ناشپاتی کا درخت

609

افشاں مراد
زندگی ایک امتحان گاہ ہے، ہر شخص کے ذمے اس کے حصے کا امتحانی پرچہ ہے، جسے اس کو اچھی طرح حل کرنا ہے۔ کچھ کے حصے میں مشکل پرچہ آتا ہے، کچھ کے حصے میں آسان، لیکن کسی بھی مشکل یا آسانی کے نتیجے میں اپنی زندگی اور خوشیوں کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ ہر مشکل کے ساتھ اللہ نے کوئی نہ کوئی آسانی ضرور رکھی ہے، لیکن ضروری یہ ہے کہ اپنی ہر مشکل اور ہر آسانی سے کوئی نہ کوئی سبق ضرور سیکھا جائے۔ میں نے اپنی پوری زندگی سے یہ سبق سیکھا کہ زندگی ایک پہیّے کی مانند ہے جو کبھی گھوم کر اوپر جاتا ہے تو کبھی نیچے کی طرف چلا جاتا ہے، اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ زندگی کا اصول ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ اہم صرف یہ ہوتا ہے کہ اس زوال کے ساتھ ساتھ ہم عروج سے بھی کچھ نہ کچھ ضرور سیکھیں، کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ زندگی آپ کو کچھ سبق دیے بغیر گزر جائے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ زندگی کا یہ سبق آپ کن معنوں میں پڑھتے ہیں۔کسی ایک بُرے واقعے کو بنیاد بنا کر اپنی پوری زندگی تباہ نہیں کی جا سکتی، اور اسی طرح کسی ایک اچھے واقعے کے سہارے پوری عمر یادوں میں نہیں گزر سکتی۔ ہر پَل، ہر لمحے کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور ہر گزرتا پَل اپنی قیمت بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ بعض لمحے انمول ہوتے ہیں اور بعض لمحے بے مول۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ پَل ہم نے کیسے گزارا۔ ہر ایک کے لیے زندگی کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے، کسی کے لیے میٹھا،کسی کے لیے تیکھا، کسی کے لیے کڑوا… ہر ایک اس کو اپنے حالات کے حساب سے چکھتا ہے۔
زندگی کے تجربات کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو میرے والد مجھے سناتے تھے کہ ایک آدمی کے چار بیٹے تھے، وہ چاہتا تھا کہ اُس کے بیٹے یہ سبق سیکھ لیں کہ کسی کو پرکھنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ لہٰذا اس بات کو سمجھانے کے لیے اُس نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دور دراز علاقے میں ناشپاتی کا ایک درخت دیکھنے کے لیے بھیجا۔ ایک وقت میں ایک بیٹے کو سفر پر بھیجا کہ جائو اور اُس درخت کو دیکھ کر آئو۔ باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔
پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا، دوسرا بہار میں، تیسرا گرمی کے موسم میں، اور سب سے چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں گیا۔ جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کرکے واپس لوٹ آئے تو اُس آدمی نے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے اُن کے سفر کی الگ الگ تفصیل پوچھی۔
پہلے بیٹے نے جو جاڑے کے موسم میں اُس درخت کو دیکھنے گیا تھا، کہا کہ وہ درخت بہت بدصورت، جھکا ہوا اور ٹیڑھا سا تھا۔
دوسرے بیٹے نے کہا: نہیں، وہ درخت تو بہت ہرا بھرا تھا۔ ہرے ہرے پتوں سے بھرا ہوا۔
تیسرے بیٹے نے اُن دونوں سے اختلاف کیا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور اُس کی مہک دور دور تک آرہی تھی، اور یہ کہ اس سے حسین منظر اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے سب بڑے بھائیوں سے اختلاف کیا اور کہا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھل سے لدا ہوا تھا اور اُس پھل کے بوجھ سے درخت زمین سے لگا زندگی سے بھرپور نظر آرہا تھا۔
یہ سب سننے کے بعد اُس آدمی نے مسکرا کر اپنے چاروں بیٹوں کی جانب دیکھا اور کہا ’’تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔‘‘
بیٹے باپ کا جواب سن کر بہت حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے!
باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’تم کسی بھی درخت کو یا شخص کو صرف ایک موسم یا حالت میں دیکھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ کسی فرد کو جانچنے کے لیے تھوڑا وقت ضروری ہوتا ہے۔ انسان کبھی کسی کیفیت میں ہوتا ہے، کبھی کسی اور کیفیت میں۔ اگر درخت کو تم نے جاڑے کے موسم میں بے رونق دیکھا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو تم لوگ غصے کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ برا ہی ہوگا۔ کبھی بھی جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہ کرو جب تک اچھی طرح کسی کو جانچ نہ لو۔ کسی کو اسی وقت سمجھا یا پرکھا جا سکتا ہے جب یہ تمام موسم گزر جائیں۔ اگر تم سردی کے موسم میں ہی اندازہ لگاکر نتیجہ اخذ کرلو گے تو گرمی کی ہریالی، بہار کی خوب صورتی اور بھرپور زندگی سے لطف اندوز ہونے سے رہ جائو گے۔
اسی لیے صرف ایک دکھ، پریشانی کے لیے اپنی زندگی کی باقی خوشیوں کو دائو پر مت لگائیں، زندگی کے ایک برے موسم کو بنیاد بناکر باقی زندگی کو مت پرکھیں، بلکہ اس کے سارے موسموں، سارے ذائقوں سے آشنائی حاصل کریں۔ یہی حاصلِ زندگی ہے۔ ہماری غلطی ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ ہم کسی کے بھی بارے میں رائے قائم کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں جو ہم سوچ رہے ہیں وہی درست ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے، ہم بھی غلط ہوسکتے ہیں۔ ہماری رائے بھی غلط ہوسکتی ہے۔ زندگی کے مثبت پہلو کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔ زندگی میں سب کچھ برا یا سب کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت نے ہر چیز کو اعتدال میں رکھا ہے۔ اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کریں، اس سے آپ پر بھی اچھا اثر پڑے گا، معاشرے میں بھی بہتری آئے گی اور گھر کا ماحول بھی بہتر ہوگا۔
اس وقت ہمارا جو مشاہدہ ہے اس کے مطابق گھروں کا نظام اور ماحول انتہائی مخدوش ہوچکا ہے۔ اولاد کا تربیتی نظام تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ والدین نے بچوں کی تربیت غالباً سوشل میڈیا اور میڈیا کے حوالے کردی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے موبائل فون اور ٹی وی میں مصروف ہیں۔ مائیں بھی بچوں کی ضد اور رونے نے سے بچنے کے لیے اُن کو گھنٹوں کے لیے موبائل ہاتھ میں دے دیتی ہیں۔ اب بچہ اس سے کیا سیکھ رہا ہے اس سے آپ تب واقف ہوتی ہیں جب وہ کسی دوسرے کے سامنے اس کا اظہار کرتا ہے اور آپ حق دق اس کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے بچوں کو بھی مثبت کاموں میں لگانے کی کوشش کریں تاکہ معاشرے میں کچھ اچھے اور عمدہ انسانو ں کا اضافہ ہوسکے۔ ورنہ محض ہجوم میں اضافہ کرکے آپ کوئی کمال نہیں کررہے۔

حصہ