عادتیں یا اثرات

205

ساحر مرزا
وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہنے لگی ’’کیا آپ جانتے ہیں لوگ شراب، چرس، نسوار، سگریٹ اور اس طرح کی دوسری منشیات کے زیادہ عادی نہیں ہوتے۔ زیادہ عادی وہ پتا ہے‘‘۔ اس نے نظریں اُٹھا کر میری جانب سوالیہ انداز سے دیکھا۔
’’جی …جی ! آپ ہی کہیے‘‘۔ میں ان نگاہوں کی تپش سے گھبرا کر بولا۔
’’لوگ نشے سے زیادہ حقیقت سے فرار ہونے کے عادی ہوتے ہیں‘‘۔ اس نے اپنی ہی بات کا جواب دیا اور استغراق کے سے عالم میں دُور اُفق پر نظریں جمائے بت بنی رہی۔
میں نے اس کے معصوم چہرے پر اس کی زلفوں کو اٹکھیلیاں کرتے دیکھا… مجھے اس کی سوچ کو سطحی ہی رہنے دینا چاہیے تھا۔ چند دنوں کی رفاقت نے ہی اسے موجودہ جہاں سے اُٹھا کر فکر انگیز جہاں میں لا پھینکا تھا۔ میں نے اس پر ظلم کیا تھا، مجھے اسے وہ کتب پڑھنے ہی نہیں دینی چاہیے تھیں۔ اسے ان تجربات کا حصہ نہیں بننے دینا چاہیے تھا، جو اس کی معصومیت کو خوف اور عدم تحفظ کے احساس سے گہنا دیں۔ لیکن شاید یہ میری بے وقوفی تھی کہ میں چاہتا تھا وہ ایک مکمل، مضبوط، خوددار و خودمختار اور ذمے دار لڑکی بنے، جو کسی سے نہ ڈرے، کسی کے رعب و دبدبے میں نہ آئے، اپنے حقوق و فرائض اور اپنے مقام و منصب سے واقف ہو۔ میں اسے اپنی دوراندیشی مانتا ہوں… لیکن…
’’آپ نے غور کیا، انسان عقل کا کس قدر اندھا ہے…!‘‘ اس کی آواز نے پھر میرے تخیل کے دھارے کو تحلیل کردیا اور میں پھر سے اُس کی آواز پر متوجہ ہوا۔
’’آپ اس موضوع پر کیا کہیں گے؟‘‘ اُس نے اس سوال کا بار میرے کندھوں پر پھینکا۔
میرے ذہن میں پلوٹو کا فلسفہ ’’غار سے منسوب کہانی‘‘ گونجنے لگا… ’’ہاں آپ نے بالکل صحیح کہا‘‘۔ میرا ذہن ’’اس‘‘ کے تخیل کے اُلجھے تانے بانے بُننے لگا۔
’’لیکن کیا آپ کو معلوم ہے، جب ہم حقیقتوں کا سامنا کرتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ میں ان کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ اور تو اور … ہمیں کبھی برداشت، تحمل اور بردباری کا سبق دیا ہی نہیں جاتا، کیونکہ اس سبق کے لیے استاد میں یہ صلاحیت ہونا لازم ہے … اور یہاں اساتذہ ہیں کہ … الامان و الحفیظ۔
ہمیں حقائق کو سمجھنے، قبول کرنے اور قسمت و تقدیر پر ایمان لانا سکھایا ہی نہیں جاتا، ہمارے دل و دماغ تو کہیں دور کی کوڑی ہیں۔ ہمارا جسم تربیت جیسے اہم مرحلے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اور پتا ہے زیادہ اذیت ناک بات کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں نے اس کی جانب متوجہ ہو کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
اس کی آنکھوں میں استعجاب اور حیرت کے ساتھ اُلجھن کی پرچھائیاں گہری ہوتی چلی گئیں۔
’’سب سے اذیت ناک اور کرب ناک لمحات وہ ہوتے ہیں جب (میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا) ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ عادت نہیں، یہ تو اثرات تھے جو ہمیں بچپن سے متاثر کررہے تھے۔ ہمیں تو جذبات و احساسات کے وصف سے دور کرکے فقط سانسیں لیتی مادیت زدہ لاشیں بنا دیا گیا ہے۔‘‘
میں نے اپنی بات مکمل کی اور اس بے جان وجود کی زندگی کی چمک سے محروم بے نور آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں بند کرکے اُٹھ کر زندگی کی سانسوں کی راہ پر مقرر وقت تک کے سفر کے لیے قدم بڑھانے لگا ۔

حصہ