بچے کی صحت، غذائی ضرورت اور تربیت

1049

راحیلہ چوہدری
بچے والدین کو اللہ کی طرف سے سونپی گئی ایک اہم ذمہ داری ہیں۔ بچہ اللہ کی امانت ہے جو ماں باپ کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس لیے بچے کی کردار سازی کے لیے جتنی اچھی تربیت کا ہونا ضروری ہے اتنا ہی بچوں کی بہترین نشوونما کے لیے اچھی اور متوازن غذا ضروری ہے۔ بچوں کی تربیت ایک اہم، نازک اور صبر آزماکام ہے، اسی طرح بچوں کی صحت بھی آج کے دور میں ایک اہم اور نازک معاملہ بن چکا ہے۔ بچے کی اچھی تربیت کے ساتھ خوراک کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ بچے کی خوراک اور خوراک کھانے کا وقت دونوں چیزیں بچے کی عادات پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ بچوں کو کیا دینا چاہیے، کب دینا چاہیے اس جدید دور میں بھی اکثریت یا تو جانتی نہیں، یا اس کو اہم نہیں سمجھتی۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بچے اور نوجوان بھی ان امراض کا شکار ہورہے ہیں جن میں پچھلی نسل کے لوگ عمر کے آخری حصے میں مبتلا ہوا کرتے تھے۔
چھ ماہ کی عمر سے بچے کی ٹھوس غذا کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ آٹھ سے چھ ماہ نرم ترین غذا بچوں کو دی جاتی ہے، لیکن بچے کے ابتدائی 2سال کے بعد جیسے ہی بچے کی پسند ناپسند کا سفر شروع ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی بچے کی خوراک غیر متوازن ہونے لگتی ہے۔ زیادہ تر مائیں بچوں کی پسند کو اہمیت اس لیے دیتی رہتی ہیں کہ بچے کچھ کھا لیں اور وقت پر فارغ ہوکر وہ اپنے دوسرے کام نبٹا لیں۔ اس رویّے سے بچوں کا من پسند کھانا کھانے کا رویہ اس قدر حاوی ہوجاتا ہے کہ پھر غیر متوازن کھانے کا سرکل کئی سال تک چلتا ہی رہتا ہے، اور اکثریت کو فکر اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی بڑا نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر بچوں میں چکن سے بنے ہوئے کھانے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں اور مائیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ 30 دن میں تیار ہونے والا یہ برائیلر چکن روازنہ کی بنیاد پر کھانے سے نہ صرف بچوں کے جسم کی ساخت خراب ہورہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ یہ چکن بچوں کے ذہنی انتشار کا باعث بھی بن رہا ہے۔ بچوں کی پسند کو ہمیشہ ترجیح دینے سے مائوں کا کام تو آسان ہوجاتا ہے لیکن بچوں کی صحت آہستہ آہستہ برباد ہوجاتی ہے۔ بچوں کی پسند کا خیال صرف 12سال کی عمر تک رکھیے، 12سال کی عمر تک بچے کی جسمانی ساخت پوری طرح سامنے آ جاتی ہے، یعنی بچے کا جسم کمزور ہے یا زیادہ پھولنے والا ہے۔ جب بچے کی جسمانی ساخت پوری طرح ظاہر ہونا شروع ہوجائے، پھر اس کے مطابق غذائی چارٹ ترتیب دے کر بچوں کو اس پر عمل کروائیں۔ ہمیشہ صحت مند جسم رکھنے کے لیے خوراک کا جسم میں وقت پر جانا بہت ضروری ہے۔ آج پورے یورپ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمیشہ صحت مند طرزِ زندگی پر قائم رہنے کے لیے 2 ڈائیٹ پلان بے حد مقبول ہورہے ہیں جن میں ایک پورشن کنٹرول اور دوسرا ہے انٹرمٹن ڈائیٹ۔ ان ڈائیٹ پلان میں صرف دو چیزیں ہیں، ایک درست وقت پر کھانا اور دوسرا متوازن خوراک، جو آپ کو ہمیشہ صحت مند رکھتی ہے۔ بچوں کو درست وقت پر کھانا کھلانا ماں کی اوّلین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اگر کھانا وقت پر تیار نہیں ہوگا تو بچوں کے کھانے کا سرکل کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ بچے وقت پر کھانا کھانے اور اپنی ناپسندیدہ چیز کھانے کے معاملے میں اکثر تنگ کرتے ہیں۔ بچوں کو ہر طرح کے کھانے کا عادی ہونا چاہیے۔ اس عادت کو پختہ کرنے کے لیے آپ کو تحمل سے کام لینا ہوگا۔ بچہ ایک ہی دن یا چند ہی دنوں میں آپ کی پسند اور مرضی کے مطابق چلنا شروع نہیں کردے گا۔ بچے پر یہ واضح کردیں کہ اگر ایک وقت یا ایک دن اس کی پسند کا مینو ہوگا، تو دوسری بار اسے آپ کے دیے ہوئے کھانے کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ یاد رکھیے آپ کا بنایا ہوا روٹین اور آپ کی بنائی ہوئی متوازن غذا رفتہ رفتہ بچوں کے لائف اسٹائل کا حصہ ضرور بننے لگے گی۔ آپ کو اس پر صرف مضبوطی سے قائم رہنے کی ضرورت ہے۔
بچوں کو ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک کھجور، دودھ، دہی، شہد، پھل اور سلاد ضرور کھلائیں۔ یہ سب کھانے کی بچپن سے ہی عادت ڈالیں۔ صبح نہار منہ بادام، کشمش،کھجور، دودھ اور دہی بچوں کو کھلانا انہیں ہمیشہ صحت مند رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بادام اور کشمش خون کی کمی کو پورا کرتے ہیں، دودھ اور دہی وٹامنز، پروٹین،کیلشیم، پوٹاشیم، فاسفورس سے بھرپور ہوتے ہیں جو ہڈیوں کو مضبوط بناتے ہیں۔ نبی ؐ کی پسندیدہ غذائوں میں سے ایک کھجور بھی تھی۔ آپؐ نے کھجور کے بارے میں فرمایا ’’جس نے صبح کے وقت 7 عجوہ کھجوریں کھالیں اسے اُس دن زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچا سکتا‘‘ (صحیح بخاری :5445)۔ ایک اور جگہ فرمایا ’’عجوہ کھجور جنت سے ہے اور یہ زہر کے لیے شفا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2066)۔ جدید سائنس کھجورکو ایک مکمل غذا قرار دیتی ہے۔ آئے دن کھجور کی افادیت پر حیرت انگیز تحقیقات آتی رہتی ہے، لیکن ہم اسے کم ہی خاص طور پر ناشتے میں اپنے دسترخوان کا حصہ بناتے ہیں۔
زیادہ تر گھروں میں بچے یہ سب کھانا پسند نہیں کرتے۔ انہیں یہ سب کھلانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ بچوں کو عشاء سے پہلے کھانا کھلانے کا معمول بنائیں۔ بچوں کا پیٹ جتنی جلدی بھرے گا اتنی جلدی سوجائیں گے۔ جتنی جلدی سوئیں گے اتنی جلدی اٹھیں گے۔ رات کے کھانے میں کوئی ایک چیز سارے بچوں کی پسند کے مطابق بنالیں، اور صبح ناشتے پر انہیں ان کی من پسند چیز کا لالچ دے کر یہ سب غذائی چیزیں کھلا دیں۔ کھجور، دودھ، دہی، شہد، پھل اگر بچے ایسے کھانا پسند نہ کریں تو ایسے کھانے بنائیں جن میں یہ اشیاء استعمال ہوں۔ غذائیت والے کھانے بچوں کو خوبصورت برتنوں میں پیش کریں۔ مختلف ذائقے اور پیش کرنے کا انداز بچوں کو کھانے کی طرف رغبت دلاتا ہے۔ جب جسمانی توانائی پوری ہوگی توبچے نہ چڑچڑے ہوں گے، نہ زیادہ ضد کریں گے۔ اس طرح آپ کو بچوں میں اچھی عادات پر عمل کروانے میں مدد ملے گی، اور جب بچوں کے سامنے جنک فوڈ یا کسی بھی قسم کا بازاری کھانا رکھا جائے گا تو وہ ایک دم سے بہت مقدار میں نہیں کھا پائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب مند پسند کھانوں کی بھرمار ہے، ایسے میں بچوں کو بازاری کھانوں سے دور رکھنا ممکن نہیں، اور انسانی فطرت بھی ہے کہ وہ ایک ہی طرح کا کھانا روز نہیںکھا سکتا، اور نہ بچوں کو روز بازاری کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ بچوں کا من پسند کھانا گھر پر ہی تیار کیا جائے۔
کھانے کے وقت بچوں کو ٹی وی یا کسی بھی قسم کی ڈیوائس نہ دیکھنے دیں۔ اگر توجہ کہیں اور ہوگی تو کھانے سے جو توانائی بچے کو حاصل ہونی چاہیے وہ پوری طرح اسے حاصل نہیں ہوگی جس سے بچہ کچھ ہی دیر بعد بے چینی کا شکار ہوجائے گا۔اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے بچے صحت منداور توانا زندگی گزاریں تو ان کی متوازن روٹین کے لیے آپ کو چند ماہ محبت اور سختی سے کام لینا پڑے گا۔ایک دو ماہ کی محنت کے بعد ہی بچوں کی روٹین بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔ رات کو جلدی کھانا کھائیں گے، رات جلدی سوئیں گے تو ایک دو ماہ میں ہی خود جلدی اُٹھنے لگیں گے۔ بچوں کا لائف اسٹائل جتنی چھوٹی عمر میں پختہ ہوجائے گا اتنی ہی آپ کی اور آپ کے بچوں کی ذہنی، روحانی اور جسمانی زندگی پُرسکون رہے گی۔ روزانہ کے اہم کاموں میں سے نماز پڑھنا، بچوں کو دیکھنا، اچانک مہمانوں کا آنا اور ایسے بے شمار کام جو اہم ہیں ان سے کسی صورت چھٹکارا ممکن نہیں۔ صبح جلدی اٹھ کر آپ جتنے کام فجر سے لے کر 10بجے تک نبٹا لیں گی آپ کے وقت میں برکت بڑھتی جائے گی۔ روزمرہ کے کام جتنی دیر سے شروع کیے جائیں گے آپ کے ذہنی دبائو میں اضافہ کریں گے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ نہ عبادت کا ویسا مزا میسر آئے گا، نہ بچوں کو پوری توجہ ملے گی جس سے اچھی تربیت کے نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔

حصہ