روداد ادبی نشست علم و ادب سوسائٹی لکھاریوں کی کہکشاں کی داستان

440

آمنہ صدیقی، ہادیہ شاہ
’’ارے اندر تو چلو، پھر دیکھتے ہیں…‘‘
’’نہیں بھئی! ایسے کیسے چلے جائیں!‘‘
’’تم چل رہی ہو یا دھکا دوں؟‘‘
’’اچھا اچھا… چل رہی ہوں، مائیک تو اٹھانے دو۔‘‘
’’اب مائیک کا کیا کروگی؟‘‘
’’بھئی، تبصرے جو کرنے ہیں۔‘‘
’’میرے ساتھ رہ کر تم بھی سمجھ دار ہوتی جارہی ہو۔‘‘
اور اسی طرح ہنستے ہنساتے آمنہ صدیقی داخل ہوئیں علم و ادب سوسائٹی میں۔
’’کیا کہا…؟‘‘
’’ارے آپ کو یہی نہیں پتا کہ علم و ادب سوسائٹی کیا ہے؟‘‘
’’نہیں، رک جائیں!!‘‘
’’ہر بار اس پھپھو گوگل کو بیچ میں مت لایا کریں۔
میں ہوں ناں آپ کو تفصیل سے سمجھانے کے لیے، ویسے بھی گوگل محض اس نشست کا احوال بتا سکتا ہے، اس میں شامل افراد کے احساسات کا نہیں۔‘‘
تو ناظرین یہ ہے آپ کا اپنا چینل ’’ہمارے لکھاری‘‘… اور اس وقت ہم آپ کو سب سے پہلے اور بروقت ’’علم و ادب سوسائٹی‘‘ کے بارے میں مطلع کررہے ہیں۔
وہیں رک جائیں!!
یہ کوئی ایسا ہوٹل نہیں جہاں مینڈک کے کباب بن رہے ہوں، نہ ہی کوئی ایسا ٹھیلہ کہ جس پر ٹڈا بریانی بک رہی ہو۔ یہ ہے ملک کے چپے چپے، کونے کونے، شہر شہر، گاؤں گاؤں، دھوپ چھاؤں، پہاڑوں، ریگ زاروں میں بسنے والی لکھاریوں کا ٹھکانہ۔
یہاں آپ پڑھیں گے آلو میاں کے فضائل سے لے کر زکوٰۃ کے مسائل تک… ادھر آپ کو کوئی کورونا سے ڈراتا دھمکاتا اور کوئی سمجھاتا بجھاتا نظر آئے گا، کوئی آپ کو کشمیر کے لیے آواز بلند کرتا نظر آئے گا، تو کوئی سقوطِ ڈھاکا پر اشک بہاتا نظر آئے گا۔ بیچ میں ایک آدھ ملنگ اپنی امی کی سختیوں سے تنگ آیا، اپنی معصومانہ دکھ درد بھری داستان سناتا بھی نظر آئے گا۔
’’دریا کو کوزے میں بند کرنا‘‘ کے مصداق یہاں آپ کو پڑھنے کو ملیں گے افسانے، کہانیاں، مضامین، بلاگز اور بہت کچھ۔
کیوں جناب! اب سب میں ہی بتاؤں کیا؟ کبھی آئیے گا آپ بھی ہماری کہکشاں میں۔ اچھا مجھے دیر ہورہی ہے، میں جارہی ہوں، مجھے جائے وقوع پر نمائندہ جو لائیو لینا ہے۔
السلام علیکم!
’’ہمارے لکھاری نیوز‘‘ کے ساتھ میں ہوں ہادیہ شاہ…
اس وقت ہماری نمائندہ آمنہ صدیقی جائے وقوع پر پہنچ چکی ہیں…آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں دردِ دل رکھنے والے افراد کا جم غفیر ہے، لوگ اپنی تحریریں بھی بھیج رہے ہیں، لیکن آج کچھ ہلچل نظر آرہی ہے۔
جی آمنہ! آپ بتائیں گی کہ معاملہ ہے کیا؟
جی ہادیہ! سب سے پہلے ہمارا چینل یہ خبر براہِ راست علم و ادب سوسائٹی سے پہنچا رہا ہے۔
دس بج گئے ہیں… ادبی نشست کا آغاز ہوچکا ہے… نگران شفا ہما باجی اپنی تحریر سمیت حاضری دے چکی ہیں۔
ان کا برف پوش پہاڑ اور مصور کا گرم کمرے کا ذکر مجبور کررہا ہے کہ ہاتھ میں کافی کا کپ تھام لیا جائے۔ مگر باہر چلتی لُو خبردار کردینے کو کافی ہے۔ میں کیا، تمام قارئین اس گلستان کے حسن پہ دل ہار بیٹھیں گے جس میں فقط دو ہی گلاب… اب تو دل چاہ رہا ہے کہ کافی نہ صحیح چائے ہی کا مزا لوٹ لیا جائے۔
مصنفہ کا اندازِ بیاں اتنا دل چسپ ہے کہ میرے ہاتھ میں موجود پھیکی چائے بھی اچھی لگنے لگی ہے۔
اور ہادیہ میں آپ کو بتاتی چلوں کہ نہایت عمدہ تحریریں اس نشست کی زینت بن رہی ہیں۔
یہ عمیمہ ساجد نے کیا کمال انٹری دی ہے۔
اپنے قلم کو غریب طلبہ کی آواز بناکر حکومت سے تعلیمی پالیسی بہتر کرنے کی اپیل کررہی ہیں تاکہ طلبہ پڑھ سکیں اور آگے بڑھ کر قوم کے تابناک مستقبل کے لیے کوشش کرسکیں۔
جی تو ناظرین! آمنہ صاحبہ ہمیں بتا رہی ہیں اور ہم لائیو موجود ہیں۔
آمنہ بہن! کیا عوام کی تحاریر دِکھ رہی ہیں آپ کو؟ بتائیں ہمیں کہ کیا حالات ہیں؟
جی ہادیہ! ہم بتاتے چلیں کہ یہ سیدہ ابیحہ مریم بھی میدان میں قدم رکھ چکی ہیں…
ان کا ایک ننھا کردار معصومیت سے کہتا ہے:
’’اللہ میاں ڈالتے ہوں گے اتنا سارا پانی دریا میں۔‘‘
اس جملے نے تو دل ہی جیت لیا ہے۔ بچے جہاں معصوم اور سچے ہوتے ہیں، وہیں ان کا ایمان بھی بہت پختہ ہوتا ہے۔ اور اس کردار نگاری کا سارا کریڈٹ مصنفہ کو ہی جاتا ہے۔
بہت اچھی کوشش کی ہے۔ ابھی ہم مزید تحریروں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور وقت کے موضوع پر ایک عمدہ تحریر ہماری راہ میں آکھڑی ہوئی ہے۔ ہائے اللہ! اتنے سارے کام بتا دیے محترمہ ردا فاطمہ نے۔ وہ ہمیں سکھا رہی ہیں کہ وقت ضائع کرنے سے کیسے بچا جاتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے آپ کی باتوں پر عمل کرنے کی۔ (چلتے چلتے مزید آگے آجاتی ہیں)
اوہ! ہادیہ یہاں جگہ جگہ تحریریں رکھی نظر آرہی ہیں۔ ابھی ابھی میں اپنی ہی ایک تحریر سے ٹکرائی ہوں۔
یہاں میں آپ کو اپنی دوست کا تبصرہ زبانی سناتی ہوں۔ (بھلا اپنی تعریف کون کرتا ہے! امی کہتی ہیں جو ایسا کرتا ہے وہ بے وقوف ہوتا ہے۔)
وہ کہتی ہیں کہ نہایت ہی کمال کی منظر نگاری کی گئی ہے۔کاش کہ ہم بھی پرندوں کی طرح خدا پر توکل والی زندگی گزارتے تو کیا خوب ہوتا…‘‘
اچھا آمنہ! سننے میں آیا ہے کہ سنجیدہ تحاریر کی بھرمار ہے۔
کیا طنزو مزاح پر مبنی تحاریر واقعی نہیں ہیں یا یہ کوئی افواہ ہے؟
ارے ہادیہ! ہمارے ناظرین سے کہیں کہ پریشان نہ ہوں، کیونکہ آپ کی تفریح کا سامان کرنے کے لیے آلو میاں نے اس محفل کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
آلو میاں یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے۔
چھوڑ دیں گے چکن کا ساتھ، پر آپ کا نہیں چھوڑیں گے۔ (شاعر سے معذرت)
شہربانو صاحبہ کی اس تحریر نے محفل کو زعفران زار بنا دیا ہے… ارے ماہین خان بھی میدان میں آگئیں۔
مزاح کی چادر میں لپیٹ کر مزاح کا جو چہرہ انہوں نے دکھایا ہے قوم کو وہ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
جی ناظرین آپ دیکھ سکتے ہیں آمنہ ہمیں لائیو بتا رہی ہیں کہ کیا صورت حال ہے۔
ارے آمنہ! یک دم اندھیرا کیوں ہوگیا؟ ماحول میں افسردگی سی چھا گئی؟ وہاں سب خیریت تو ہے ناں…!کیا وجہ ہے اس کی؟
جی ہادیہ! یک دم چہار جانب اندھیرے نے قبضہ جمالیا ہے۔
باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ پر ایک تحریر محفل کا حصہ بنی ہے۔
دل تو یہ چاہ رہا ہے کہ مصنفہ اختتام میں یہ لکھ دیں کہ ’’دشمن کی سازش ناکام ہوئی اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک ہی جسم ہیں، کوئی ان کو جدا نہیں کرسکتا۔‘‘
بس قارئین سے یہی عہد لینے کو میڈم جانیتا کہتی ہیں کہ
یہ انتظارِ سحر کہاں تک،
بناؤ خود اپنے چاند سورج‘
کہ اپنی صبح آپ ہی پیدا کرنی ہوتی ہے
ناظرین یہاں حالات سنگین ہورہے ہیں… لوگ اپنی تحریروں سمیت چلے آرہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ میں تحریروں کے اس سیلاب میں بہہ جاؤں، لیکن اپنے فرض پر سمجھوتا نہیں کرسکتی۔ یہاں ہمیشہ کی طرح قلم سے کمال دکھانے والی عروبہ امتیاز خان، امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والی نتاشا عبدالستار، دل چسپ انداز رکھنے والی انیقہ وسیم، مثبت سوچ کو پھیلانے والی ایمان فاطمہ، قلم کے ذریعے نیکی پھیلانے والی پیاری اور معصوم سی ننھی لکھاری رملہ کامران، معلومات سے بھرپور مضمون کی خالق رابعہ قریشی، ہماری بلاگر ناعمہ قاضی، سائرہ صابر، اریبہ سموں، ماہین خان، حمیرا عنایت اور بہت سے لکھاری اپنے قلم کے جلوے بکھیر رہے ہیں، لیکن…ٹوں، ٹوں، ٹوں…
ناظرین آمنہ سے ہمارا رابطہ تیکنیکی خرابی کے سبب منقطع ہوگیا ہے، لیکن ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اب سے کچھ دیر پہلے ہم لائیو ادبی نشست کا حال احوال جان رہے تھے۔ یہ خبر آپ تک سب سے پہلے ہم نے پہنچائی۔ جی ہاں ہر بار کی طرح چینل ’’ہمارے لکھاری… ایک بار پھر سب پہ بھاری!‘‘
ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔

حصہ