لیاقت علی خان سے حفیظ شیخ تک

455

زوال و پستی کی الم ناک داستان ہے، نا اہلی کی طرف بڑھنے کی کہانی ہے۔ ایک ایسی خوف ناک روداد جس کے ایک ایک ورق پر میرے ملک کے سادہ لوح، محنتی، ذہین اور وطن سے محبت کرنے والے عوام کے مستقبل سے اربابِ اقتدار کے کھیلنے کے مناظر نظر آتے ہیں۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد جب برطانوی آقائوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ انہوں نے ہندوستان چھوڑنا ہے تو گیارہ صوبوں میں موجود اسمبلیوں کے ارکان کے ووٹوں سے ایک آئین ساز اسمبلی منتخب کی گئی، جس میں جمہوری اصولوں کے مطابق ہندو ووٹوں کی اکثریت کے بل بوتے پر کانگریس نے 70 فیصد نشستیں حاصل کیں، لیکن مسلم لیگ کا کمال یہ تھا کہ وہ اس خطے پر بسنے والے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔
انگریز سرکار نے انتقالِ اقتدار کے لیے ایک نمائندہ حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ دونوں پارٹیوں نے عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کر لی لیکن محکموں پر اختلاف شروع ہو گیا۔ مسلم لیگ کا مطالبہ تھا کہ خارجہ، داخلہ اور دفاع جیسی تین اہم وزارتوں میں سے ایک انہیں دی جائے۔ کانگریس یہ تینوں وزارتیں دینے کو تیار نہ تھی۔ لیکن وائسرائے نے زور ڈالا کہ کم از کم ایک اہم وزارت مسلم لیگ کو ضرور دی جائے تو کانگریس میں موجود ایک مسلمان رکن رفیع الدین قدوائی نے مشورہ دیا کہ مسلم لیگ کو وزارتِ خزانہ دے دی جائے، ان لوگوں کا معیشت و معاشیات سے کیا تعلق، یہ خود بہ خود ناکام ہو جائیں گے۔ لیکن قائدِاعظم نے یہ چیلنج قبول کر لیا اور لیاقت علی خان نے وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا۔
برطانوی ہندوستان کی سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا اور آخری ہندوستانی وزیر خزانہ تھا، جس نے 28 فروری1947ء کو اسمبلی میں پہلا بجٹ پیش کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ غلام ہندوستان میں ایک مقامی اور وہ بھی مسلمان کا یہ بجٹ گزشتہ 80 سال کے انگریزوں کے بنائے گئے بجٹ سے بالکل مختلف تھا۔ اسے آج بھی ’’غریب آدمی کے بجٹ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کیا یہ سب کچھ اچانک ہو گیا تھا‘ نہیں… قائدِاعظم نے یہ چیلنج سوچ سمجھ کر قبول کیا تھا۔ اس کے پس منظر میں سیاسی قیادت کی بالغ نظری، محنت اور خلوصِ نیت سے کام کے کئی سال ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اکتیسواں اجلاس‘ جو 24 دسمبر سے 26 دسمبر 1943ء کو کراچی میں منعقد ہوا‘ اُس میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے ایک گھنٹہ چالیس منٹ فی البدیہ تقریر کی۔ اس تقریر میں قائدِاعظم نے عالمی معاملات سے لے کر ملکی معیشت، اقتصادیات، کاشت کاروں کے مسائل، سوامی دیانند سرسوتی کی گستاخیٔ رسول کی کتاب کی مذمت، اشتراکی فلسفے کا رَد اور بنگال کے قحط تک ہر مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی اور اجلاس میں موجود تقریباً ایک لاکھ کے قریب مسلمانانِ ہند کو ان تمام معاملات سے متعلق مکمل آگاہی دی۔
تقریر کے خاتمے کے بعد یہ اجلاس تالیاں بجا کر ختم نہیں ہوا بلکہ تین دن جاری رہا اور تمام اہم امور کے حوالے سے کمیٹیاں بنائی گئیں جن کے ذمے یہ کام تھا کہ آئندہ کی سیاسی جدوجہد اور اقتدارمیں آنے کے بعد کرنے والے اقدامات کی منصوبہ بندی کریں۔ کمیٹیوں میں سب سے اہم ’’منصوبہ بندی کمیٹی‘‘ تھی جس کے ذمے پانچ سالہ ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبہ سازی تھی۔ اس کمیٹی کی چارسالہ محنتِ شاقہ ہی تھی کہ جیسے ہی مسلم لیگ کو وزارتِ خزانہ ملی تو قائدِاعظم نے یہ چیلنج فوراً قبول کر لیا۔
لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ بنتے ہی برصغیر میں موجود ایسے ذہین افراد کو جمع کیا جو انگریز سرکار کے ساتھ بحثیت سول سرونٹ کام کرتے رہے تھے اور فنانس منسٹری کو اندر سے جانتے تھے۔ یہ انڈین سول سروس کے وہ مسلمان اراکین تھے جو اب ملازمت چھوڑکر مسلم لیگ کی سیاست میں آگئے تھے۔ ان میں تین اہم افراد، چوہدری محمد علی، ملک غلام محمد اور زاہد حسین شامل تھے۔ یہ تینوں برطانوی سول سروس کی فنانشل سروسز کا حصہ رہے تھے اور بجٹ سازی ان کے لیے کوئی انوکھی چیز نہ تھی۔ لیکن ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ برطانوی آقائوں سے مرعوب نہیں تھے، بلکہ قائدِاعظم کی دی گئی پالیسیوں کو سمجھتے ہوئے مسلم لیگ کی منصوبہ بندی کی کمیٹی کا کام کرتے رہے تھے۔ آپ آج، قائدِاعظم کی 1943ء کی تقریر میں بجٹ سازی کے حصے نکال کر سنیں تو آپ کو سوائے اسلامی تعلیمات، اسلامی معاشی انصاف کے کچھ نہیں ملے گا۔ آپ کو قائدِاعظم کی تقریر میں بار بار سیدنا عمرؓ کے حوالے نظر آئیں گے۔ ان لوگوں نے وزیرخزانہ لیاقت علی خان کی سربراہی میں دن رات ایک کر کے ایک ایسا بجٹ بنایا جس میں انگریزوں کے گزشتہ 70 سال سے پیش کیے جانے والے اسٹیٹس کو (Status Quo) اور مراعات یافتہ طبقوں والے بجٹوں کومکمل طور پر پلٹ کر رکھ دیا۔
لیاقت علی خان نے اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے قائدِاعظم کی دی گئی گائیڈ لائن کے مطابق معاشیات کے اصولوں کے لیے قرآنِ پاک کا حوالہ دیا اور فرمایا:
“I do Believe In The Quranic Injunctions، That Wealth Should Not Be Allowed To Circulate Among The Wealthy And Stern Warning Given Against Acumulation of Wealth In the Hands Of Individuals”
ترجمہ: ’’میں قرآنِ پاک کی ان تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں کہ دولت صرف سرمایہ داروں کے درمیان ہی گھومتی نہ رہے اور قرآن ان لوگوں کے لیے سخت وعید اور سزا کا اعلان کرتا ہے جو دولت کا ارتکاز کرتے ہیں۔‘‘
یہ صرف تقریر کے الفاظ نہ تھے بلکہ لیاقت علی خان اور ان کی معاشی ٹیم نے اس کے عملی نمونے کے طور پر ایک ’’غریب آدمی کا بجٹ‘‘ پیش کیا تھا‘ جس کے اہم نکات یہ تھے،
-1 پہلی دفعہ پورے ہندوستان سے سیلز ٹیکس ختم کیا گیا کیوں کہ یہ عوام کی جیب سے جاتا تھا۔
-2 انکم ٹیکس کی حد 2000 روپے سے بڑھا کر 2500 روپے کر دی گئی۔
-3 وہ سرمایہ دار‘ جن کا سالانہ منافع ایک لاکھ سے زیادہ تھا‘ اُن پر انکم ٹیکس کی شرح 25 فیصد کر دی گئی۔
-4 پہلی دفعہ سرمائے کے حصول (Capital Gain) پر ٹیکس لاگو کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ جو شخص بھی پانچ ہزار سے زیادہ کسی طریقے سے سرمایہ حاصل کرے گا‘ وہ ٹیکس دے گا۔
-5 اس بجٹ میں سب سے اہم یہ بات تھی کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران منافع خوروں، ٹھیکے داروں اور سپلائرز نے ناجائز ذرائع سے دولت کمائی تھی، اُن کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا جس کو اختیاردیا گیا کہ وہ ایک ماہ میں ان لوگوں پر بھاری ٹیکس اور جرمانے عائد کرے۔
یہ تھی وہ متاثرکن کارکردگی کہ لیاقت علی خان کے بجٹ کو اکثریتی کانگریس بھی عوامی دبائو کے خوف سے مسترد نہ کر سکی۔ مگر وہ سرمایہ دار اور کاروباری‘ جو کانگریس کو فنڈ دیتے چلے آئے تھے‘ انہوں نے کانگریس کی مدد بند کر دی اور کاسہ لیس مفکروں، دانشوروں سے مضامین لکھوانا شروع کیے اور اس سارے نظام کو ارب پتی کی چیخیں ’’ Millioner’s Howels‘‘ کہا گیا۔
الم ناک بات یہ ہے کہ آج ٹھیک 73 سال کے بعد پاکستان کی پلاننگ اور فنانس کی راہ داریوں پر اُن لوگوں کا قبضہ مکمل ہو چکا ہے جن کا اس زمین سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ان کے دل مغرب میں دھڑکتے ہیں اور دماغ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے یرغمال ہیں۔ ان کے زیر سایہ کام کرنے والے بیوروکریٹ ایسے ہیں جن کو گزشتہ پچاس سال سے گھسی پٹی بجٹ سازی کا غلام بنا کر تخلیقی سوچ سے محروم کیا جا چکا ہے۔ آج ہماری بجٹ سازی کا پورا ماحول دو طبقات کے ہاتھوں میں یرغمال ہے، پہلا طبقہ پورے ملک میں پھیلی بیوروکریسی‘ جو اپنے معمولی گریڈ کے آفیسر کی بنائی ہوئی اسکیموں کو‘ بغیر محنت آگے فارورڈ کر کے بجٹ کا حصہ بناتی ہے۔ اور دوسرا طبقہ، ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ ڈونرز کے مطالبات کی بنیاد پر اور انہی کے ایجنڈے کے مطابق بجٹ کی نوک پلک سنوارنے والے حفیظ شیخ جیسے کارندے ہیں۔ ایسے ماحول میں کوئی لیاقت علی خان پیدا نہیں ہو سکتا جو قرآنِ پاک کی تعلیمات کا اعلان کرے اور ان کے مطابق بجٹ بنائے۔ یہاں صرف حفیظ شیخ جیسے لوگ ہی جنم لیتے ہیں جو آئی ایم ایف کے قصیدے گائیں اور انہی کی ہدایات پر بجٹ بنائیں۔

حصہ