خواب اور اس کی تعبیر

2856

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
خواب اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اور آدمی کو اس کے ذریعے بشارتیں ملتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’نبوت منقطع ہوگئی اور سوائے مبشرات کے نبوت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہا۔‘‘ صحابہؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہؐ مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سچے خواب۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشرات ہوتے ہیں اور یہ نبوت کا ایک حصہ ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی جب بعثت کا وقت آیا تو ابتدا میں آپؐ کو صرف چھ ماہ تک سچے خواب نظر آتے رہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آپؐ کوئی خواب دیکھتے تو جو واقعہ آپؐ رات کو خواب میں دیکھتے وہی واقعہ اپنی پوری جزئیات کے ساتھ بیداری میں پیش آجاتا۔ اور آپؐ کا خواب سچا ہو جاتا۔ اس طرح چھ ماہ تک آپؐ کو سچے خواب نظر آتے رہے اس کے بعد وحی کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ سلسلہ تقریباً 23 سال جاری رہا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔‘‘ اور یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ سچے خوابوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مومنوں کو سچے خوابوں کے ذریعے بشارتیں بھی دی جائیں گی اور قیامت کے قریب یعنیآخری زمانے میں مسلمانوں کو بیشتر سچے خواب نظر آئیں گے۔
بعض اوقات اللہ تعالیٰ بیداری کی حالت میں بھی کچھ چیزیں دکھاتے ہیں جس کو کشف کہتے ہیں۔ حضرت محمد بن سیرینؒ بڑے درجے کے تابعین میںسے ہیں اور خواب کی تعبیر میں امام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خواب کی تعبیر بتانے میں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ وہ خواب کے بارے میں فرماتے ہیں ’’خواب ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان خوش ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھا خواب دکھایا۔ لیکن خواب کسی انسان کو اس دھوکے میں نہ ڈالے کہ وہ بہت بڑے مرتبے پر پہنچ گیا اور صرف ان خوابوںکے نتیجے میں بیداری کے اچھے اعمال سے غافل ہو جائے۔‘‘
خوابوں کی بنا پر کسی کی بزرگی اور فضیلت کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اصل فضیلت بیداری کے افعال و اقوال ہیں۔ انسان جب اچھا خواب دیکھے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو میرے حق میں باعث برکت بنا دے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے میری ہی زیارت کی کیوں کہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا۔‘‘ (صحیح مسلم) اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت عطا فرمائی ہے تو یہ بہت عظیم سعادت ہے اور اس کی خوش نصیبی میں کوئی شک نہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف حلیہ مبارک میں دیکھے تو اس نے آپؐ ہی کو دیکھا ہے۔ شیطان یہ دھوکا نہیں دے سکتا کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارک میں آجائے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ایک مرتبہ رات کو عبادت میں مشغول تھے‘ تہجد کا وقت تھا اچانک ایک زبردست نور چمکا اور اس نور میں سے آواز آئی ’’اے عبدالقادر تو نے ہماری عبادت کا حق ادا کر دیا ہے‘ اب تو اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ آج کے بعد ہماری طرف سے تم پر کوئی عبادت فرض و واجب نہیں‘ تیری نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ سب معاف ہے‘ اب تو جس طرح چاہے عمل کر‘ ہم نے تجھے جنتی بنا دیا۔‘‘ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے یہ سنتے ہی فوراً جواب میں فرمایا ’’مردود! دور ہو جا‘ یہ نماز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو معاف ہوئی نہیں ان کے صحابہ اکرامؓ سے معاف نہیں ہوئی مجھ سے کیسے معاف ہو جائے گی… دور ہو جا۔‘‘ یہ کہہ کر شیطان کو دور کر دیا۔ اس کے بعد ایک اور نور چمکا جو پہلے نور سے بھی بڑا تھا اس میں سے آواز آئی ’’عبدالقادر تیرے علم نے آج تجھے بچا لیا ورنہ یہ وہ دائو ہے جس سے میں نے بڑے بڑے عبادت گزاروں کو ہلا ک کر دیا اگر تیرے پاس علم نہ ہوتا تو تُو ہلاک ہو چکا ہوتا۔‘‘ حضرت شیخ عبدالقادرؒ نے فرمایا ’’مردود! دوبارہ بہکاتا ہے۔ میرے علم نے مجھے نہیں بچایا میرے اللہ نے مجھے بچایا ہے۔‘‘ شیطان بڑے بڑے عالموں‘ متقی پرہیزگاروں کو بہکانے میں کمی نہیں کرتا مگر اللہ کی ر حمت و فضل ان کو اس لعین سے محفوظ کرتا ہے اسی لیے علما نے فرمایا ہے کہ چاہے خواب ہو یا کشف ہو یا کرامت ہو ان میں سے کوئی چیز بھی دین میں حجت نہیں ہے۔ وہ چیزیں حجت ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیداری کے عالم میں ثابت ہیں۔
حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ لہٰذا جو شخص خواب میں کوئی ایسی چیز دیکھے جو ناگوار ہو تو بائیں طرف تھتکار دے اور اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لے۔ جس کروٹ پر خواب دیکھا تھا اس کی جگہ دوسری کروٹ بدل لے۔ پھر یہ خواب ان شاء اللہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اور اگر اچھا خواب دیکھے تو اس صورت میں اپنے جاننے والے اور اپنے محبت کرنے والوں کے سامنے اس خواب کو بیان کرے۔ دوسروں کویا حاسدوں کو نہ بتائے کیوں کہ بعض اوقات ایک آدمی وہ خواب سن کر الٹی سیدھی تعبیر بیان کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس اچھے خواب کی تعبیر اس کے مطابق ہو جاتی ہے اس لیے اپنے محبت کرنے والوں کو وہ خواب بتائے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔‘‘ (صحیح بخاری)
خواب اور اس کی تعبیر ایک مکمل علم ہے جس سے آئندہ کے حالات کا انکشاف ہوتا ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بشارتوں کے سوا نبوت کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صحابہؓ نے دریافت فرمایا کہ بشارتوں سے کیا مراد ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سچا خواب۔‘‘ سچا خواب مستقبل کی طرف ایک اشارہ ہوتا ہے۔ یہی وہ سچے خواب تھے جو وحی الٰہی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھ ماہ تک نظر آتے رہے اور ان سچے خوابوں کی تعبیر صبح صادق کی مانند روشن ہو جاتی تھی۔ انہی خوابوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میلان طبع تبتل و انقطاع کی طرف ہو گیا اور آپؐ سب سے الگ تھلگ غارِِ حرا میں کئی کئی دن کے لیے خلوت نشین ہوجاتے تھے۔ (صحیح بخاری‘ صحیح مسلم) رویائے صالحہ علم نبوت کا ایک جزو ہے گو نبوت باقی نہیں رہی مگر علم نبوت سچے خوابوں کی صورت میں باقی ہے۔ خواہ سچے خواب دیکھنے ولا نبی نہ ہو مگر نیک روشن‘ حلم ‘ میانہ رو اور سنتوں پر عمل کرنے والا ہو۔ خدائے برتر کی رحمت نوازی نے انسان کے اندر ایسی فطرت ودیعت فرمائی ہے کہ کہ عالم رویا میں حسب استعداد اس کی حجاب استعداد اٹھ جاتے ہیں ایسی حالت میں اس کا نفس جس چیز کی طرف بھی متوجہ ہو اس کا علم حاصل کرلیتا ہے۔ اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی جانب سے پس جب کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو اسے صرف اس شخص سے بیان کرے جس سے محبت و اعتقاد ہو اور جب مکروہ خواب دیکھے تو حق تعالیٰ سے اس خواب کے شر اور شیطان کے فتنے سے پناہ مانگے اور یہ بھی مناسب ہے کہ مقصد شیطان کے دفع کرنے کے تین بار تھتکار دے اور ایسا خواب کسی سے بیان نہ کرے اس حالت میں برا خواب کوئی ضرر نہ دے گا۔‘‘ (صحیح بخاری‘ صحیح مسلم)
ضرر نہ کرنے کا مطلب رنج و الم سے محفوظ رکھنا ہے اس لیے صدقہ کو تحفظ اور دافع بلیات کا ذریعہ بنایا ہے۔ بعض محققین نے فرمایا ہے کہ شیطان خواب میںحق تعالیٰ کی حیثیت سے ظاہر ہو کر اخترا پردازی کر سکتا ہے اور دیکھنے والا یہ دھوکا کھا سکتا ہے کہ یہ واقعی باری تعالیٰ ہے لیکن رحمت اللعالمین کی صورت کبھی اختیار نہیں کرسکتا کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مظہر ہدایت اور شیطان مظہر ضلالت ہے۔ امام محمد بن سیرینؒ نے خواب کی تین اقسام بتائی ہیں ایک تو حدیثِ نفس ہیں یعنی دلی خیالات کا انعکاس دوسرے تخویف شیطان اور تیسرے مبشرات خداوندی۔ تعبیر اور اعتبار کے لائق صرف وہی خواب ہوتے ہیں جو مبشرات خداوندی ہیں۔ حدیث نفس دراصل وہ خواب ہیں جو کوئی شخص دن بھر کام کرتا ہے وہی عموماً خواب میں دیکھتا ہے۔ سچا خواب اس لیے دکھایا جاتا ہے کہ بندہ محفوظ ہو اور طلب حق اور محبت الٰہی میں اور زیادہ سرگرم کار ہو ایسا خواب قابل تعبیر ہے اور اس پر بڑے بڑے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ سچے خواب کا تعلق اکل حلال اور صدق مقال سے بھی ہے۔ جو شخص سب سے زیادہ راست گو ہے اس کا خواب بھی سب سے زیادہ سچا ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص مکروہ و ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اس خواب کے شر کے اثرات اور ابلیسی فتنے سے پناہ مانگے اور ایسا خواب کسی سے بیان نہ کرے۔ اس صورت میں اس خواب کے برے اثرات اس پر مرتب نہیں ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جب تک خواب بیان نہ کیا جائے اُس وقت تک پرندے کے پائوں پر معلق رہتا ہے (اسے قیام و ثبات نہیں ہوتا) اور جب بیان کر دیا جائے تو اسی طرح واقع ہو جاتا ہے۔‘‘ برا خواب بیان کرنے کی اس لیے ممانعت کی گئی ہے کہ مبادا کوئی معتبر حسب ظاہر کوئی بری تعبیر دے دے اور عام طور پر مشاہدے میں آیا ہے کہ جیسے کوئی تعبیر دیتا ہے تقدیر الٰہی سے ویسا ہی وقوع پزیر ہوتا ہے ہر چند کہ تمام واقعات و حوادث قضا و قدر سے وابستہ ہیں مگر صدقہ اور دعا سے اس کے اثرات پر فرق پڑتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنا خواب دوست یا عالم کے سوا کسی سے نہ کہو۔‘‘
امت مسلمہ میں محمد بن سیرینؒ کی شخصیت ایسی زبردست ہے جن کو مقام ولایت کے ساتھ تعبیر خواب کا غیر معمولی جوہر ودیعت کیا گیا تھا۔ ان کو تعبیر دانی میں جو کمال حاصل تھا اس کی نظیر تابعین اور صحابہ کرامؓ میں بھی مشکل سے ملتی ہے۔ آپ کے عہد مبارک میں اسلامی دنیا کا یہ عام معمول تھا کہ جب کوئی شخص ایسا خواب دیکھتا کہ علما اور صلحائے وقت اس کی تعبیر سے قاصر رہتے تو محمد بن سیرین ؒسےرجوع کیا جاتا آپ اس کی جو تعبیر دیتے وہ ایسی اٹل ہوتی کہ اس کا اثر ظاہر ہونے پر بڑے بڑے ائمہ وقت بھی آپ کی فراست کی داد دیتے۔
حضرت امام ابن سیرینؒ فرماتے ہیں معتبر کو عالم دینی کے علاوہ لوگوں کے اطوار و خصائل سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ اسے ہمیشہ اللہ سے یہی توفیق مانگنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس کی زبان پر اچھی اور ثواب کی بات جاری کرے اور گناہوں سے بچتا رہے اور لقمۂ حرام کھانے‘ بے ہودہ باتیں کہنے اور سننے سے دور رہے۔ جب وہ خواب کو سنے تو باوضوہو۔ وہ سب سے پہلے سائل کا نام اورمرتبہ‘ مذہب اور سیرت‘ خصلت اور عقل و فہم معلوم کرے۔ حضرت ابن سیرینؒ کا قول ہے کہ جو خواب رات کے پہلے حصے میں دکھائی دے اس کی تعبیر پانچ سال میں ظاہر ہوتی ہے اور جو آدھی رات میں دکھائی دے اس کی تعبیر پانچ مہینوں میں ظہور میںآتی ہے اور اگر بہت سویرے صبح کے وقت خواب دکھائی دے تو اس کی تعبیر دس روز تک ظاہر ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس قدر رات کا وقت دن کے وقت سے زیادہ نزدیک ہو وہ خواب درست ہوتا ہے اور نتیجہ جلد ظاہر ہوتا ہے۔ جس خواب میں آدمی خدائے تعالیٰ کو بے مثل و بے مثال دیکھے اس خواب سے بڑھ کر بابرکت خواب اور کوئی نہیں ہوتا۔ حضرت جبرائیلؑ کو خوش طبع اور خندہ پیشانی سے دیکھنا دشمن پر فتح یاب ہونے کی علامت ہے‘ حضرت عزرائیلؑ کو آسمان پر اپنے آپ کو زمین پر دیکھنا اس بات کی علامت ہے کہ خواب دیکھنے والا اپنے رتبے سے معزول ہو جائے گا۔ فرشتوں کو آپس میں لڑتے دیکھنا اس بات کی نشانی ہے کہ خواب دیکھنے والا گناہوں اور عذاب الٰہی میںگرفتار ہو جائے گا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھنا خوشی اور راحت کی‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کو دیکھنا عدل و انصاف کی‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ کو دیکھنا عادت اور پرہیزگاری کی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخوش دیکھنا صاحبِ خواب کے بہادر اور سرداری کی علامت ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھنے والا آخر میں شہید ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ کو خواب میںدیکھنا خیر و منفعت کی دلیل ہے۔

حصہ