گیم شوز کی حقیقت

304

انیقہ وسیم
میں مغرب کی نماز پڑھ کے فارغ ہی ہوئی تھی کہ بھائی جان کمرے میں داخل ہوئے اور ہم سب کو مخاطب کر کے بولے ’’سنو بچو! گیم شو کے پاس مجھے مل گئے ہیں‘ اگلے مہینے کی 19تاریخ ملی ہے۔‘‘
فاطمہ‘ اقرا‘حماد تینوں یہ سن کر خوشی سے اچھل پڑے اور بھائی جان سے تفصیل پوچھنے لگے جبکہ میں خاموشی اور فکرمندی سے دیکھنے لگی کہ ان سب کو گیم شوز کی اصل حقیقت کیسے سمجھاؤں۔ اپنے بہن بھائیوں کی اصلاح کے لیے ان کو سمجھانا ضروری تھا۔ میں نے تمہید باندھی ’’بھئی میرا تو بالکل بھی ارادہ نہیں ہے جانے کا۔‘‘
’’کیوں آپی؟‘‘ اقرا چیخی.باقی سب بھی حیرت سے میری طرف ہی دیکھ رہے تھے۔ ’’تم لوگوں کے خیال میں اس طرح فضول حرکتیں کروا کر‘ مفت میں چیزیں بانٹنے سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے غریب لوگ تو کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے‘ جن کے پاس یہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں وہ تو ویسے ہی بیٹھے ہیں‘ اس سے تو بس ہماری قوم میں لالچ‘ اوچھی حرکتوں اور خود غرضی جیسی برائیوں کا اضافہ ہی ہورہا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں کی الگ امیج خراب ہو گئی۔‘‘ میری بات سن کر کچھ دیر کے لیے سب سوچ میں پڑ گئے۔
چند لمحوں بعد بھائی جان نے بات ٹالتے ہوئے کہا ’’یہ تو لوگوں کے اوپر منحصر ہے کہ کیوں فضول حرکتیں کرتے اور تحائف پر اس طرح جھپٹتے ہیں۔ انسان کو کسی بھی حال میں اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘‘
دن گزرتے رہے‘ میں نے ایک دو دفعہ پھر سمجھانے کی کوشش کی لیکن خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ آخرکار وہ دن بھی آگیا۔ سب بڑے زور و شور سے تیاریوں میں مصروف تھے۔ دوپہر ایک بجے سب روانہ ہو گئے۔
پورا دن گزار کر یہ لوگ رات گیارہ بجے تھکے ہارے گھر پہنچے۔ سب کے لٹکے ہوئے منہ دیکھ کر میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ صرف ایک تولہ سونا ملا ہے۔ ’’چلو پھر بھی مزا تو آیا اور گیم شو میں شرکت کا شوق بھی پورا ہو گیا۔‘‘ فاطمہ نے سب کو مطمئن کرنا چاہا۔ ’’ویسے آپی! آپ تو پورے دن گھر میں بور ہو گئی ہوںگی۔ ہمیں تو پھر بھی بہت مزا آیا۔‘‘اقرا کافی خوش تھی۔
’’بور…؟بالکل بھی نہیں‘ میں نے تو گھر بیٹھے بیٹھے تم لوگوں سے زیادہ فائدہ اٹھالیا…‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ حماد کے کان کھڑے ہو گئے۔ فاطمہ فوراً مجھے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی ’’آپی! کہیں آپ نے کسی آن لائن گیم شو میں تو حصہ نہیں لیا تھا؟‘‘ باقی سب بھی مجھے حیرت اور بے یقینی سے دیکھنے لگے۔ ’’نہیں بھئی۔‘‘ میری ہنسی نکل گئی۔ ’’فائدہ اس طرح اٹھایا کہ میں نے دنیاوی چیزوں کے بجائے آخرت کی دائمی چیزوں پہ فوکس کیا۔ تم لوگوں کو صرف تھوڑا سا سونا ملا لیکن میں نے ایک حج اور عمرے کے برابر ثواب حاصل کیا‘ دوزخ سے بچنے اور جنت حاصل کرنے والے اعمال کیے‘ جنت میں اپنے نام کے درخت اُگائے اور …اور… بہت ساری دعائیں کیں کہ میرے بہن بھائیوں کو بھی دین کی سچی لگن عطا کریں اور سچا‘ پکا مومن بنائیں اور مجھے یقین ہے میری دعا قبول ہوگی۔‘‘
میری بات کا خاطر خواہ اثر ہوا ہے اس بات کا اندازہ سب کے جھکے ہوئے سر سے ہورہا تھا. بھائی جان نے میری بات مکمل کرتے ہوئے کہا ’’تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے‘ رزقِ حلال وہی ہے جو محنت سے حاصل کیا جائے‘ اس سونے پر ہمارا نہیں‘ غریبوں کا حق ہے اِسے کل کچی بستی میں رہنے والے فقیر بابا کے گھر پہنچا آئیں گے ان کی بیٹی کی شادی بھی ہونے والی ہے۔‘‘
’’ان شاء اللہ…‘‘ سب کی چمکتی آنکھوں اور جوش سے تمتاتے ہوئے جواب سے میں مسکرا اٹھی اور ان کے ایمان میں اضافے کے لئے دل سے دعا دینے لگی۔

حصہ