پہاڑوں کے بیٹے

495

ایم ایمان
(قسط نمبر13)
شیردل کی تربیت کی ابھی ابتدا تھی، تربیت مکمل کرکے ابتدا میں چھوٹی موٹی کارروائیوں کے لیے تجربہ کار مجاہدین کے ساتھ نئے مجاہدین کو بھی بھیجا جاتا ہے، لیکن کچھ ہی دنوں بعد انہیں بتدریج مزید ذمہ داریاں بھی دی جاتی ہیں۔
شیر دل نے کمانڈر صاحب سے جمال اور کمال کے مشن اور اس کے طریقِ کار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس سلسلے میں رازداری اور احتیاط کے تقاضوں کے پیش نظر شیردل کو زیادہ معلومات فراہم کرنے سے معذرت کرلی گئی۔
…٭…
زبیر نے حیرت سے اس افغان افسر کو دیکھا جس نے ابھی ابھی اس کے باپ کا نام لیا تھا۔ زبیر کی نظریں اس کے چہرے سے پھسلتی ہوئی اس کے کندھے پر لگے نام کے بیج پر پڑیں۔ نیلے رنگ کے پس منظر میں ’’فیروز خان‘‘ الفاظ جگمگا رہے تھے۔
’’فیروزے خان…‘‘
فکر نے اُڑان بھری اور خیالوں نے برسوں کا سفر لمحوں میں طے کرلیا۔ زبیر کو پشاور کے قریب گائوں خیرآباد کا بوڑھا بابا یاد آیا جس نے اسے بتایا تھا کہ اس کے بھائی کا نام فیروز تھا جس کو اس کے گھر پر حملہ کرنے والے اپنے ساتھ پکڑ کر لے گئے تھے اور بعد میں افغانستان میں منشیات فروشوںکو بیچ دیا تھا۔
تو کیا یہ ’’فیروے خان‘‘ اس کا وہی بھائی ہے؟ دماغ میں خیال آتے ہی وہ بے اختیار کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ فیروزے بھی اپنی سیٹ سے اٹھ چکا تھا۔ الفاظ ساتھ چھوڑ چکے تھے، بس جذبات کے دریا تھے جو آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کے سینے سے لگے برسوں کی جدائی کی پیاس بجھا رہے تھے۔کچھ دیر بعد فیروزے نے چونک کر زبیر کو اپنے سے علیحدہ کیا اور کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’ہم ایک دوسرے سے بے تکلفی سے گفتگو یہاں نہیں کرسکتے، کئی آنکھیں ہم پر نگراں ہوسکتی ہیں۔ زبیر یوں کرو کہ کل تم کو جب انویسٹی گیشن کے لیے آفس میں بلایا جائے گا تو دوپہر کے وقفے کے دوران ہم ساتھ کھانا کھائیں گے۔‘‘
زبیر نے سر ہلایا۔
فیروزے نے گھنٹی بجائی اور سپاہی کو زبیر کو لے جانے کا اشارہ کیا۔ آج زبیر کو ایک دوسرے کمرے میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں بہت سی سہولتوں کے ساتھ ساتھ تنہائی بھی تھی۔
دوپہر کو کھانا کھا کر وہ نرم اور آرام دہ بستر پر دراز ہوگیا۔ ذہن سوچوں کے تانے بانے بُننے میں مصروف تھا۔ وہ بھائی جو اس کا ماں جایا تھا اور جس کی تلاش میں اس نے نوعمری میں بڑی ٹھوکریں کھائی تھیں، آج ملا بھی تھا تو کس حال میں کہ ’’اپنا‘‘ کہنا اور سمجھنا بھی آزمائش بن گیا۔
’’یااللہ! یہ کیسا امتحان ہے… دشمنوں کی صف میں اپنا بھائی، اپنا خون… میں کیا کروں؟‘‘
’’یہ کوئی انہونی تو نہیں…‘‘ زبیر کے اندر سے جیسے کسی نے جواب دیا۔
شمشیریں آپس میں ٹکرا رہی ہیں، جنگ و جدل کا میدان گرم ہے۔ ایک طرف جاں نثارِ رسول ابوبکرؓ باپ کی صورت میں موجود ہیں تو دوسری طرف بیٹا قریش کا ساتھ دے رہا ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد بیٹا باپ سے کہتا ہے کہ ’’ابا جان! کئی بار ایسا ہوا کہ آپؓ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے راہ بدل لی۔‘‘
جاں نثارِ رسول صدیق اکبرؓ کہتے ہیں کہ ’’بیٹا اگر تُو میری تلوار کی زد میں آجاتا تو ہرگز بچ نہ پاتا۔‘‘
برسوں پہلے سنے درس کے الفاظ ذہن میں گونجنے لگے۔
یہ صحیح ہے کہ وہ تیرا بھائی، تیرا ماں جایا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ برسوں کی جدائی کے بعد اس سے ملاقات ہوئی ہے اور شاید ہوش سنبھالنے کے بعد یہ پہلا خون کا رشتہ ہے جس کو تُو نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خون کے رشتے سے زیادہ پکا رشتہ کلمے کا ہوتا ہے۔ تُو جس راہ کا راہی ہے وہاں آنے والے تو اپنے محبوب، محبت کرنے والے قریبی رشتے داروں کو چھوڑ کر آتے ہیں۔ پھر اس سے تو تُو کبھی ملا ہی نہیں تھا، لہٰذا دیکھنا کہیں خون کی محبت کو کلمے کی محبت پر غالب نہ آنے دینا۔
سوچتے سوچتے نہ جانے وہ کس وقت نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ کچھ عورتیں ہیں اور کچھ مرد، جو دور کہیں بلندی پر موجود ہیں۔ ان کے نہ تو چہرے واضح نظر آرہے ہیں اور نہ ہی ان کی باتیں واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہیں، ہاں ایک بات ضرور بار بار سنائی دیتی ہے ’’بیٹا! ہم تمہارے منتظر ہیں… بھائی ہم تمہارے منتظر ہیں…‘‘ آنکھ کھلی تو گھپ اندھیرا تھا۔ اس کی پیشانی اور چہرہ پسینے میں شرابور تھا۔ ایک لمحے کو تو وہ سمجھ ہی نہ پایا کہ وہ کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے!
اس نے آستین سے پیشانی پر بہتا پسینہ پونچھا اور سوچنے کی کوشش کی کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔ چند سیکنڈ بعد اس کو یاد آگیا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے، اور جب اس کی آنکھ لگی تھی توروشنی تھی، لہٰذا اس نے نہ لائٹ جلائی تھی اور نہ لیمپ جلایا تھا۔ اب کیوں کہ رات ہوگئی ہے لہٰذا اندھیرا چھا گیا ہے اور اس لیے کمرے میں گھپ اندھیرا ہورہا ہے۔
اس نے پلنگ سے پائوں نیچے اتارے اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا سوئچ بورڈ کی طرف آیا۔ بٹن دبایا تو سارے کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ اس نے ایک گہری سانس لی، دامن سے دوبارہ پسینہ پونچھا اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے خواب اور اس میں سنی ہوئی آوازوں پر غور کرنے لگا۔ وہ لوگ شاید میرے والدین اور بہن بھائی تھے جنہیں ڈاکوئوں نے شہید کردیا تھا اور وہ اب میرا انتظار کررہے تھے۔
’’شہادت…‘‘ زبیر کے منہ سے نکلا۔ اس کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سینے پر رکھا ہوا بھاری پتھر کسی نے ہٹادیا ہے۔ دیوار پر لگی گھڑی کی طرف اس کی نظر گئی۔ رات کے تین بج رہے تھے، یعنی رات کا آخری پہر شروع ہونے کو ہے۔ رات کے آخری پہر ربِ کائنات آخری آسمان پر جلوہ فرما ہوتے ہیں اور اپنے بندوں کی دعائیں سنتے اور قبول کرتے ہیں۔ کسی مدرس کے درس کا کوئی ٹکڑا جیسے اس کے حافظے میں جگمگایا۔
اس نے کھڑے ہوکر اپنی آستین اوپر کی اور وضو کے لیے غسل خانے کا رُخ کیا۔ اس رات تہجد کی نماز اور دعا کا جو لطف اسے محسوس ہوا اس نے جیسے اس کے روئیں روئیں کو ایمان کی حلاوت اور ذائقے سے روشناس کردیا۔ اس نے اپنے رب سے سجدے میں جاکر یہی دعا کی کہ ’’یارب! مجھے ثابت قدم رکھیے گا، میری زبان سے ایسی کوئی بات دشمنوں کو معلوم نہ ہو پائے کہ جس سے مجاہدوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔‘‘
دوسرے دن دوپہر کا کھانا اس نے فیروزے خان کے ساتھ کھایا۔ فیروزے اسے قریب ہی کسی درمیانے درجے کے ہوٹل میں لے آیا، جہاں دونوں کو کھانے سے زیادہ ایک دوسرے کی کہانی سننے کا اشتیاق تھا۔ فیروزے نے بتایا کہ اس کو بیگار میں لینے والوں نے افغانستان میں ایک بے اولاد جوڑے کو بیچ دیا جنہوں نے اسے محبت کے ساتھ اپنے بیٹے کی طرح پالا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے افغان فوج میں ملازمت مل گئی۔ بچپن کی باتیں اسے یاد آتی تھیں لیکن وہ سمجھتا تھا کہ اس کے خاندان کے سارے لوگوںکو ڈاکوئوں نے مار دیا تھا، لہٰذا اس کے دل میں نہ تو گائوں جانے کی خواہش پیدا ہوئی اور نہ اس کے لیے اُس نے کوئی کوشش کی، بلکہ وہ تو سب کچھ بھول چکا تھا۔ لیکن زبیر کی فائل کے مطالعے سے اس کو ساری بھولی ہوئی باتیں یاد آگئیں جنہیں اس نے اپنے شعور کے کسی تاریک گوشے میں مقفل کردیا تھا۔
زبیر نے بھی اپنی ساری داستان فیروزے کو سنائی۔ دونوں قدرت کی ستم ظریفی پر حیران تھے۔ دو بھائی برسوں بعد دشمنوں کے روپ میں ملے تھے۔
’’پھر تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘ فیروزے نے زبیر سے دریافت کیا۔
زبیر نے فیروز کے چہرے کو غور سے دیکھا، بھائی کی شفقت اور محبت کی جھلک آنکھوں سے عیاں تھی، لیکن کیا میں اس پر اعتبار کرسکتا ہوں؟ زبیر نے دل میں سوچا۔ اعتبار نہیں تو آزمانا تو چاہیے، دیکھیں یہ کیا کہتا ہے۔
’’بھائی! میں مجاہد ہوں، دینِ اسلام کے لیے میری جان اور میرے جسم کا ایک ایک قطرہ بہہ جانے اور نثار ہو جانے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ میرے بھائی! تم بھی تو مسلمان ہو، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہو، کیا تم ان ملحدوں کا ساتھ دو گے؟ آئو میرے بھائی! ہم دونوں مل کر شجاعت کی ایک نئی داستان رقم کریں۔‘‘
فیروزے زبیر کی بات سن کر چونک گیا، اس نے گردن گھما کر اردگرد دیکھا، سب لوگ اپنی باتوں میں مصروف تھے، ہوٹل کی ہر میز بھری ہوئی تھی اور لوگوں کی باتوں اور برتنوں کے شور میں ان کی باتیں سن لینا مشکل تھا، لیکن اس کے باوجود فیروزے نے دھیمی آواز میں کہا ’’زبیر! ذرا احتیاط سے کام لو، اگرچہ روسیوں کا ظلم و جبر مجھے بھی ناپسند ہے اور میں اپنے ہم وطنوں پر ہونے والے مظالم کا بوجھ اپنے سینے پر محسوس کرتا ہوں، لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جہاں ان کو کسی پر غداری کا شک ہوجاتا ہے، اس کا یہ کیا انجام کرتے ہیں؟‘‘
’’ٹھیک ہے بھائی! ہم بظاہر ان کے ساتھ ہوںگے لیکن درپردہ کوشش کریں گے کہ انویسٹی گیشن سینٹر میں قید تمام مجاہدین کو چھڑائیں اور انہیں فرار ہونے میں مدد دیں۔‘‘ زبیر نے آہستہ لفظوں میں آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں وضاحت کی۔ وہ بہت خوش تھا۔ فیروزے خان اس کی توقع سے زیادہ سمجھ دار نکلا تھا۔کھانا کھا کر جب وہ لوگ واپس دفتر جا رہے تھے تو زبیر کی نظر ان دو مجاہدوں پر پڑی جو پھٹے ہوئے خون آلود کپڑوں میں تھے، کمزوری اور نقاہت سے ان کا چلنا دشوار ہورہا تھا۔ زبیر ایک لمحے کو سن ہوگیا۔ یہ جمال اور کمال تھے، اس کے بیٹے، اس کے لختِ جگر جنہیں روسی اور افغان فوجیوں کا ایک دستہ کھینچتا گھسیٹتا بلڈنگ نمبر 99 کی طرف جا رہا تھا۔
…٭…
پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 1979ء سے پہلے سے تھا، لیکن 1979ء کے بعد ان کی آمد میں انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا، یہاں تک کہ 1981ء میں افغانوں نے سیلاب کی طرح پاکستان کا رخ کیا کہ آنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ ہوگئی۔
1979ء سے 1989ء کے درمیان مہاجرین کی کُل تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کرگئی، ان میں سے سات لاکھ عورتیں اور بارہ لاکھ بچے تھے، اور مردوں کا نصف سے زیادہ حصہ ضعیف اور معذور افراد پر مشتمل تھا۔ اس قدر بڑی تعداد میں مہاجرین کو سنبھالنے کے لیے پاکستان کے بہت سے شہروں میں کیمپ لگائے گئے تھے، جن میں کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، ایبٹ آباد اور مختلف آزاد قبائلی علاقوں کی ایجنسیاں شامل تھیں۔ شیردل اور زبیر کے خاندان نے جس مہاجر کیمپ میں رہائش اختیار کی تھی وہ پشاور میں قائم تھا۔
پشاور کی یہ خیمہ بستی خاصی بڑی تھی، کبھی زینب باہر نکل کر دیکھتی تو دور دور تک خیمے ہی خیمے نظر آتے۔ یہاں دینی تنظیموں کے رضا کاروں نے دو مدارس بھی کھولے ہوئے تھے اور اسپتال بھی۔ چھوٹے موٹے کلینک تو کئی ایک تھے۔ لیکن وہاں رش لگا رہتا تھا۔ آبادی بھی تو اس قدر تھی۔ پھر خیمے موسم کی سردی و گرمی کو روکنے پر پوری طرح کہاں قادر ہوتے تھے! سردی میں سخت سردی اور گرمی میں تنور کی طرح دہکتے تھے۔ وبا کی صورت میں بیماریاں پھیلتی تھیں۔ پانی کی نکاسی کا انتظام بھی اتنا تسلی بخش نہ تھا۔ بس وقت تھا جو لوگ گزار رہے تھے۔ اکثر خاندانوں کے جوان مرد جہاد کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اگر کسی خاندان کا کوئی جوان موجود بھی تھا تو اس لیے کہ وہ جسمانی معذوری کے باعث جہاد کے قابل نہ رہا تھا پھر بھی دل کی تڑپ کے ہاتھوں بے چین ہی رہتا تھا۔
(جاری ہے)

حصہ