وبا

288

(فیضِ عالم بابر)

مرے شعراء یہاں سے جارہے ہیں
مرے فنکار رخصت ہورہے ہیں
معلّم، چارہ گر، عالِم، صحافی
سپردِ خاک ہوکر سو رہے ہیں
جہاں دیکھو وہاں سے اُٹھ رہے ہیں
جنازوں پر جنازے اُٹھ رہے ہیں
وبا پھیلی زمیں پر ایک ایسی
نگلتی جا رہی ہے جو سبھی کو
ابھی واقف نہیں اہلِ نظر بھی
یہ کیسے چاٹتی ہے زندگی کو
جہاں دیکھو وہاں سے اٹھ رہے ہیں
جنازوں پر جنازے اُٹھ رہے ہیں
ہوا محروم کوئی نوکری سے
کسی کو جان کے لالے پڑے ہیں
ہوئی معدوم بازاروں کی رونق
دکانِ رزق پر تالے پڑے ہیں
جہاں دیکھو وہاں سے اُٹھ رہے ہیں
جنازوں پر جنازے اُٹھ رہے ہیں
ہوئے تعلیم سے محروم بچّے
گھروں میں قید پیارے ہو گئے ہیں
جو کل تک شان تھے ہر انجمن کی
وہ تنہائی کے مارے ہو گئے ہیں
جہاں دیکھو وہاں سے اُٹھ رہے ہیں
جنازوں پر جنازے اُٹھ رہے ہیں
تواتر سے بشر مرنے لگے ہیں
مگر لچھّن ہمارے جوں کے توں ہیں
حسد، کینہ، عداوت، بُغض، نفرت
مرض سارے کے سارے جوں کے توں ہیں
جہاں دیکھو وہاں سے اُٹھ رہے ہیں
جنازوں پر جنازے اُٹھ رہے ہیں
خدا سے دور سارے ہو چکے ہیں
مگر ہم نے یہ سوچا تک نہیں ہے
نظر اعمال پر ڈالی نہیں ہے
گریبانوں میں جھانکا تک نہیں ہے
جہاں دیکھو وہاں سے اُٹھ رہے ہیں
جنازوں پر جنازے اُٹھ رہے ہیں

حصہ