بزرگ اور انٹرنیٹ

268

خولہ بنتِ سلمان
گھر کی بیل بجی، نسرین دروازہ کھولنے گئیں تو دروازے پر اپنی بھانجی پروین کو کھڑے پایا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے گلے لگنا چاہا لیکن فوراً ہی پیچھے ہٹ گئیں کہ ’’فاصلہ‘‘ضروری تھا۔ اور نسرین کہنے لگیں ’’کیا وقت آگیا ہے کہ خالہ بھانجی ایک دوسرے کے گلے لگنے سے قاصر ہیں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ پروین نے کہا ’’خالہ کیا ہوا جو گلے نہ مل سکے! دل تو ہمارے ملتے ہیں ناں!‘‘
’’ہاں کہتی تو تم ٹھیک ہو پروین۔ بدلتے زمانے میں گلے ملانے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن دلوں کو ملانے والوں کی تعداد شاید گھٹ گئی ہے۔‘‘
باتوں باتوں میں افشاں کا تذکرہ بھی آگیا، خالہ نے افشاں (پروین کی چھوٹی بہن )کا حال پوچھا تو پروین نے کہا ’’خالہ! افشاں کا کیا حال پوچھتی ہیں، اُس کے بیٹے کی تو ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی دو دن پہلے‘‘۔ خالہ نے کہا ’’ارے مجھے تو کسی نے بتایا تک نہیں۔کوئی ایک فون کرکے بتا تو دیتا، میں گھر بیٹھی اس کے لیے دعا ہی کرلیتی‘‘۔ یہ سن کر پروین نے کہا ’’میں نے خالو کو واٹس ایپ کیا تو تھا۔‘‘
اس پر خالہ نے اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے کہا ’’گھر کا انٹرنیٹ تو ہفتہ بھر سے چل نہیں رہا۔ اب انٹرنیٹ چلتا ہے تو دنیا میں آنے والے نئے وجود کا بھی پتا چل جاتا ہے اور دنیا سے جانے والوں کی خبریں بھی اسی واٹس ایپ کے ذریعے ملتی ہیں، اور ہم جیسے بوڑھے جو اس واٹس ایپ کے بغیر پورے پورے خاندانوں کو نبھاتے تھے، کنارے لگ گئے ہیں تو لوگوں نے بھی ہمیں کچھ بتانا چھوڑ دیا ہے کہ کوئی کبھی اس ٹیلی فون (لینڈ لائن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کے ذریعے ہی ہماری خیر خیریت دریافت کرلے، یا کم از کم کسی کی بیماری کی ہی اطلاع دے دے۔
اب جس کے پاس انٹرنیٹ نہیں، وہ تو سمجھو اِس دنیا کا باشندہ ہی نہیں۔ اب تو دنیا بس اسی ٹیکنالوجی کے گرد گھوم رہی ہے۔‘‘
خالہ جو انٹرنیٹ کی اس دنیا سے بہت بے زار تھیں، کوئی اپنا ملتے ہی دل ہلکا کر بیٹھیں۔
اور پروین نے سوچا کہ وہ اہم اطلاعات صرف واٹس ایپ پر نہیں بتایا کرے گی بلکہ ایک فون کرکے اطلاع دے دیا کرے گی، کہ بسا اوقات کسی کا انٹرنیٹ کام نہیں کرتا۔ اور اس معاملے میں خصوصاً اپنے خاندان کے بزرگ افراد کو ذہن میں رکھے گی، اور ساتھ میں کبھی ان بزرگوں کا حال چال بھی پوچھ لیا کرے گی کہ بزرگ اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کریں اور یہ بات جانتے رہیں کہ جوانوں کو اُن کی اہمیت کا احساس ہے۔

حصہ