سوشل میڈیا پر چین کی فتح کا جشن

444

حسب توقع پاکستان میں’کورونا‘سے اموات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ میرے لیے یہ ہفتہ سوشل میڈیا پر کئی احباب کی بیماری و انتقال کے ساتھ تعزیتی و دعائیہ پیغامات سے مجموعی طور پر بھر ا رہا جس میں ہر قسم کے کیسز شامل تھے۔انوار احمد زئی سے نسیم صدیقی تک۔ طارق عزیز سے دوست محمد فیضی تک کئی احباب اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اورہماری تذکیر کر گئے کہ اس دُنیا سے بالآخر ہم سب نے کسی بھی لمحے ، کسی بھی بہانے چلے جانا ہے اَگر اپنے رَب کے حضور ہم حالت ایمان میں پیش ہوئے اور بقول شاعرمشرق ’پیش کر غافل عمل،کوئی اگر دفتر میں ہے ‘ کے مصداق کوئی عمل مقبول ہو گیا تو ہی کامیابی ہے۔
پاکستانی سیاست میں جاری کشمکش جسے وفاق و صوبہ سندھ کے درمیان کہیں یا پی ٹی آئی و پیپلز پارٹی کے درمیان وہ بدستور جاری رہی۔ بجٹ کا زمانہ تھا وہی ہوا جو ہونا تھا۔اسی طرح، عدلیہ بھی ایک بار پھر مختلف انداز سے زیر بحث رہی۔ جسٹس فائز عیسی ٰ کیس بھی ڈسکس ہوتا رہا ۔ اس ضمن میں بلا ل غوری کی ٹوئیٹ مقبول رہی۔’جج کی بیوی نے منی ٹریل مہیا کردی،رسیدیں دکھا دیں۔کیاجرنیلوں کی بیویاں پیش ہونگی؟مشرف،کیانی اور دیگر جرنیلوں کی بیگمات سے پوچھا جائے گا جزیرے کیسے خریدے؟وزیراعظم کی بہن سے سوال ہوگا سلائی مشینوں سے کروڑوں روپے کیسے کمائے؟اگر نہیں تو پھر پہچان لو مافیا کون ہے۔‘اسی طرحپاکستان اسٹیل کے ملازمین کو فارغ کرنے کے معاملے پراقتصادی رابطہ کمیٹی پھرکابینہ سے بھی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میںاپوزیشن کا شور سماجی میڈیا پر نظر آیا۔پیٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود عوام کے لیے ناپید نظر آیا ۔اس پر خاصا شور مچا رہا ۔ ایک مقبول پوسٹ یہ رہی کہ ’لاک ڈاؤن کھول کر پیٹرول بند کر دیا۔ اسے کہتے ہیں ویری ویری اسمارٹ لاک ڈاؤن۔‘اسی دورانپنجاب کی خاتو ن وزیر نے جذبات میں آکر لاہور کے عوام کو احتیاط نہ کرنے پر جاہل کہہ دیا اور اپوزیشن کو مزید نمبر حاصل کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔اس پر عوام نے کہاکہ’تعلیم کا بجٹ کچھ رکھتے نہیں ، زور آپ کا سارا مطالعہ پاکستان پر ہوتا ہے ، اور شکایت یہ کہ عوام جاہل ہے۔‘اسکے بعد سندھ کے پی ٹی آئی رکن اسمبلی نے کراچی میںعوام میںماسک تقسیم کی ایک تقریب میں سے خود ایک ماسک کا ڈبہ اٹھا لیا جس کی تصویر میڈیا و سماجی میڈیا پر وائرل ہو گئی یوں حکومتی ارکان کو مزید تنقید کا سامنا رہا۔یہی نہیںکورونا اقدامات کے تناظر میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی تقریر اورایک چینل پر اُن کے الفاظ کی غلط رپورٹنگ کی آڑ میں اپوزیشن نے رائے عامہ خراب کرنے کے لیے سماجی میڈیا کا خوب فائدہ اٹھایا۔اسی عظیم خطاب میںکورونا کے تناظر میں نئی اصطلاح ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ متعارف ہوئی ۔اس کا مطلب شہر کے مخصوص علاقوں جہاں کورونا کیسز کی بڑھتی تعداد سامنے آئے اُسے مکمل سیل کر دینا تھا ۔اس کا آغاز دار الحکومت کے کچھ علاقوں سے ہوا پھر یہ پنجاب سے ہوتا ہوا کراچی بھی آن پہنچا۔اس بارے میں ایک جانب یہ کہا گیا کہ ’کیا یہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مْکا ہے‘پاکستان کے 20 شہروں میں کورونا سے شدید متاثرہ علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا آغاز کر دیا گیا تاہم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق اب صورتحال بہت سنگین ہو چکی ہے اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا‘۔دوسری جانب اسلام آباد کے میئر کی جانب سے اس طرز کے لاک ڈاؤن کو نتیجہ خیز قرار دیا گیا۔ بہر حا ل مجموعی طور پر یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ وزیر اعظم کی مقبولیت کا گراف کتنا نیچے آیا ہے۔ ان کی اپنی سوشل میڈیا ٹیم بدستور اس محاذ پر تا حال اندھا دھند محنت کر رہی ہے۔کراچی میں دورے کے موقع پر جہاں وزیر اعظم کے پروٹوکل کا نوٹیفیکیشن شیئر ہوتا رہا اُن کے ماضی کے دعوؤں کے ساتھ وہاں#PMIKLiftingPakistan، پاکستان کا کپتان عمران، لاڑکانہ خان کا، جیسے ہیش ٹیگ لائے گئے لیکن جماعت اسلامی کی جانب سے متعارف کردہ ہیش ٹیگ #IKdoesntCare4Karachiکا ہیش ٹیگ بازی لے گیا اور ٹرینڈ لسٹ میں نظر آیا۔
سوشل میڈیا اثرات کے تناظر میںکورونا کے ضمن میںکم ازکم ایک بات میں ضرور کئی افراد سے گفتگو کے نتیجے میں ضرور کہنا چاہوں گا کہ ٹیسٹ کی ابتدائی قیمت کے علاوہ بھی ایسے حکومتی فیصلے اور کسی گھر میںمریض کے سامنے آنے پر پولیس و انتظامیہ دیگر افراد کو متاثر ہونے سے بچانے والے غیر منظم اقدامات نے بھی عوام میں ٹیسٹ نہ کرانے کی رغبت پیدا کی۔نہ ہی ٹیسٹ ہوگا نہ کسی کو پتہ چلے گا۔ سوشل میڈیا پر کئی ڈاکٹرز و دیگر افراد نے معلومات شئیر کی تھیں ، لوگ نشانیاں دیکھتے پھر اُس پر عمل کرنا شروع ہو جاتے ، ٹیسٹ و ڈاکٹرز و ہسپتالوں سے حتی الامکان بھاگنا شروع ہوئے ۔فارما کمپنی میں سیلز کے سینئر عہدے پر ایک دوست نے جب یہ بات کہی کہ حالات ہمارے بھی اچھے نہیں تو میں نے سوال کیا کیوں ؟ ادویات کی فروخت کا تو بزنس روز اول سے کھلا ہے پھر مسئلہ کیا ہے ؟تو اُنہوں نے بتایا کہ میڈیکل اسٹور پر بے حد رش ہے مگر ادویات کو میڈیکل اسٹور والا اپنے حساب سے دے رہا ہے سائل کے طلب کرنے پر یا پھر عوام از خود سیلف میڈیکیشن لے رہی ہے۔ اُس نے بھی بتایا اور میں نے قریبی اسٹور سے تصدیق کی کہ کیوںاچانک’ایزو میکس ‘، دکانوں سے شارٹ ہو گئی جو ابتداء میں صحت مند مریضوںتجویز کی جا رہی تھی ، CaCبھی مشکل سے مل رہی ہے؟ پھراسی طرح کیوں اچانک ’ثناء مکی ‘کی فروخت بڑھ گئی؟ ان سب کے پیچھے سماجی میڈیا پر ڈالی گئی پوسٹوں کے اثرات کے ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ پوسٹیں بھی کچھ اس قسم کی کہ آپ تصدیق کے لیے صرف Azomaxلکھ کر فیس بک پرسرچ کریں خود ہی جان جائیں گے۔ان کئی پوسٹوں میں سے ایک مقبول پوسٹ پیش ہے جو کئی میڈیکل گروپس و دیگر ہزاروں جگہ شیئرہو چکی ہے۔’’پاکستان میں کرونا ٹیسٹ کی ضرورت باقی نہیں رہی ،ٹیسٹ کے چکروں میں نہ پڑیں بلکہ خشک کھانسی، بخار، جسمانی درد، متلی ہی کورونا وائرس کی ابتدائی علامات ہیں ،جو کسی بھی وقت تنگی تنفس یا سانس کے پھول جانے میں تبدیل ہوسکتی ہیں، جس کا بروقت علاج نہ کرنے سے آپ کی موت بھی ہو سکتی ہے۔جب آپ کے بچوں یا ماں باپ کو کارونا کی علامات ہو جائیں مہربانی کرکے ایسی صورت میں ان کو ہسپتالوں کے چکر نہ لگوائیں کیونکہ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے آپ کو بہت تکلیف ہوگی۔اس کی بجائے آپ قریبی میڈیکل سٹور سے مندرجہ ذیل ادویات لیکر مریض کو بروقت دیں دے:بخار کی صورت میں پینا ڈول ہر چھ گھنٹے بعد۔ونٹولین ، مکونائل یا ایکسفکٹورنٹ شربت۔ اس کے علاوہ نمونیا جو بیکٹریا کی وجہ ثانوی پیچیدگی ہے اس نمونیا کو ختم کرنے کے لیے ایریتھرو مائسین (AZOMAX)یا کلیھترو مائی سین 500 ملی گرام کے گولیاں روزانہ ایک 5دن استعمال کرنے سے آپ کا مریض تیسرے دن تک بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔کمزوری کی صورت میں کیلشیم CaCکی ایک گولی ۔اس کے علاوہ ایسے مریضوں کم از کم 14 دن گھر میں رکھنا ہے، باہر جانے نہیں دینا ہے۔ ان کو وضو کرنے کی تلقین کریں۔باقی جو بندے صحت مند ہے وہ اپنا روزمرہ کے کام کاج کریں۔یاد رہے کہ مندرجہ بالا ادویات ایسے مریضوں کی جان بچا سکتیہیں۔اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں بازاروں سے واپسی پہ اپنے بڑھے ماں باپ یا بچوں سے منہ ہاتھ ملانے سے پہلے ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھو لیں ان کو لیموں کا ایک گلاس جوس بناکے ضرور پلائیں۔آگے ضرور شیئر کریں تاکہ کسی کی قیمتی جان بچ سکے، شکریہ۔‘ دوسری جانب بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق لندن کے کنگز کالج کی ایک ریسرچ ٹیم کی جانب سے کرائی گئی تحقیق کے مطابق دُنیا بھر میں سماجی میڈیا کو کورونا سے متعلق ’سازشی نظریات ‘ پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ دُنیا بھرمیںکئی گرفتاریاں بھی رپورٹ ہوئیں کورونا سے متعلق غلط خبریں، یا غیر مصدقہ خبریں پھیلانے کے جرم میں۔
پاکستان کی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ جاری سخت ٹینشن اپنی جگہ قائم رہی ، جس کو وقفے وقفے سے سوشل میڈیا پردونوں جانب سے ابھارا جاتا رہا۔ اس دوران چین کی طرف سے وادی ’گیلوان‘ میںبھی قدرے پیش رفت دیکھنے کو ملی اور بھارت کوکچھ قدم پیچھے کرنے پڑے۔ بس پھر بھارت میں جو ہونا تھا وہ تو جاری رہا البتہ پاکستان نے سوشل میڈیا پر بھر پور ہیش ٹیگ چلائے اور ٹرینڈ بنانے کی صورت میں بھارت کو اپنے تئیں شکست دینے کی تسکین لیتے رہے۔اس سے کچھ دن قبل لداخ پر بھی معاملہ گرم رہا تھا۔ اس ضمن میںایک مقبول ٹوئیٹ پیش ہے ،’بھارتی آرمی چیف کا شدید غصہ سے سوال:کیسے یہ چینی فوجی آکر ہمیںمار گئے، تم سب کیا کر رہے تھے؟جرنل : صاحب وہ جن تھے ، ایک ہی شکل کے تھے سارے، پتہ ہی نہیں لگ رہا تھا ۔‘پھر جب یہ بات سامنے آئی کہ یہ کام یعنی 20فوجی بغیر گولی یا بم چلائے مار دیئے گئے ہیں تو اور پھبتی کسی گئی ۔کامران خان کی ٹوئیٹ کے مطابق’حیرت ہے انٹرنیشنل میڈیا تصدیق کررہا ہے چینی فوجیوں نے بنا کسی ہتھیارگولی ،گولے، پستول، توپ استعمال کئے درجنوں بھرتی فوجی جہنم رسید کئے ۔اس دن سے ڈریں بھارتی فوجی سورما نریندر مودی جب چینی افواج ہتھیار اٹھائے اپنی فوجی تکنیکی قوت استعمال کرے ۔پھر توبھارتیوں کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔‘
مہتاب خان سماجی میڈیا پر چین کی فوجی کارروائی کو پاک فوج کے کریڈٹ پر دینے والوںکو طنزیہ احساس دلانے کیلیے لکھتے ہیں کہ ’انٹیلیجنس کہتے ہیں کہ خود کو پوشیدہ رکھ کر دشمن کا زیادہ سے زیادہ نقصان کرنے کو۔اگر افغانستان میں پہلے سویت یونین اور پھر امریکہ کو شکست فاش دلائی جا سکتی ہے۔ تو چین کو استعمال کرکے بھارت کی پٹائی کرانے میں کیا غلط ہے؟اسرائیل کے بارے میں بھی کوئی منصوبہ تیار ہوگا۔نمبر ون ایسے ہی تو بنا جاتا۔اتنی شاندار پلاننگ کے لیے جس یکسوئی اور سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اْس کے حصول کے لیے ہی ڈی ایچ اے اور عسکری ہاوسنگ بنی ہیں۔لیکن یہ حقیقت پٹواری دماغوں میں نہیں آ سکتی۔‘ سوشل میڈیا پر تو جو چل رہا ہے وہ اپنی جگہ ، مگر اہم بات جو سب نظر انداز کر رہے ہیںوہ یہ ہے کہ اس وقت چین کی بھارت میںبراہ راست سرمایہ کاری یعنی FDI کے بارے میں خود بھارت کے موقر خبری ادارے انڈیا ٹوڈے کی 18جون میں پربھاش دتاکی رپورٹ کے مطابق :
Chinese smartphone makers have over 75 per cent share of Indian market.Chinese export to India were at $68 billion while imports stood at $16.32 billion.India’s dependence on the Chinese economy can be valued at $52 billion.
اگر مذکورہ بالا اعداد و شمارآپ کو سمجھ آ گئے ہوں تو جان لیںیہ صرف بارڈر تک ہی کی ٹینشن ہے جس کا اثردونوں اطراف صرف بارڈر تک ہی ہوگا ۔چین کی اتنی بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہی بھارت میں عارضی طور پر چینی اشیاء کے بائیکاٹ کی دھمکی بھی دی گئی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پے ٹی ایم، فلپ کارٹ ( آن لائن شاپنگ)، سوئیگی (آن لائن فوڈ ڈلیوری)سمیت بڑے اسٹارٹ اپ کاروبار براہ راست چینی سرمایہ کاری پر مشتمل ہیں جن کا مجموعی حجم سات سو ملین ڈالر کے قریب رپورٹ ہوا ہے۔عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے زیر تسلط رہتے ہوئے اتنی بڑی سرمایہ کاری کو نہ ہی چین نظر انداز کر سکتا ہے نہ بھارت اور نہ ہی عالمی دفاعی معاشی ماہرین۔اس لیے اس نورا کشتی کو حقیقی رنگ دینا اپنے آپ کو ہی دھوکہ میں رکھنے کے مترادف ہے ۔ مقبوضہ کشمیر ایشو پر سے توجہ بحیثیت مجموعی ہماری بھی ہٹ چکی ہے ۔

حصہ