طارق عزیز بھی رخصت ہوئے

426

نوخیز انور صدیقی
عید الفطر کی باسی ، 1969ءکے آخری ایام ،فلم انسانیت میں وحید مراد ، زیبا، طارق عزیز اور ننھا ، تمنّا اور سلطان راہی کے علاوہ سلمیٰ ممتاز اور ہم اسکول کے طالب علم ، گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے پہنچے ۔ طلعت حسین ، علی اعجاز ، صائقہ اور اجمل بھی اہم اداکار اور شائد فردو س بھی فلم المیہ انجام ،وحید مراد کی فلمی موت، طارق کی کینسر سے صحت یابی اور فلم ختم ذہن برگشتہ کہ وحید کیوں مرے اور طارق کیسے بچ گئے اور افسوسناک سوال یہ زیبا نے آخری وقت میں وحید مراد کو تھپڑ کیوں مارے ( ایسا ہی شبنم نے بھی بندگی میں وحید مراد کی حالت کی تھی۔
خیر معصومیت کا دور تھا ۔ ہمارے تایا ڈاکٹر ریحان مرحوم کے گھر جناح ہسپتال میں میری بڑی بہن محترمہ در نایاب بانولاولد ہونے کی وجہ سے چند سال مقیم رہے ۔1970 ء کے عام انتخابات کےسلسلے میں عائشہ باوانی اسکول کالج نزد جناح ہسپتال جلسہ منعقد ہوا۔ہم بھی گئے تحریر و تقریر کا شغف تھا ایک معتبر شخص نے ہمیں جلسے کا معلن یعنی اناؤنسر بنادیا ۔ کہا تایا تائی سے اجازت لینے دیجئے ۔فرمایا ہم بات کرلینگے۔PPP کا جلسہ تھا۔عبدالحفیظ پیرزادہ ، معراج محمد خان ، طارق عزیز ، تاج بی بی بلوچ اور پروفیسر این ڈی خان سمیت چند دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا ۔ہماری کمسنی اور کارکردگی کو سبھی نے سراہا۔ طارق صاحب بھی مہربان نظر آئے ۔ ہم نے معصومیت سے پوچھا آپ نے تاج بی بی بلوچ کے بارے میں انہیں ایک دوست کہا ۔وہ تو خاتون ہیں ،ہنس کے کہا آئندہ سہیلی کہوںگا ۔ اس کے بعد کراچی میں کئی بار ملے۔ اللہ نے انہیں بڑی عزت دی ۔اداکار محمدعلی، طارق عزیز اور محمود خان مودی ،مرحوم زیڈ اے بخاری کے قریبی شاگرد رہے ۔آواز کی دنیا کے بزرج مہر تھے ۔تینوں لاولد رہے اللہ کی حکمت ،طارق عزیز صاحب سے ایک بار 1981 ء میں فون پر رابطہ کیا۔ میں جنگ اخبار سے مستعفی ہوکر سرکاری افسر ایک انگریزی کتاب تھریڈ لائنز پاکستان کے لیے اسلام آباد سے حکم ملا،آج کل نیلام گھر کراچی سے ہورہا ہے۔آپ دس کتابیں طارق عزیز کو دیں۔یہ انعام میں سوالات کے جوابات درست دپنے پر دلوائیں ۔ رابطہ ہوا خیر و عافیت کا تبادلہ کتابوں کے حوالے سے تھریڈ لائنز گیلری اسلام آباد حکومت پاکستان کا بھی اصرار طارق کہہ گئے یہ تو کمرشل ہے اور زمیں جنبد نہ جند گل محمد ضیاء الحق ، کی گڈبک میں آگئے ۔بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی۔طارق عزیز نے انڈیا سے واپسی پر کسی اخبار نویس سے کہا۔میں ایک خوبرو کے چکر میں پڑگیا تھا تعلیم اسی لئے واجبی رہ گئی۔پھر بولے میری مراد ایک سیاسی خوبرو سے ہے۔یعنی بھٹو صاحب اس گفتگو کے دوررس اثرات ہوئے۔پیپلزپارٹی ان سے بتدریج ناراض ہوتی چلی گئی۔ 1977ءکے انتخابات کے زمانے میں وہ پاکستان قومی اتحاد اور 9 ستاروں پر تنقید کرتے تھے ایک بار 1988 ء کے عام انتخابات کے نتائج کے دوران MQM کے لیے استہزائیہ انداز میں ایک گروہ دو تین بار کہہ گئے ہلچل مچ گئی۔ صدر غلام اسحٰق خان نے ایوانِ صدر طلب کیا۔جنرل اسلم بیگ کی بابت طارق صاحب نے کسی سے سن کر کوئی خدشہ ’’آزادی‘‘ بیان کیا۔صدر مملکت نے کہا ایسی کوئی بات نہیں جاکر معذرت کیجئے۔کچھ ایسی ہی معصومیت سپریم کورٹ پر نواز شریف کے جارحانہ حملے کے موقع پر انسے رونماء ہوئی اور پھر جنرل پرویز مشرف کی جلوت و خلوتِ مشیرانہ بھی لوگوں ایک آنکھ نہ بھائی طارق عزیز بحیثیت مجموعی اچھے انسان تھے۔اپنی جائداد انہوں نے وطن کے نام کردی ہے ۔ وہ ایک اہم اثاثہ ہیں۔تاریخ کا اور وطن کا بھی ایک اہم حوالے سے ہجرت تناظر میں ان کی ایک ویڈیو بڑی پراثرہے۔ان میں اداکاری، صداکاری اور وفاداری سمیت بہت سی خوبیاں تھیں ۔اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں مقامِ احسن اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائیں ۔آمین ثم آمین ۔

حصہ