ڈاکٹر آصف فرّخی کی رحلت پراہلِ ادب کے تاثرات

369

حصہ دوئم

سیمان کی ڈائری

شمیم حنفی

آصف فرخی سے میرا کوئی چالیس برس سے تعلق تھا۔اُن سے میری پہلی ملاقات افضال احمد سیدکے گھر پر ہوئی۔ اُس نشست میںتنویر انجم، ذیشان ساحل،اسد محمد خان اور اجمل کمال موجود تھے۔ اُن کی پوری فیملی سے میرا اور میرے گھر والوں کا خاص تعلق رہا۔ آصف فرخی نے کم عمر پائی لیکن اُس نے اتنا کام کیاکہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں تو واقعی مجھے حیرت ہوتی ہے،یقین نہیں آتا۔ انھوں نے رسالہ نکالا اور اُس کاجو ایک معیار قائم کیاوہ بہت غیرمعمولی ہے۔ اُس کے یوں اچانک چلے جانے سے مجھے بہت صدمہ ہے،بلکہ مجھے کیا میرے پورے گھر کوبہت صدمہ ہوا۔ وہ جب بھی یہاں کانفرنس کے سلسلے میں آتے تو میرے گھر ٹھیرتے تھے۔ میری بیوی اور بچوں سے اُن کے مراسم تھے اورخود آصف بالکل میرے بچوں کی طرح تھے۔گو کہ وہ میرے دوست تھے لیکن میری اور اُن کی عمر میں بیس سال کا فرق تھا۔ اُس کے دنیا سے جانے سے ادب کو جو نقصان ہوا ہے ،شایدہی کبھی اُس کی تلافی ممکن ہو۔

نسیم سید

قید مقام سے گزر… آج پہلی جون ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے سورج کی سنہری کرنیں تاپتا میرا ڈرائنگ روم ’’یارکوہم نے جا بجا پایا ’’کے وجد وسرورمیں ڈوبا کیسا دمک سا رہا تھا۔ چائے کا کپ ہونٹوں سے لگائے میں گھونٹ گھونٹ عابدہ پروین کی آواز اورسنہری کرنوں کی گرماہٹ کو چا ئے کے ساتھ پیتی رہی تھی ۔ پھرفیس بک پرموجود چہرے یاد آئے۔ یہ چہرے وہ چراغ ہیں جومیری فکرکے اندھیارے کو روشن رکھتے ہیں۔ میں نے فیس بک پرکلک کیا… اورمیرے اندرسے ایک فلک شگاف چیخ نکل کر سارے گھرمیں پھیل گئی۔ ’’نہیں، نہیں، ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘وہ صبح جوسنہری دھوپ اوراس نغمے کی تمازت سے جگمگا رہی رہی تھی فیس بک کھولتے ہی بھیانک اوربے رحم موسلا دھاربارش والی سیاہ رات میں بدل گئے۔ چا ئے کا کپ میرے ہاتھ میں اس طرح لرزرہا تھا جیسے پیروں کے نیچے سے زمیں ابھی نکل جا ئیگی۔ میں نے آنکھیں ملیں اوروہ جملہ دوبارہ پڑھا جوفیس بک کھولتے ہی میری آنکھوں میں مٹھی بھرریت ڈال گیا تھا ۔’’آصف فرخی نہیں رہے۔‘‘وہ تعلق ،وہ رشتہ جس سے میں واقف ہی نہیں تھی جوکبھی تھا ہی نہیں۔ وہ سیا ہ آندھی کی طرح مجھے جیسے جڑسے اکھاڑنے پرتلا ہوا تھا۔ ’’نہیں… ایسا نہیں ہوسکتا …‘‘ایساکیسے ہوسکتا ہے؟ میں زمیں پربیٹھ گئی مگردل کوقرارنہیں تھا۔ وہ سوال کرکرکے اورتڑپا رہا تھا۔ ’’اردودنیا کا وہ شش جہت زندہ بہت زندہ ذہن، دن رات حروف کی پنیریاں لگانے والا اورسوچ کی بنجرزمینوں کی آبیا ری کرنے والا، جس نے ادب کوجیا اوردوسروں کواس میں جینا سکھایا۔ کیا اس کے چاہنے والے آصف فرخی کو مٹی کے سپرد کرسکیں گے؟؟ میں نے گھبرا کے دوستون کوفون کیا۔ سب بلک رہے تھے۔بنا کچھ سوچے شیلف سے آصف فرخی کی کتا بیں نکال لا ئی۔ ’’قیدِ مقام‘‘کے پہلے صفحے پراقبال کا شعردرج ہے ۔’’توابھی رہ گزرمیں ہے قیدِ مقام سے گزر۔‘‘کتاب کوبیچ سے کھولا ایک سطرتھی۔ ’’کونے میں بیٹھ کے رونے کو جی چا ہتا ہے مگراس کے لیے میرے پاس فرصت نہیں ہے۔ غنیمت ہے کہ کام کررہا ہوں۔‘‘ فرصت توخود کوواقعی دی ہی نہیں آصف نے۔ کام کام اورصرف کام۔ اتنا کام کیا کہ مالا مال کردیا ادب کو اورابھی نہ جانے کتنا ان کی میز پراوررکھا ہوگا جوکہیں شا ئع نہیں ہوا ہوگا۔ یوٹیوب پرآصف کا نام لکھا اورمضامین پڑھتے، افسانے سناتے، تقریر کرتے، انٹرویو دیتے اپنے تراجم پربات کرتے آصف فرخی میرے سامنے تھے۔ میرے آنسو مسکرائے۔ ’’بھلا اس آصف فرخی کو موت کہاں چھین سکتی ہے ہم سے۔‘‘مجھے اچانک ان کا وہ افسانہ یاد آیا جوکچھ ہی عرصہ پہلے پڑھا تھا۔ ابھی وہ افسانہ یاد آیا ہی تھا کہ فا طمہ حسن نے افسانہ پوسٹ کردیا فیس بک پر۔ آصف فرخی کا آخری افسانہ اور جیسے دل کسی نے مٹھی میں جکڑلیا… ہائے… یہ مسلسل لکھنے والا قلم اس کی تحریر آخری کیسے قرارپایا…عجب عنوان ہے اس افسانے کا ’’خالی مکان میں رہ جانے والے‘‘مجھے لگتا ہے زندگی نے ان سے بہت کڑا سوال کردیا اچانک۔ یہ خالی اورسائیں سائیں کرتے مکان کیا بیتتی ہے اِن پر؟ اوروہ اس کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود سے بچھڑگئے مگراِن خالی رہ جانے والے مکانوں کا احوال لکھ گئے۔ ’’ہر کلائنٹ کو مکان کی تفصیل نہیں معلوم ہوتی۔ یہاںکی بتّیاں بند رہتی ہیں، شیشے ٹوٹ جاتے ہیں۔ آپ جتنی بار بتّیاں جلا کر دیکھ لیں۔ ایک چمک سی آتی ہے اور اس کے بعد بلب فیوز ہوجاتا ہے۔ شیشے بھی اس طرح سلامت نہیں رہتے۔ کھڑکی میں اسی طرح چٹخنے، ٹوٹنے کے نشان کے ساتھ لگے ہیں۔ پھر کوئی کونا ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔ بند کھڑکی میں جھری کھل جاتی ہے۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، روزانہ آتا ہے، جب اس مکان کی ساری بتّیاں جل اٹھتی ہیں۔ خودبہ خود۔ بڑی تیز چمک کے ساتھ۔ پورا مکان جگمگا اٹھتاہے۔ نیچے سے اوپر تک، اندر اور باہر، ہر بتّی۔ آتے جاتے لوگ بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں لیکن جو جانتے ہیں وہ کچھ نہیں کہتے۔جس طرح جلی تھیں، اسی طرح ساری بتیاں بجھ جاتی ہیں۔ ایک ایک کرکے نہیں، سب ایک ساتھ۔ ‘‘ آصف فرخی نے یہ لکھتے ہوئے کا غذ سمیٹ کے ایک طرف رکھے۔ قلم کوقلم دان میں رکھا۔ ایک گہرا سانس لیا اور خالی مکان میں تالا ڈا ل کے ’’قیدِ مقام سے گزر’’گنگنا تے ہوئے کسی انجانے سفرپرنکل گئے ۔ ایک نظرپیچھے مڑکے بھی نہیں دیکھا کہ کتنے لوگ ان کوبلک بلک کے آوازیں دے رہے۔

ڈاکٹر ضیاالحسن

ڈاکٹر آصف فرخی کو میں نے سب سے پہلے اسّی کی دہائی کے وسط میں پاک ٹی ہاؤس میں دیکھا۔ وہ کبھی کبھی لاہور تشریف لاتے تو انتظار حسین کی میز پر بیٹھتے۔وہ ہمارے تقریباً ہم عمر تھے لیکن ہمیشہ ان بزرگوں سے مل کر چلے جاتے تھے جو انتظار صاحب کی میز پر بیٹھتے تھے۔سب سے پہلے ڈاکٹر امجد طفیل کا تعارف اُن سے ہوااور وہ ایک دن انھیں ہماری میز پر کھینچ لائے۔اسی زمانے میں ہم نے ان کے کچھ انٹرویوز ادبِ لطیف میں پڑھے جو انھوں نے بہت بزرگ ادیبوں اور اہلِ علم کے کیے تھے اور کچھ عرصے بعد اُن کا ترجمہ پڑھا جو انھوں نے ہرمن ہیسی کے ناول ’’سدھارتھ‘‘کا کیا تھا جس کے آخر میں ناول کے بارے میں سلیم احمد اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی جس نے اُن کے حوالے سے میری مرغوبیت پر مہر ثبت کردی۔اگرچہ 2005کے بعد ان کے ساتھ ایک نیا اورزیادہ قربت کا تعلق استوار ہوا لیکن یہ مرغوبیت آخر تک کچھ نہ کچھ قائم رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کام کا بہت قدردان ہونے کے باوجوداُن کے ساتھ بے تکلفی کا تعلق قائم نہ ہو سکا۔ بے تکلفی ان کے مزاج میں بھی نہیں تھی اور میرے مزاج میں بھی نہیںلیکن دو طرفہ احترام کا تعلق ہمیشہ قائم رہا۔کچھ سال قبل مجھے اُن کے ایک افسانوی مجموعے پر ایک مختصر مضمون لکھنے کا موقع بھی ملا۔ مجھے خوشی اور اطمینان ہے کہ اُن کی زندگی میں ہی اُن کے کام کی تھوڑی بہت تحسین کا موقع ملا۔ وہ کراچی سے لاہورجب تشریف لاتے تو دنیا زاد اور اپنے ادارے سے شائع ہونے والے ناول میرے لیے بھی لاتے تھے۔ میرے پاس اُن کے یہ تحائف موجود ہیں جو ہمیشہ اُن کی یاد دلاتے رہیں گے۔ وہ حمیدہ شاہین کی نظم گوئی کے بہت قائل تھے۔ ہمیشہ یاد دلاتے رہتے کہ انھیں اپنی نظمیں دنیا زاد میں اشاعت کے لیے بھیجنے کی یاد دہانی کراؤں۔ گذشتہ پندرہ برسوں میں کراچی، لاہور ،اسلام آباداور ملتان میں اُن کے ساتھ لاتعدادملاقاتیں رہیںجن میں ہمیشہ ادب خصوصاً فکشن کے بارے میں گفتگو ہوتی رہیں۔ اُن کے جانے دکھ ہمیشہ رہے گا اور اُن کی کمی ہرقدم پر محسوس ہوگی۔

اخلاق احمد

سب کی طرح مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا۔ سو میں نے یار عزیز ڈاکٹر شیر شاہ سید کا نمبر ملایا۔ دوسری جانب سے شیر شاہ نے فون اٹھاتے ہی کہا۔” جی بھائی اخلاق! خبر درست ہے۔ آصف کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں یہاں ایدھی ہوم میں ہی ہوں۔”پتا نہیں کیوں سب کی طرح میں بھی آصف فرخی کے رخصت ہو جانے کی خبر پر یقین نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کوئی کہہ دے، یہ کسی غلط فہمی کا شاخسانہ ہے۔ آصف فرخی تو ٹھیک ٹھاک ہیں۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ میرے جیسے سیکڑوںتھے جو اچانک ملنے والی اِس دکھ بھری خبر کے کسی نہ کسی طور غلط ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی جھوٹی امید کے سہارے یہاں وہاں رابطے کرتے تھے۔ بے یقینی کا وہ آدھا ایک گھنٹا، اضطراب کا اور یلغار کرتے اندیشوں کا اور خاموش دعاؤں کا جیسے ایک پورا دن تھا۔دو دن بعد جمیل عباسی نے حیدرآباد سے ایک تصویر بھیجی۔ پانچ چھ ماہ پرانی تصویر۔ آرٹس کونسل کراچی میں اردو کانفرنس کے دوران آڈیٹوریم کے باہر ایک میز کے گرد لوگ بیٹھے ہیں۔سب سے نمایاں آصف فرخی ہیں۔دل کو اِدھر اُدھر کی باتوں سے بہلانے کی کوششیں ناکام ہوئیں۔وہ سہ پہر جیسے ساری تفصیلات کے ساتھ زندہ ہو کر، کسی جیتے جاگتے منظر کی طرح بالکل سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس میز پر شمیم حنفی صاحب تھے اور مسعود اشعر صاحب اور ہم وہاں بہت دیر تک بیٹھے رہے تھے۔ شمیم حنفی صاحب باتیں کر رہے ہوں تو بھلا کون اُٹھ سکتا ہے۔ اس میز پر اور بھی دوست آ کر بیٹھتے رہے اور رخصت ہوتے رہے لیکن میں اور آصف فرخی تا دیر وہیں جمے رہے۔ میرے لیے وہ سہ پہر، پوری کانفرنس کا سب سے اہم واقعہ تھی۔ کیا خبر تھی کہ جمیل عباسی کی اور پھر صفی سرحدی کی بھیجی کچھ تصویروں کو دیکھ کر ایک دن میں اپنے سیل فون میں اسی دن کی تصویریں تلاش کرنے لگ جاؤں گا تاکہ آصف فرخی کو یاد کر سکوں۔ اس آصف فرخی کو جو سب دوستوں اور احترام کرنے والوں اور رشک سے دیکھنے والوں کو حیران پریشان چھوڑ کر رخصت ہو گیا ہے۔انتقال کی خبریں چھپیں تو مجھے پتا چلا کہ وہ مجھ سے دو سال چھوٹے تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ چار پانچ سال چھوٹے ہیں۔ لیکن عمر میں کم ہونے کے باوجود وہ صلاحیت میں اور تحرک میں اور کثیر الجہتی میں بہت آگے تھے۔ ہماری قدر مشترک تو، ظاہر ہے کہ افسانہ نگاری ہی تھی مگر آصف فرخی صرف افسانہ نگاری یا صرف فکشن کی تخلیق تک محدود نہ تھے۔ یہ تو ہم جیسے ہوتے ہیں جو ایک یا دو ڈائمنشن میں ہی کام کر پاتے ہیں اور خود کو باصلاحیت سمجھتے رہتے ہیں۔ آصف فرخی تو ملٹی ڈائمنشنل کام کرنے والوں میں سے تھے۔ ادب میں ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ افسانہ نگار تھے، مترجم تھے، دنیازاد جیسے جریدے کے مدیر تھے، حبیب یونیورسٹی کے ہر دل عزیز استاد تھے، نقاد تھے۔ پاکستان کے بڑے ادب میلوں کے شریکِ بانی تھے اور ایک من موہنے آدمی تھے۔ اتنی جہتوں میں کام کرنے والا آدمی بھلا کہاں ملتا ہے…فون میں محفوظ، میسنجر کے پرانے پیغامات دیکھتا ہوں تو نہ جانے کیا کچھ یاد آتا ہے۔ سات سال پرانا ایک پیغام ہے۔’’’ ابھی ابھی آپ کی تازہ کتاب مکمل کر کے بیٹھا ہوں۔ بے حد لطف آیا۔ سمجھ میں نہیں آتا، کتاب مجھ تک پہنچانے کا کیسے شکریہ ادا کروں۔‘‘میں نے جواب دیا۔’’ بھائی آصف! آپ کی رائے میرے لیے بہت اہم ہے۔ ہو سکتا ہے ہم لوگ کسی دن اس کتاب کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لینے کے لیے مل بیٹھیں۔ اُن کایک لفظی جواب آیا،’’یقینا۔‘‘ڈیڑھ سال پہلے میں نے یونہی فیس بک پر شفیع عقیل صاحب کے بارے میں کچھ لکھا تو آصف فرخی نے علیحدہ سے پیغام لکھ بھیجا کہ بہت خوب لکھا ہے مگر یہ فیس بک کی چیز نہیں۔ اسے تفصیل سے دنیازاد کے لیے لکھ بھیجئے۔ میں نے جواب دیا کہ ہفتہ دس دن کے لیے ملک سے باہر جا رہا ہوں، واپس آتے ہی حکم کی تعمیل ہوگی۔واپس آ کر وہ مضمون مکمل کر کے انہیں بھیجا۔ ’’بہت شفیع، نہایت عقیل۔‘‘مضمون چھپا تو اُن کا پیغام آیا کہ پرچا بھجوا رہا ہوں۔ میں نے جواب میں لکھ بھیجا کہ شکر گزار ہوں۔ پھر کئی دن گزر گئے۔ ایک دن مجھے یاد آیا تو شرارتاً انہیں پیغام بھیجا۔’’ میں بہ دستور شکر گزار ہوں مگر وہ دنیا زاد اب تک نہیں ملا۔‘‘ان کا جواب آیا۔’’ مجھ پر قرض ہے۔ میں کسی دن خود لے کر آؤں گا۔‘‘کہاں خبر تھی کہ وہ کبھی نہیں آئیں گے۔

حصہ