پرانی روایات اور لاک ڈاؤن

331

افروز عنایت
یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون کو لوگوں نے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے اس وبا کو پھیلنے میں تقویت ملی ہے۔ لیکن اگر سوچا جائے تو اس جزوی لاک ڈائون کے کچھ مثبت پہلو ضرور سامنے آئے ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں ان سطور کے ذریعے میں آپ سب سے چند تصوریں ضرور شیئر کروں گی یقینا پڑھنے والے بھی اس بات کی نہ صرف تائید کریں گے بلکہ متفق بھی ہوں گے۔ بڑی خوشی کی بات یہ دیکھی گئی کہ اس ظاہری تبدیلی سے روحانی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں ہیں۔ دعا ہے کہ یہ قائم رہیں اور لوگوں کی زندگی میں یہ تبدیلی میں روح کی پاکیزگی سے تشبہہ دوں گی۔
٭…٭
عشرت: امی مجھے تو اشعر کو دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے اس کورونا نے اس میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کی ہے جو میں دس سال میں کام نہ کر سکی وہ ان چند ماہ میں ہو گیا ہے۔
امی (سیل فون پر) یہ تو اچھی بات ہے کہ اس میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔
عشرت: جی امی ویسے تو وہ گھر میں ٹکتا ہی نہیں تھا دفتر سے گھر آکر کھانا کھایا کپڑے بدلے اور پھر دوستوں کی محفل یہ اس کا معمول تھا نماز کے لیے کہتی تو کہتا کہ تم پڑھ رہی ہونا میرے لیے بھی اور بچوں کے لیے دعا کرلینا اب سارا دن گھر پر ہی ہوتا ہے شروع کے دن تو اس نے TV کے آگے بیٹھ کر گزارے ادھر ادھر کی فلمیں دیکھتا رہتا تھا اسے دیکھ کر بچے بھی TV دیکھنا شروع ہو گئے تھے میں تو پریشان ہو گئی ’’یک نہ شد دو شد‘‘ میں مسلسل کہتی رہتی تھی کہ ان لہو ولہب چھچھورے پروگرامز کے علاوہ مثبت چیزیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں خدا کا شکر اب اسے نیٹ پر کچھ ’’اسلامی معلومات‘‘ اور تاریخ اسلام سے متعلق کچھ ’’سائیڈز‘‘ مل گئی ہیں اب آہستہ آہستہ میں دیکھ رہی ہوں کہ نماز بھی پڑھنے لگے ہیں۔ جبکہ پہلے روزہ تو پھر بھی رکھ لیتے تھے لیکن ’’نماز‘‘ سے بالکل غافل، شکر اس بندے کو بھی کورونا نے سدھارا۔
٭…٭
عشرت جیسی صورت حال کئی خواتین کے ساتھ بھی پیش آئی ہے مثلاً کچھ خواتین نے کہا کہ ہم ماہ رمضان میں خوب شاپنگ سینٹر کے چکر لگاتے تھے عید کی خریداری تو بہانہ ہوتا تھا ’’انجوائے‘‘ کرنے کے لیے شاپنک سینٹرز کے چکر ضرور لگتے پھر خریداری، رات گئے تک باہر رہنے کی وجہ سے ڈنر ہوٹل میں کرتے، اب یہ سب ختم ہو گیا ہے ویسے بھی سب سے بڑی جگہ بازاروں کو اور سب سے اچھی جگہ مساجد کو کہا گیا ہے لہٰذا بازاروں کے چکر لگانے سے پرہیز کرنی چاہیے۔
یکسر صورت حال میں تبدیلی آگئی ہے عبادتوں کے لیے بھی وقت مل گیا ہے کچھ ’’خوفِ خدا‘‘ بھی غالب ہے۔
٭…٭
اکثر گھرانوں میں ایک اور مثبت تبدیلی جو نظر آئی ہے اس کا ذکر بھی کرنا ضروری ہے وہ ہے گھروں میں باجماعت نماز کا سلسلہ اور اجتماعی دعائوں کا سلسلہ، سبحان اللہ جسے ختم نہیں ہونا چاہیے، میرے اکثر عزیز و اقارب نے یہ بات بڑی خوشی سے مجھ سے شیئر کی بلکہ ایک دوسرے سے سن کر کچھ اور لوگوں کے یہاں بھی یہ سلسلہ شروع ہو گیا (ماشاء اللہ)۔
٭…٭
میں اپنے پچھلے ایک کالم میں بھی یہ بات کہہ چکی ہوں کہ جس کو نہیں ’’سدھرنا‘‘ وہ کچھ بھی ہو جائے نہیں سدھریں گے انہیں اللہ ہی ہدایت سے نوازے گا ابھی بھی معاشرتی برائیاں ہم اسی طرح چاروں طرف دیکھ رہیں ہیں مگر سب کچھ ’’برا ہی برا‘‘ نہیں ہے۔ کچھ اچھا اور بہتر بھی ہوا ہے اس کی تعریف نہ کرنا لفظوں کی کنجوسی ہو گی۔
٭…٭
اکثر مرد حضرات کو اس وبا نے اپنا زیادہ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے کا موقع فراہم کیا ہے بچوں کو اپنے والدوں (باپوں) کی صحبت میسر آئی ہے اس موقع سے مرد حضرات کو بھر پور فائدہ لینا چاہیے اور ان قیمتی لمحوں اور گھڑیوں میں بچوں کی مثبت تعلیم و تربیت کے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے۔
افسوس سے کہوں گی کہ آج کے نفسا نفسی اور مصروف دور نے ماضی کی اس خوبصورت روایت کو بھلا دیا ہے جہاں باپ و دادا بچوں کو وقت دیتے اور انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرتے تھے ہم ان خوش نصیب اولادوں میں سے ہیں جن کے باپوں نے اپنی مصروف زندگیوں میں سے اپنی اولاد کے لیے ان کی تعلیم و تربیت و تفریحی کے لیے وقت نکالا میں آج بھی بڑے فخر سے کہتی ہوں کہ میرے والد نے ہمیں اسلامی تاریخ و تعلیم میں رہنمائی فرمائی۔
٭…٭
آج میں اکثر زوجین کو ایک دوسرے سے نالاں دیکھتی ہوں کہ ہمیں ’’وقت‘‘ نہیں دیا جاتا، میرے خیال میں آج اکثر خواتین کی یہ شکایت بھی ختم ہو گئی ہو گی بلکہ معذرت کے ساتھ کچھ خواتین نے شکوہ بھی کیا کہ ’’گھر میں بچوں کے ساتھ ایک اور بچے کا ’’اضافہ‘‘ ہو گیا ہے جس کا سنبھالنا بہت مشکل ہے‘‘ خیر یہ تو ایک مذاق کی بات تھی۔
٭…٭
مثبت تبدیلیوں کی بات کریں تو کچھ اور چیزیں بھی سامنے آتیں ہیں زندگی کی زائد سرگرمیاں جن کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے مشلاً سیرو تفریح، شاپنگ، ہوٹلنگ دعوتیں وغیرہ ان کے رکنے سے نہ صرف وقت کی بچت ہوئی ہے بلکہ ’’پیسے کی بھی‘‘۔
کچھ صاحب حیثیت لوگوں کی بات سن کر خوشی ہوئی کہ اس کڑوے وقت میں انہیں مزدور اور غرباء کی تنگ دستی کا احساس ہوا ہے کہ ان کا روزگار ختم ہو گیا ہے اس لیے انہوں نے ان کی مالی مدد کا بھر پور طریقے سے ساتھ دیا ہے (الحمدللہ‘‘ یہ ان غرباء پر احسان نہیں کررہے ہیں بلکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے ان کا حصہ ان میں سمجھ کر ان صاحب حیثیت لوگوں کے سپرد کیا ہے۔ جس کا بھرپور احساس آج اس کڑے آزمائشی وقت میں اجاگ ہوا ہے لہٰذا ان کا حصہ ان تک فراغ دلی سے پہنچایا جا رہا ہے جو ایک مثبت پہلو ہے یہ سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔ کسی کا احساس کرنا ہی انسانیت کی نشانی ہے۔ دین اسلام نے معاشرتی تعلقات اور نظام کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے احساس اور نیک جذبات پیدا کرنے پر زور دیا ہے لہٰذا اس کڑے آزمائشی وقت نے انسانوں میں اس پہلو کو بھی تقویت دی ہے اگر انسانوں کے لیے یہ مثبت سوچ و عمل ہمیشہ قائم رہے تو ان شاء اللہ ہمارا معاشرہ اسلامی بن سکتا ہے احساس کی بات ہو رہی ہے تو ’’اس‘‘ احساس کا ذکر نا کرنا ناانصافی ہو گا جی ہاں گھر بیٹھے بہت سے شوہروں کو یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ ان کی بیویاں جنہیں وہ اکثر کہتے ہیں کہ ’’گھر بیٹھے کرتی کیا ہو؟‘‘ بہت کچھ کرتیں ہیں گھر، بچوں کا خیال ماسی کے نہ آنے سے ان کی وہ ذمہ داریاں بھی نبھائی جارہی ہیں جو ماسیاں عموماً کرتیں ہیں غرض کہ اس لاک ڈائون سے لوگوں کے ایک دوسرے کے قریب کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ کچھ حلقوں میں ایک دوسرے کا احساس بھی پیدا کیا گیا ہے۔ جو کہ اچھی اور حوصلہ افزاء بات ہے۔ آخر میں ایک اور بات ضرور کہوں گی کہ بس جزوی لاک ڈائون سے فضا میں آلودگی میں کمی کا باعث بنا ہے لیکن یہ صورت حال ہر جگہ نظر نہیں آئی ہے بلکہ مخصوص تفریح مقامات وغیرہ میں دیکھی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اندر آئی یہ مثبت سوچ و احساسیت کا جذبہ مستقل ہمارے اندر موجود رہے گا یا نہیں؟
کچھ داھیاں پیچھے چلیں جائیں تو خاندانوں میں مذکورہ بالا خصوصیات موجود تھیں آج ہم نے بیرونی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر اپنی خاندانی روایات سے منہ موڑ لیا ہے جس کا احساس ہماری صفوں میں موجود حساس لوگوں کو زیادہ ہو رہا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں اس وبا (آزمائش) کے ذریعے جھنجھوڑا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں روحانی جسمانی اور ذہنی طور پر… ان شاء اللہ

حصہ