پہاڑوں کے بیٹے

269

اُمِ ایمان
(چودھویں قسط)
کچھ ایسے ہی جوانوں نے مدرسوں میں مستقبل کے مجاہدوں کی تربیت کا کام سنبھالا ہوا تھا۔ جو پڑھے لکھے نہیں تھے وہ بستی کی ترتیب، تنظیم اور صفائی کے کام کے نگراں تھے۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے مرد تو شہر جاکر کچھ نہ کچھ مزدوری کا کام کرلیتے تھے، البتہ جن خاندانوں میں بچے اور خواتین تھیں، وہ معاشی طور پر خاصے تنگ دست رہتے تھے۔ کچھ خواتین البتہ حکومت اور مذہبی تنظیموں کے کیمپوں میں رضا کارانہ خدمت انجام دیتیں اور ان کو تھوڑا بہت خرچا دے دیا جاتا تھا۔
مہاجر کیمپ سے شیردل کو گئے ہوئے مہینوں ہوگئے تھے۔ کیمپ کے اسکول میں بلال، ہلال، گل افروز اور مہروز پڑھنے جاتے تھے۔ گل جانہ اور فاطمہ گھر میں بھائیوں سے سبق لیتیں اور یاد کرتیں۔ یوں پڑھنا لکھنا سیکھ رہی تھیں۔
زینب نے یہاں بھی سلائی مشین کو اپنا دم ساز بنایا ہوا تھا۔ وہ کیمپ کے لوگوں کے علاوہ قریب کے علاقے کی رہنے والی خواتین کے کپڑے بھی سی دیتی تھی۔ اجرت کیوں کہ بہت معمولی ہوتی تھی، لہٰذا خواتین بڑے شوق سے اس سے کپڑے سلوایا کرتی تھیں۔صفیہ نے باقی کام اپن ذمے لے لیے تھے۔ پانی بھر کر لانا، کھانا تیار کرنا، صفائی کرنا، بچوں کے کپڑے دھونا… یوں دونوں افغان خواتین بڑی محنت سے اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کررہی تھں۔ رات کو اکثر سونے سے پہلے بچوں کی فرمائش پر زینب کوئی سبق آموز کہانی یا سچا تاریخی واقعہ سناتی۔ بچے سوالوں کے ذریعے اپنے دل میں آنے والے خدشات اور شبہات پوچھتے، اور صفیہ ان کی تشفی کی ہر ممکن کوشش کرتی۔ سونے سے پہلے سب مل کر شیردل، زبیر، جمال، کمال اور تمام مجاہدین کی کامیابی اور افغانستان کی آزادی کے لیے دعا کرتے۔
چاروں لڑکے لڑکپن سے جوانی کی سرحد پہ قدم رکھ چکے تھے۔ ان کے قد لمبے اور سینے چوڑے تھے۔ ہونٹوں پر ہلکا ہلکا رواں، تیکھی ناک اور افغانوں کا سرخ و سفید رنگ انہیں ورثے میں ملا تھا۔ گل افروز اور مہروز دونوں کا رنگ زیادہ صاف تھا، البتہ بلال اور ہلال کے رنگ ان سے تھوڑے دبتے ہوئے تھے۔ مدرسے سے آنے کے بعد چاروں آپس میں گپ شپ کرتے۔ کیمپ کے بزرگوں اور جوانوں دونوں سے ان کی اچھی سلام دعا تھی۔ پچھلے چند ہفتوں سے گل افروز قریب کی پھلوں کی مارکیٹ میں شام کو پیٹیاں اتارنے اور چڑھانے کا کام کرنے لگا تھا۔
مہروز، بلال اور ہلال بھی چاہتے تھے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ لے جائے تاکہ گھر کے اخراجات میں وہ بھی اپنا کچھ حصہ ڈال سکیں، لیکن گل افروز کا کہنا تھا کہ اس کے لیے پھوپھی زینب اجازت دیں گی تب ہی وہ انہیں ساتھ لے جائے گا۔
اس دن گل افروز کام سے واپس آیا تو اپنے ساتھ سرخ سرخ سیبوں کا تھیلا بھی لایا۔
’’بھائی جان! مجھے آپ دو سیب دیں گے۔‘‘گل جانہ نے سیبوں کا تھیلا دیکھ کر آواز لگائی۔
’’کیوں بھئی! میں ایسی ناانصافی کیسے کروں گا؟‘‘
’’وہ اس لیے کہ میں آپ کی اکلوتی بہن ہوں۔‘‘ گل جانہ لاڈ سے بولی۔
’’اور میں نہیں ہوں کیا؟‘‘ دور بیٹھی فاطمہ جھٹ سے بولی اور اٹھ کر افروز کے پاس چلی آئی۔
گل افروز نے فاطمہ کو دیکھا اور پھر آنکھیں ہٹانا جیسے بھول ہی گیا۔ سرخ چنری کے دوپٹے میں فاطمہ کا پھول جیسا چہرہ دمک رہا تھا۔ سیبوں کی سرخی اس کے گالوں کی سرخی کے سامنے ماند تھی۔
یوں تو افروز فاطمہ کو روز ہی دیکھتا تھا لیکن پتا نہیں کیوں اس پل اُس کی نظریں جیسے اٹک کر رہ گئیں۔
’’ہونہہ بھائی جان! کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے؟‘‘ گل جانہ کی شوخ آواز نے اس کی محویت توڑ دی۔ وہ جھنیپ سا گیا۔ سیبوں کا پورا تھیلا فاطمہ کو تھما کر وہ تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔
گل جانہ نے معنی خیز نظروں سے فاطمہ کو دیکھا۔ فاطمہ گل جانہ کے چہرے پر پھیلی شرارتی مسکراہٹ دیکھ کر کچھ لمحے منہ کھولے اس کو دیکھتی رہی۔
’’فاطمہ! منہ بند کرلو کہیں مکھی نہ گھس جائے، ویسے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا سجیلا بھائی باہر جا چکا ہے۔‘‘ فاطمہ نے پورا تھیلا گل جانہ کی طرف اچھالا۔ گل جانہ بڑی مشکل سے اسے سنبھال پائی، لیکن اندر کا رخ کرتی فاطمہ کا پیچھا گل جانہ کا قہقہہ دیر تک کرتا رہا۔
زینب اور صفیہ دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات تھی، لیکن لبوں پر تب آئی جب گل جانہ نے گل افروز اور فاطمہ کا یہ قصہ نمک مرچ لگاکر انہیں سنایا۔ قصہ سن کر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرائیں جیسے بن کہے وہ ایک دوسرے کی بات جان گئی ہوں۔
اگلے دن شام تک دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ افروز اور فاطمہ، اور گل جانہ اور بلال کا نکاح کردیا جائے۔ فاطمہ اور گل جانہ دونوں کی مائوں نے ان سے پوچھا اور دونوں نے خاموشی سے سر جھکا دیے۔ بلال اور گل افروز سے تو پہلے ہی مشورہ اور رائے لی جا چکی تھی۔ بس اگلے جمعہ کا دن مناسب سمجھا گیا۔
کیسی تیاری اور کیسا اہتمام۔ مہاجرت، وطن سے دوری، عزیزوں اور رشتے داروں کی جدائی… لیکن دنیا کا کام بھلا کبھی رکا ہے! پھر یہ تو فرائض میں سے تھا جس کا ادا ہوجانا جتنا جلدی ممکن ہو، اتنا ہی بہتر رہتا ہے۔
سادگی کے ساتھ اگلے جمعہ کیمپ کی مسجد کے امام صاحب نے دونوں کا نکاح پڑھا دیا۔ زینب اور صفیہ دونوں ہی بہت خوش تھیں۔ خوشی کے موقع پر اپنے تو بہت یاد آتے ہیں۔ شیردل اور زبیر کی یاد ہر لمحہ ساتھ رہی، لیکن دونوں ایک دوسرے سے غم کو چھپا رہی تھیں۔ رات کو جب سب اپنے اپنے بستر پر لیٹتے تو زینب اور صفیہ تنہائی اور اندھیرے میں اپنے اپنے چھپائے ہوئے آنسو بہانے لگتیں۔ دل کا دریچہ یادوں کی سہانی خوشبو سے مہکنے لگتا۔ لیکن وقت تو گزرتا چلا جاتا ہے اور پیچھے صرف یادوں کی مہک چھوڑ جاتا ہے۔ روز و شب کا سلسلہ جو جاری ہے، ابھی اپنے پردے میں نہ جانے کتنے حادثات چھپائے ہوئے۔

سلسلہ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز و شب، اصل حیات و ممات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب صَیرفیِ کائنات

زینب کی یادوں میں باپ سے سنے ہوئے اشعار جھلملانے لگے۔ وہ استاد تھے، مسجد کے امام تھے، لہٰذا منبر و محراب سے رشتہ تھا۔ اقبال کے اشعار سے اپنے خطبوں کو سجاتے تھے، اور ان کے یہ اشعار تو اکثر اپنی زبان سے دہراتے رہتے تھے۔ زینب کی یادوں کے دریچے وا ہوئے تو جیسے وہ رات زینب نے اپنے باپ کی خوشبو اور ماںکی مہک کے ساتھ ہی گزاری۔ ان کی زبان سے ان کی پسند کے اشعار سنتی رہی۔ پھر یہ شعر جیسے اس کے لیے ایک پیغام بن گئے:۔

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات کارِ جہاں بے ثبات
اوّل و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

زینب صبح اٹھی تو بہت خوش اور مطمئن تھی، جیسے خدا نے اسے خوش خبری سنا دی تھی کہ تیرے محبت کے رشتے تیرا شوہر، تیرا بھائی اور تیرے بیٹے وہ مردِ خدا ہیں جو اس کارِ جہاں میں اپنے خون سے رنگ دوام کے نقوش ثبت کررہے ہیں۔
………
شیر دل کی تربیت کے بعد اس کو قندھار بھیج دیا گیا، اگرچہ اسے پستول وغیرہ چلانی تو پہلے ہی سے آتی تھی کہ ہتھیار افغان کا زیور ہوتے ہیں، لیکن اب وہ ہر طرح کی مشین گن، کلاشنکوف، راکٹ لانچر چلانے کے علاوہ ان کی چھوٹی موٹی خرابی بھی دور کرسکتا تھا۔ بدخشاں میں اس کے ساتھ افغان کے علاوہ چند عرب مجاہد بھی تھے۔ ان ہی میں ابوخبیب بھی تھا، نہایت بہادر اور نڈر… بڑے سے بڑے معرکے میں اس کے چہرے کا سکون اسی طرح برقرار رہتا تھا۔
ایک دفعہ شیر دل کے ساتھ وہ ایک مورچے میں تھا، مشین گن کی پوزیشن ابوخبیب کے پاس تھی۔ شیردل اس کو کور دے رہا تھا۔ اچانک دشمن کی ایک گولی ابوخبیب کے ساتھی کی کمر پر لگی اور پھسل کر نیچے گر پڑی بالکل ایسے جیسے اس نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی ہو۔ یہ تھی اللہ کی مدد جس کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
فیض محمد کا بیٹا عبدالواحد بھی شیردل کے ساتھ تھا، یہ افغان فوج کا کرنل تھا لیکن مجاہدین سے آکر مل گیا تھا۔ اب تک بہت سے معرکوں میں بے شمار کمیونسٹوں کو موت کی نیند سلا چکا تھا۔
ایک د فعہ جب معرکے کے اختتام پر سب ساتھی آرام سے غار کی دیواروں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے تو اس نے اپنے بارے میں بتایا۔ اس کا باپ فیض محمد پکا کمیونسٹ تھا لہٰذا عبدالواحد کو اس نے شروع سے فوجی اسکول میں پڑھایا، بعد میں مزید تعلیم کے لیے ماسکو بھیج دیا۔ چار سال کے کورس کی تکمیل کے بعد جب کابل آیا تو اسے کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
وہ کہہ رہا تھا ’’میں حیران رہتا تھا کہ یہ برے حال مجاہدین جن کے پاس پرانے اور متروک ہتھیار تھے، کیسے معرکے میں ہمارا مقابلہ کرتے ہیں! ایک دفعہ محاذ پر ہمارے ساتھ دو بریگیڈ تھے، جب کہ ایک بریگیڈ میں اٹھارہ ہزار سپاہی ہوتے ہیں، اور ان کے سامنے جو مجاہدین تھے وہ کُل بارہ تھے، لیکن اگلے دو روز تک وہ ہمارے سامنے ڈٹے رہے، انہوں نے اپنے انہی پرانے ہتھیاروں سے ہمارے دو ٹینک جلا دیے، اس کے علاوہ چار ٹینک بارودی سرنگوں پر آکر ہوا میں اُڑ گئے۔ پہلے دن انہوں نے ہمارے 100 فوجیوں کو موت کی نیند سلا دیا اور چھ ٹینک تباہ کردیے۔ اگلے دن مزید دو ٹینک ناکارہ کردیے۔ اس معرکے میں ہم ان بارہ مجاہدین پر غلبہ نہ پاسکے، البتہ بعد میں جب وہ ہمارے محاصرے سے نکل گئے تو پتا چلا کہ ان میں سے سات شہید ہوگئے تھے۔ یہ وہ معرکہ تھا جس نے میرے دل کی دنیا زیر و زبر کر ڈالی، میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے؟ پھر آخر ’’کنہر کے شیر‘‘ کے ساتھ معرکے نے علم الیقین عطا کردیا۔‘‘
سارے مجاہدین غار میں ٹیک لگائے اطمینان سے بیٹھے عبدالواحد کا قصہ سن رہے تھے۔ ’’کنہر کے شیر‘‘ کا ذکر آیا تو سب کے سب سیدھے ہوکر غور سے عبدالواحد کی طرف دیکھنے لگے۔ سب کی نظریں اس کے چہرے پر تھیں اور کان سننے کے لیے بے تاب تھے۔ عبدالواحد نے مسکرا کر بے تاب مجاہدین کودیکھا اور بولا ’’کنہر کا شیر‘‘ گل رحمن کو کہا جاتا ہے جس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ ایک دفعہ اُس نے ایک معرکے میں پچاس کمیونسٹوں کو تنہا ہلاک کیا، جہاد کی ابتدا اس نے دس سال کی عمر میں کی جب ایک چلتے ٹینک کے نیچے بارودی سرنگ رکھ کر اس کو تباہ کیا۔
اس کا آخری معرکہ ’’اسامہ بن زید چھائونی‘‘ کا معرکہ تھا جب روس نے اس چھائونی پر ایک بڑی فوج کے ساتھ حملہ کیا۔ فضا میں اس کے بمبار طیارے اپنی فوج کو کور دے رہے تھے۔ چھائونی میں اس وقت صرف پانچ مجاہدین موجود تھے، انہی میں گل رحمن بھی تھا۔ ان لوگوں نے نہایت بے جگری کے ساتھ کمیونسٹ فوج کا مقابلہ کیا اور آخر فوجیوں کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ وہاں سے دُم دبا کر بھاگے۔
(جاری ہے)

حصہ