپ کے طرزِ عمل سے دین سے جتنا زیادہ خلوص پید اہوگا توقع ہے کہ اختلاف و افتراق اسی قدر کم ہوتا چلا جائے گا۔
حوالہ: ماہنامہ سیارہ ،لاہور

نوشتۂ دیوار

سید ابواالاعلیٰ مودودیؒ

اسلامی جمعیت طلبہ کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے نوشتۂ دیوار کا نام’سحر‘رکھے جس نظام تعلیم کی درس گاہوں کو دیکھ کر اکبر چیخ اُٹھا کہ
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اس کی کوکھ سے موسیٰ صفت نسل جنم لینے لگی، تو یہ واقعی ایک سحر کی علامت ہے
لیکن خبردار! آپ کی یہ سحر کہیں صبح کاذب ثابت نہ ہو، اسے صبح صادق بنائیے۔ سحری کھا کر سو نہ جائیے، پو پھٹتے ہی نماز کی تیاری کیجیے۔ دورانِ تعلیم دین کا چرچا کرنا اور تعلیم سے فارغ ہوتے ہی دنیا کی طلب میں گم ہوجانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی سحر کھا کر سوجائے… آپ کی نماز یہ ہے کہ جو تیاری آپ نے زمانہ طالب علمی میں کی ہے اسے کالجوں سے نکلنے کے بعد پوری طرح اقامت دین کی سعی میں استعمال کریں۔ اس طرح آپ رات کی تاریکی کو دن کی روشنی میں بدل سکیں گے۔ اس طرح آپ کی صبح، صبح صادق ثابت ہوگی۔
حوالہ: نوشتۂ دیوار ’ سحر ‘ کے لیے پیغام

حصہ