ارتغرل کے مصنف کی سوشل میڈیا پر گونج

920

مظلوموں کو انصاف دلانے میںسوشل میڈیا پر اس ہفتہ بھی کراچی کی ماہا ملک اور پشاور سے عامر تہکال کی ویڈیوز نے اثر دکھایا ۔ دوسری جانب بجٹ تقاریر میں زور خطابت دکھانے والی ویڈیوز بھی خاصی دیکھی گئیں۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکن عبد القادر پٹیل ، ن لیگ کے خواجہ آصف ہوں یا تحریک انصاف کے علی محمد خان کی نصابی کتب میں نبی کریم ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ خاتم النبیین ﷺ کی قرارداد والی ویڈیو۔قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر اس بار بھی ٹرینڈ بنوا گئی مگر اپنا نہیں ’اسامہ بن لادن ‘کا جنہیں اب وزیر اعظم پاکستان نے اسمبلی فلور پر شہید قرار دے دیا۔اسکے ساتھ ہی PMIKAssemblÿSpeechکا ٹرینڈ بھی بنا۔اس کے علاوہ سندھ اسمبلی میںپیپلز پارٹی کی بے باک کرپشن کاپردہ چاک کرتی ہوئی سید عبد الرشید کی بجٹ تقریر ہویا نصرت سحر عباسی کی جانب سے اندرون سندھ کا پوسٹ مارٹم۔فواد چوہدری کا خاص حالات میں جیو کو دیا گیا انٹرویو ہو یا اُس کے بعد جاری کابینہ کی روداد پر مباحث۔سوشل میڈیا خاصاگرم رہا۔ اس دوران کورونا وائرس و دیگر وجوہات سے اموات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کراچی میںرہائش پذیر معروف عالم دین مفتی نعیم ہوں یا علامہ طالب جوہری کے انتقال پر تعزیتی بیانات جاری رہے۔بنوری میڈیا نے مفتی نعیم کی خدمات کے لیے نعمان شاہ کی آواز میں ایک منظوم ویڈیو بھی جاری کی ۔
آن لائن تعلیم پر اس ہفتہ بھی شدید تنقید کا سلسلہ دوبار ہ سوشل میڈیا پر بھرپور انداز سے شروع ہوا۔ اس سے پہلے بھی تواتر سے خاصے ٹرینڈ بنتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک و قوم کی ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ فروری سے بند یہ تعلیمی ادارے اس وقت کوئی پانچویں مہینے گویا نصف سال کے قریب پہنچنے کو ہیں۔اسکولوں کے طلبہ ،خصوصاً چھوٹی کلاسز کے طلبہ کے ہونے والے تعلیمی نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا کیونکہ پرائمری کلاسز پہلی تا پانچویں میںاُن کی ہر مضمون کی بنیاد بننے کا عمل ہوتا ہے ۔ اسکولوں کو بلکہ جامعات تک میں آن لائن ایجوکیشن کا کوئی نظام موجود نہیں۔ دیگر ممالک میں ٹیکنالوجی کو مرتب کر کے لرننگ مینیجمنٹ سسٹم کئی سالوں سے نافذ کر دیئے گئے جو آج کامیابی سے نتائج دے رہے ہیں۔پاکستان میںمختلف مسائل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ اس میں وژن، ٹیکنالوجی اوئیرنیس، بجلی، انٹرنیٹ، گیجٹس، والدین کی نفسیات، اساتذہ کی تربیت و معیار ، مالی وسائل کی کمی اور حکومتی عدم توجہ جیسے بنیادی مسائل شامل ہیں۔کے الیکٹرک نے ایک بار پھر اہل کراچی پر لوڈ مینجمنٹ کے نام پر بے انتہا لوڈ شیڈنگ کے پہاڑ توڑدیئے ۔ کورونا، شدید گرمی،لاک ڈاؤن ، پانی کی کمی، سیوریج جیسے مسائل میں گھرے اہل کراچی بلبلا اٹھے۔ یہ لوڈ شیڈنگ اُن علاقوں میں بھی دس دس گھنٹے جاری رہی جنہیں خود کے الیکٹرک فری زون کر چکا تھا۔یہ اسپیل اتنا سخت تھاکہ چیف جسٹس کو بھی سخت نوٹس لینا پڑ گیا کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار بند تھے تو بجلی کی کھپت ویسے ہی کم تھی تو لوڈ شیڈنگ کیسے ؟ پیٹرول کے نرخ کم ہو چکے تھے اس کے باوجود فرنس آئل کی کمی کا بہانہ کسی کو قبول نہیں تھا۔جماعت اسلامی اس بار بھی سب سے پہلے عملی میدان اور سماجی میڈیا کے میدان میںآئی اور سب کو ساتھ ملایا۔
2015ء سے جاری ترکی کی عظیم ڈرامہ سیریز جس نے دُنیا بھر میں خصوصاًپاکستان میں سماجی میڈیا سے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس ہفتہ پہلی مرتبہ اُس سیریز کے مصنف، پروڈیوسر و ڈائریکٹرمہمت بوزداغ کا تفصیلی انٹرویو منظر عام پر آیا۔ انٹرویو نہ صرف پی ٹی وی پر نشر ہوا بلکہ سماجی میڈیا پر بھی خاصا وائرل رہا۔کئی گروپس میں اس کی بازگشت رہی۔اس انٹرویو میں اُنہوں نے بتایا ہے کہ ان کے مضبوط دینی گھرانے کے پس منظر،اسلام اور اسلامی تاریخ میں دلچسپی و معلومات نے ہی اس ڈرامہ سیریزکو اسلامی رنگ دینے میں مدد کی۔ اپنے گھرانے کی تربیت کے بارے میںانہوں نے بتایا کہ بچپن ہی سے قرآنی آیات کے سائے میں زندگی گزری۔اُن کے والد، دادا، چچا اور والدہ دینی پس منظر سے جڑی ہوئی تھیں اور یہی فکر منتقل ہوئی قرآن پاک پڑھنا نہیں چھوڑا۔انہوں نے صاف کہاکہ ڈرامہ سیریز ارطغرل میں جو کچھ آپ کو نظر آتا ہے وہ دراصل میرے اندرکی دنیا ہے جسے میں نے ناظرین کے لیے اسکرین پر منتقل کیاہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ26 سال کی عمر میں پروڈکشن ہائوس سے کام شروع کیا اور3 سال تک بڑی تعداد میں تاریخی موضوعات پر دستاویزی فلم بنائیں۔اس وقت دریلیش ارطغرل کے 5 سیزن مکمل کرکے ترتیب کے مطابق چھٹے سیزن کرولوش عثمان کے بعد اب اُس کے ساتویں سیزن کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ ٹی وی پر اب چھ سیزن مکمل ہو چکے ہیں۔ ترکی باکس آفس کے مطابق یہ سیریز مستقل چھ سال سے اول نمبر پر ہے ۔اس ہفتہ کرولوش عثمان کا پہلاسیزن27اقساط مکمل کر کے ختم ہوا، اسکی مقبولیت بھی چارٹ پر اول ہی رہی ۔
پاکستان میں تو ابھی سرکاری ٹی وی پر اس کاپہلا سیزن سرکاری طور پر جاری ہے البتہ انٹرنیٹ کی بدولت عوام چھٹے پر پہنچ چکی ہے اور اب تو ہر بدھ کو ترکی زبان میں ہی دیکھ سن اور سمجھ لیتی ہے۔میرے دائرہ علم کے مطابق اب تک مسلم دنیا کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں اس طرز و طوالت کاکوئی کام نہیں ہوا۔ناظرین پر پڑنے والے اثرات سماجی میڈیا پر موجود بے شمار گروپس میں ڈسکشن کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔
اس میں واقعی کچھ دل دکھانے والی افسوس ناک پوسٹیں ہوتی ہیں جنہیں۔ سادگی کہیں یا نادانی ؟؟یہ سوالات نما پوسٹیں ظاہر کرتی ہے کہ آپ شایداب تک آپ اس سیریز کو جتنا بھی دیکھ چکے ہیں تو وہ محض انٹرٹینمنٹ کی خاطر وقت ضائع تھا۔یو ٹیوب پرکل ہی ایک ویڈیو دیکھی جو بڑے فخر سے ارتغرل میں سے تکنیکی و اسکرین پلے کی خامیاں نکال کر بتانا کارنامہ سمجھ رہا ہے۔ٹوئٹر پر تواتر سے ٹرینڈ بنتا دیکھتا ہوں۔ہاں، اس میں پھر بھی کچھ نہ کچھ لمیٹیشن حدود کہ وجہ سے مقصد، کہانی, پیغام کا ذکر آجاتا ہے تو خوشی ہوتی ہے۔کوئی کلپس نکال ، کوئی فائٹنگ سیکوئینس نکال کر کسی ترانے یا منقبت پر شاٹس لگا کر خوش ہو رہا ہے۔میمز والے میمز بنا رہے ہیں۔کوئی پاپڑ بنا رہا ہے کوئی چھولے و گول گپے۔سب سے پہلے تو اْن کو سلام کہوں گا کہ جنہوں نے اس طویل سیریز کا اردو ترجمہ کیا۔ وہ واقعی قابل تعریف و تحسین ہیں اور انکو سب مائنس کر دیتے ہیں۔اصل تو گیو می 5 والے ہیں،پھر اب مکی ٹی وی، یا ٹی وی اردو بھی تیزی سے کام کر رہے ہیں جو کہ سب قابل تحسین ہیں۔جذبات میں ابتدائی قدم کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن باقی جو کچھ سوالات، پوسٹیں گروپس میں شیئر ہوتی ہیں ان سے ضرور کہوں گا کہ زندگی میں کبھی ڈرامہ تو کیا کبھی ٹک ٹاک ویڈیو بھی نہیں بنائی ہوگی جو اب ترکی کی اتنی بڑی پیشکش پر عجیب سوالات نکالتے ہیں۔جان لیں یہ وہی ہیںجواسکی 150 اقساط کے سحر میں جنون کی حد تک مبتلا رہے ؟فخر سے لوگوں نے لکھا کہ ہم نے کئی دن رات جاگ کر سیریز پوری کی۔مگر اس کے بعد کیا بس یہی سیکھا کہ کونسی اداکار کیسی اداکاری کرتا ہے؟
کون کہاں کیوں چلا گیا؟کتنا سفر کتنے منٹ میں طے ہوا؟چہرے کے تاثرات کیا تھے؟فلاں کردار کہاں چلا گیا؟ارتغرل کو میدان جنگ میں بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں لیا۔ پر اپنی نمازیں اس ڈرامے کے لیے چھوڑتے گئے ، اسی کو تو لہو لعب کہتے ہیں۔پھر آج کیا فرق رہ گیا۔۔کیا سیکولر، کیا لبرل، کیا متاثرین سب اصل پیغام سے منہ چْرانے کے لیے کبھی اسکو اسلامی ثقافت، کبھی تاریخ تو کبھی کچھ لیبل کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔جو کہتے ہیں کہ ارتغرل تو مسلمان تھا ہی نہیں، جو کہتے ہیں کہ سارا فکشن ہے آپ بھی اپنے عمل سے وہیں پہنچ جاتے ہو۔لوگ ڈیڑھ گھنٹہ کی ہالی ووڈ بلاک بسٹر میں دسیوں کمیاں نکال لیتے ہیں یہ تو ایک قسط ہی دو گھنٹہ کی بناتا ہے۔ ہونگی ، اس میں بھی لا تعداد تکنیکی و اسکرین پلے کی خامیاں ہونگی کیوں کہ بہرحال انسان ہے۔سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اصل پیغام کو چھوڑ کر لوگ کہانی، کرداروں، پلاٹ، اسکرین پلے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ یہ کوئی عام ڈرامہ ، فلم یا کہانی ہے ؟ اداکار شان کہتے ہیں کہ میں ’فلموں و ڈراموں سے اسلام نہیں سیکھتا‘ بات تو ٹھیک ہے لیکن ہالی ووڈ، لالی ووڈ و بالی ووڈ کے لیے تو کہی جا سکتی ہے مگر ارتغرل ان سب سے الگ ، خصوصاً جب آپ نے مصنف کی سوچ جان لی ہو۔
لاتعداد تبصروں میںکسی کو یہ کہنے کی ہمت نہیںہوئی کہ ہمیں اس ڈرامہ نے اپنا بھولا مشن یاد دلایا ہے کہ ہم بھی اللہ کے نائب بنا کر بھیجے گئے ہیں اور ہمیں اس زمین پر اللہ کا نظام لانا ہے اسکے لیے ارتغرل کی مانند کردار پیدا کرکے ایمان، تقوی و جہاد کی بنیاد پر اس زمین پر ایک عادلانہ حق پر مبنی نظام کی جدو جہد کرنی ہوگی۔ اسکے علاؤہ ہمارا کوئی مقصد وجود نہیں۔یہ عظیم پیغام چھوڑ کر ہمیں سب کچھ یاد ہے۔ کورونا کے خودرو ماہرین کی طرح ہم بھی اپنے لیول سے بڑھ کر تکنیکی تبصرے کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی پروڈکشن کوئی معمولی بات ہے۔ یہ خیمہ بستی آٹھ سال سے سجا کر رکھی ہوئی ہے بوزداغ نے۔ یہ معمولی بات ہے کیا؟
ترکی میں سارے کردار فارغ بیٹھے ہیں جو یہ سارے کام کر سکیں۔گھڑ سواری، تلوار بازی وغیرہ۔ایک سال کی تو ٹریننگ ہوئی ہے اداکاروں کی، کچھ معلومات ہیں بھی کہ نہیں۔خیال رہے کہ دیگر پروجیکٹ بھی کرتے ہیں اداکار۔بوزداغ کا انٹرویو دیکھا تو پتا چلے گا کہ یہ ڈرامہ اس نے خالص اللہ کی طرف سے دیئے گئے اشاروں کی بنیاد پر لکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ “یہ میرے اندر کا طوفان تھا جسے نکالنا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے ہر ہر دل پر اثر کیا۔ “اچھا یہ بتائیں کہ کسی بھی غیر مسلم ( میکسیکن جوڑے )کاصرف ڈرامہ دیکھ کر قبول اسلام کا واقعہ ایویں لگتا ہے آپکو۔بوزداغ نے تو اسطرح اپنی مراد پا لی۔آپ نے اتنا وقت لگا کر کیا پایا یہ آپکو سوچنا ہوگا ؟اسکرین پلے ، کرداروں کا جھول یا زندگی کا مقصد؟اس سے آگے نکلنا ہوگا وگرنہ کیا صرف تلواروں اور کلہاڑے کی پریکٹس کرتے رہنا ہی اصل حاصل ہے؟کیسے یہ اداکار دلوں پر راج کر گئے۔ کیا اس سے پہلے ان اداکاروں نے کام نہیں کیا تھا؟ لیکن آپ دیکھیں کہ کیا شرق کیا غرب۔۔ کیا شمال کیا جنوب۔۔سب پر یکساں اثرات ہوئے اداکاروں کے، اداکاری کے، پیش کش کے۔۔۔
جب یہ محمد بوزداغ کی زبانی جانا تو سمجھ آیا۔ ان کا صاف کہنا ہے کہ یہ ڈرامہ ان کے اندر بچپن ہی سے حاصل شدہ قرآنی تعلیمات کا موجزن طوفان ہے ، اْن کا مکمل دینی گھرانہ تھا جس میں قرآن کو اولیت حاصل تھی۔ پھرانہیں ایک روز خواب میں اس جانب اشارہ ملا تبھی وہ اس کام میں آئے۔پھر ارتغرل کو بنانے میں یہ کام، یہ سوچ، یہ فکر کو ایک سال لگا کر انہوں نے تمام کرداروں میں منتقل کیا۔۔۔ تب جا کر کرداروں نے اللہ کی مدد سے ایسا انصاف کیا،جس کے اسکرین پر آپ ہم سب گواہ ہیں۔ایک نہیں کئی سین ، کئی ڈائیلاگ ، کئی مناظر ایسے ہیں جو اندر سے آپ کی روح کو ہلا دیں۔اسلیے میں ایک خاص پس منظر رکھنے اور خاص لٹریچر کے مطالعہ کی بدولت اس کو محض ڈرامہ نہیں قرار دیتا کہ یہ ڈرامہ آج چھ سال لگا کراس بات کی ہیمرنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا عادلانہ نظام ہی ہونا چاہیے۔یہی سب کو امن، خوشحالی دے گا۔ یہی ارتغرل کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا اور یہی درحقیقت ہماری زندگی کا مقصد ہے۔یہی آپ کو کرولش عثمان کی آخری قسط دیکھ کر پتا لگا ہوگا۔بوزداغ صاحب کا صاف کہنا ہے کہ سیریل بناتے وقت اور آج بھی ہم نے اس پروجیکٹ کا کمرشل ایسپیکٹ نہیں سوچا تھا اللہ نے آگے چل کر خود رستے کھولے۔ایک اور اہم نقطہ یاد رہے کہ مہمت بوزداغ کے تاحال کیے گئے تمام کام دیکھ کر بھی آپ میری بات کی تصدیق کریں گے: یونس ایمرے۔ مہمچک کتلعمارے۔ کتل ظفر۔ انصاف کی تلوار۔۔ ان شاہکاروں پر تو ابھی بات شروع ہی نہیں ہوئی لیکن ان سب کے پیچھے غور کریں ، کام دیکھیں تو میری باتوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ یہی پیغام ملے گا۔مزے دار بات یہ ہے کہ یہ سیریز جو قیام دین کے لیے ریاست کے حصول کو ایمان، استقامت، جہاد کے عظیم درس کے ساتھ تربیت دیتی ہے۔ اس کو عمل کی دنیا میں لانا ہوگا، حلیمہ و بالا کی خوبصورتی، عثمان و ارتغرل کی اداکاری، کون اچھا ولن، کون نویان سے بدتر اور بہتر۔ اب اس کے چکر سے نکلو اور اپنی بے مقصد زندگیوں میں اللہ کی زمین پر اس کا نظام لانے کی جدو جہد کا سوچو۔ کہیں اقساط میں کھو کر اصل بات سے محروم نہ رہ جانا۔

حصہ