سید مودودیؒ کی نماز جنازہ میں شمولیت کی سعادت

2337

ڈاکٹر اسرار احمد/مرتب:اعظم طارق کوہستانی
بعد نماز مغرب ان کے مکان پر درس قرآن کی نشست ہوئی جس کے کُل شرکاء نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے‘ اور اکثر طب کے پیشے سے متعلق تھے۔ اگلے روز یعنی ہفتہ ۲۲ستمبر کی صبح کو ڈاکٹر صاحب تو پھر اپنی معالجاتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے گھر سے نکل گئے۔ مجھے ایسے ہی خیال آیا کہ صدر ایوب خان مرحوم کے دور کی ایک ’’بدنام‘‘ علمی شخصیت ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کے بارے میں سنا تھا کہ شکاگو میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر خورشید صاحب کے اہل خانہ سے ان کا ذکر کیاتو معلوم ہوا کہ قیام تو ان کا زیادہ دور نہیں (یعنی یہی کوئی چھہ سات میل کے فاصلے پر) ہے لیکن وہ کسی سے کم ہی ملتے جلتے ہیں لہٰذا ملاقات آسان نہیں ہے۔ میں نے توکلاً علی اﷲ ان کو فون کر دیا تو حیرت ہوئی کہ وہ فوراً ہی خود آنے کے لیے تیار ہو گئے اور آدھ گھنٹے کے اندر اندر کرتے پاجامے ہی میں تشریف لائے۔ میں ان کے بعض نظریات سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود ان کی سادگی اور علمی خلوص کا پہلے سے معترف تھا اور ۱۹۶۸ء میں جو ہنگامہ ان کے خلاف پاکستان کے مذہبی حلقوں کی جانب سے ہوا تھا اس میں مَیں نے ان کی جانب سے کچھ تھوڑی سی ’’مدافعت‘‘ بھی کی تھی (جس پر مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب نے مجھے اپنے مجلّے ’’المنبر‘‘ میں ’’ڈاکٹر فضل الرحمن کے نئے وکیل: ڈاکٹر اسرار احمد‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا)۔ غالباً اسی کا اثر تھا کہ کامل گوشہ گیری اور ملنے جلنے سے احتراز کے باوجود ڈاکٹر صاحب مجھ سے ملنے کے لیے اس طرح بلاتامل و تکلّف چلے آئے۔
بہرحال ابھی ان سے گفتگو کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ڈاکٹر خورشید صاحب گھبرائے ہوئے آئے اور انہوں نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ مولانا مودودی کا انتقال ہو گیاہے۔ مجھے معاً یہ خیال آیا کہ ٹورنٹو میں مولانا کی طبیعت کی بحالی کی جو خبر ملی تھی وہ دراصل ان کا آخری ’’سنبھالا‘‘ تھا جیسے بجھنے والا چراغ آخری بار ذرا دیر کے لیے بھڑک اٹھتا ہے۔ اس خبر سے میرے اعصاب پر بجلی سی گری اور میں گم سم سا ہو گیا۔ ڈاکٹر خورشید نے میرے احساسات اور جذبات کا اندازہ کرتے ہوئے فوراً سوال کر دیا: ’’کیا آپ مولانا کے جنازے میں شرکت کرنا چاہیں گے؟‘‘ جس پر میری زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے: ’’کیا یہ ممکن ہے؟‘‘ اس کا کوئی جواب تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے نہ دیا البتہ فوراً ٹیلی فون کی جانب متوجہ ہو گئے اور چند ہی منٹوں میں مژدہ سنایا: ’’فوراً تیار ہو جائیں! حلقہ احبابِ اسلامی کا ایک قافلہ فی الفور بفلو کے لیے روانہ ہو رہا ہے اور آپ کے لیے بھی ان کے ساتھ ہی بکنگ ہو گئی ہے۔‘‘ چنانچہ نہایت عجلت میں ایئرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی اور ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب بھی اسی کرتے پاجامے میں میرے ساتھ ایئرپورٹ تک گئے۔ راستے میں وہ مولانا کے ساتھ اپنی جوانی کے دور کے ذاتی مراسم کا ذکر کرتے رہے اور نظریات میں شدید اختلافات کے باوجود مولانا کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتے رہے۔ ایئرپورٹ پر آٹھ دس حضرات کا قافلہ موجود تھا جن میں سے کسی سے کوئی ذاتی تعارف نہ تھا‘ صرف بعض حضرات رات کے درس میں شریک رہے تھے‘ البتہ اچانک برادرم ظفرالحق انصاری نظر آئے تو محسوس ہوا کہ یہ شعر عام حالات میں تو شاید مبالغے ہی پر مبنی نظر آئے گا لیکن ’’دیارِ غیر‘‘ کی حد تک بالکل مبنی برحقیقت ہے کہ ؎ ۔

اے دوست! کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحاؑ و خضرؑ سے!

بفلو ایئرپورٹ سے باہر آئے تو معلوم ہوا کہ راستہ وغیرہ کسی کو معلوم نہیں۔ فون پر ڈاکٹر احمد فاروق سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ ہمیں پہلے ہی دیر ہو گئی ہے۔ نمازِ جنازہ ہو چکی ہے اور ’’فیونرل ہوم‘‘ (Funeral Home) والے مولانا کی میت کو لینے کے لیے بس آنے ہی والے ہیں۔ اس اطلاع سے سب پر سراسیمگی سی طاری ہو گئی۔ کیا بفلو پہنچنے کے باوجود نہ مولانا کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کی سعادت حاصل ہو گی‘ نہ ان کا منہ دیکھنا ہی نصیب ہو گا؟ لیکن ڈاکٹر احمد فاروق صاحب کے گھر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ الحمدﷲ ابھی مولانا کی میت وہیں موجود ہے… حالانکہ ہمیں گھر کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹکنے میں خاصی تاخیر بھی ہو گئی تھی۔
میرے دل کی اس وقت جو کیفیت تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ ایک جانب شدید رنج و صدمہ اور خاص طور پر یہ حسرت کہ مولانا سے ان کی زندگی میں ملاقات نہ ہو سکی اور جو خواہش اس قدر اچانک اور اتنی شدت سے پیدا ہوئی تھی وہ تشنۂ تکمیل رہ گئی اور وہ بھی اس شان سے کہ ؎۔

قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا!

دوسری جانب خود اپنے بارے میں ایک انجانا سا خوف تھا کہ نا معلوم یہاں میرا استقبال کس طرح ہو۔ ذہناً میں اس کے لیے بھی پوری طرح تیار ہو کر گیا تھا کہ ڈاکٹر احمد فاروق نہایت درشتی کے ساتھ کہہ دیں کہ ’’آپ اب یہاں کیا لینے آئے ہیں؟ گھر میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں!‘‘ اور یوں میں باہر ہی سے بصد حسرت و یاس لوٹا دیا جائوں!
لیکن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹر احمد فاروق نے میرا استقبال نہایت شریفانہ و مہذبانہ انداز ہی میں نہیں حد درجہ ادب و احترام کے ساتھ کیا اور چھوٹتے ہی یہ الفاظ کہے:۔
’’میں نے آپ کا سلام ابا جان کو پہنچا دیا تھا… اور یہ بھی کہ آپ ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ ادھر ابا جان بھی آپ سے ملاقات کے بہت خواہاں تھے لیکن ڈاکٹروں نے شدید پابندی لگائی ہوئی تھی کہ نہایت قریبی اعزّہ کے سوا اور کوئی ملاقات نہ کرے!‘‘
میرے حواس نیم گم سم تو پہلے ہی سے تھے‘ ڈاکٹر احمد فاروق کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میں بالکل ہی گم سم ہو کر رہ گیا۔ اس پر خود انہوں نے مجھے مکان کے اندر آنے کی دعوت دی۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ایک بنچ پر مولانا کا جسد ِخاکی سفید براق کفن میں لپٹا رکھا تھا۔ بصد حسرت و یاس ان کا دیدار کیا اور پھر نمازِ جنازہ کے لیے صف درست کی۔ سب لوگوں نے با صرار مجھے ہی امامت کے لیے آگے بڑھایا۔ نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ شور مچ گیا کہ فیونرل ہوم والے آ گئے ہیں اور جلدی کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی قانون کے مطابق میت گھر پر لانے کی اجازت ہی نہیں ہوتی‘ ہسپتال سے لاش سیدھی فیونرل ہوم یعنی ’’جنازہ گاہ‘‘ جاتی ہے اور وہیں غسل اور تجہیز و تکفین ہوتی ہے اور جملہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ یہ تو چونکہ احمد فاروق خود ڈاکٹر تھے‘ اور ایک عرصے سے بفلو میں مقیم ہونے کے باعث کافی بااثر بھی تھے لہٰذا مولانا کی میت گھر پر آسکی اور تجہیز و تکفین کے مراحل مولانا کی اہلیہ صاحبہ کی نگرانی میں پورے سکون و اطمینان کے ساتھ طے پا سکے۔ دراصل ’’فیونرل ہوم‘‘ والوں کو کسی سبب سے دیر ہو گئی تھی تب ہی ہم مولانا کی زیارت بھی کر سکے اور نمازِ جنازہ بھی ادا کر سکے و گرنہ اگر وہ اپنے متعین وقت پر آ جاتے تو ہم ان سعادتوں سے بھی محروم ہی رہتے۔ بہرحال ڈرائنگ روم سے باہر فیونرل ہوم کی گاڑی تک لانے میں جو مختصر فاصلہ طے ہوا اس میں مولانا کی میت کو کندھا دینے کی سعادت بھی حاصل ہو گئی!۔

آنکھوں سے پردہ ہٹ گیا

عینی شاہ

میرے والد مرحوم شاہ محمد انصاری جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ اس لیے ہوش سنبھالتے ہی تفہیم القرآن اور مولانا مودودی ؒکی دوسری بہت سی مشہور تصانیف سے تعارف ہوگیا تھا مگر تعلیمی سرگرمیوں میں مصروفیت کی وجہ سے اُنھیں باقاعدہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ ہمارے گھر میں مولانا مودودی ؒ کی کتابوں کا وسیع ذخیرہ موجود تھا جو والد صاحب نے ایک نئی لائبریری میں عطیہ کردیا تھا۔ میں نے باقاعدہ مطالعہ آج سے تقریباً چھہ سال پہلے تفہیم القرآن سے شروع کیا۔ میں جب قرآن پاک پڑھنے جاتی تھی تو قرآن کا ترجمہ بھی پڑھنے کی کوشش کرتی لیکن وہ ترجمہ اتنی مشکل اُردو میں ہوتا تھا کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر جب مودودی صاحب کا ترجمہ مع تفسیر پڑھنا شروع کیا تو جیسے آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹنا شروع ہوگیا۔ اتنی آسان اور سادہ زبان میں ترجمہ تھا کہ فوراً سمجھ میں آنے لگا۔ مولانا کے الفاظ میں تاثیر بھی بہت ہے۔ بندہ ایک دفعہ پڑھنا شروع کرے تو پھر رُکنے کا دل نہیں چاہتا۔
مولانا مودودی ؒ کی تفہیم القرآن پڑھ کر میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ تبدیلی محسوس کی۔ زندگی کا مقصد سمجھ آنے لگا جب انسان کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خالق و مالک نے اسے کیوں پیدا فرمایا ہے تو زندگی گزار نا آسان ہو جاتی ہے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جتنی بھی زندگی باقی ہے وہ دین کی اشاعت میں گزرے۔ اللہ تعالیٰ اتنی توفیق عطا فرمادے کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا پیغام نئی نسل میں منتقل کر سکوں۔ آمین۔

حصہ