ام المومنین حضرت خدیجہؓ۔

1329

مسلمان عورتیں اپنی قوت کو پہچانیں

افشاں نوید
آپؓ کے بارے میں ہمیں جو معلومات ہیں اتنی ہی ہیں کہ۔۔۔
سن پیدائش،سن وفات۔ قریش کی مالدار عورت تھیں۔ آپﷺ کی صادق و امین شہرت کی وجہ سے انہوں نے اپنا سامان تجارت لے جانے کے لئے آپﷺ کا انتخاب کیا۔ غلام میسرہ جو شام کے تجارتی سفر میں ساتھ تھا اس کی گواہی سے متاثر ہوکر آپﷺ کو اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعے نکاح کا پیغام بھیجا۔
آپﷺ کے چچا ابو طالب نے نکاح پڑھایا، بیس اونٹ مہر مقرر ہوا۔۔پہلی وحی کی بابت کہ آپ نے کس طرح رسول خداﷺکی ہمت افزائی کی۔ایمان لانے والوں میں آپؓ پہلے نمبر پر ہیں۔
شعیب ابی طالب کی سختیاں جو آپ نے بھی برداشت کیں۔آپ بہت صابر شاکر اور استقامت والی خاتون تھیں۔
یوٹیوب پر سرچ کرنے پر مجھے اتنا ہی ملا۔۔۔
امہات المومنین پر سیرت کی کتابوں میں اتنا ہی درج ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو اس طرح بیان ہی نہیں کرتے کہ ہماری نئی نسل ان کو رول ماڈل بنائے۔
جذبات سے عاری کتابی معلومات ہیں۔
یہ سچ ہے کہ امہات المومنینؓ اور بنات رسولﷺکے بارے میں بہت محدود سی معلومات محفوظ کی جاسکیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اصحاب رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر ہر لمحہ ہر حوالے سے ریکارڈ کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے تھے کیونکہ آپﷺ کے ساتھی اپنے مقام اور مرتبے سے آگاہ تھے،انہیں یہ پتا تھا کہ آپ آخری نبی ہیں اور امت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اس لئے اللہ کے رسولﷺ کے گھرانے کی خواتین کے بارے میں چند روایات ہم تک پہنچی ہیں۔۔۔ لیکن جو بھی محدود سی روایات ہم تک پہنچتی ہیں اس سے اللہ کے نبی کے گھرانے کی خواتین کی عزم و استقامت کا ایک بہت روشن پہلو ہمارے سامنے آتا ہے۔
جہاں تک امہات المومنین کا تعلق ہے تو قرآن کریم میں ارشاد مبارک ہے۔
” مومنین پر نبیﷺان کی جانوں سے بڑھ کر ہیں اور نبیﷺ کی ازواج مومنین کی مائیں ہیں (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6)۔
اسی طرح سورہ احزاب میں ارشاد فرمایا گیا “مومنین پر نبیﷺ ان کی جانوں سے بڑھ کریں اور نبی کی ازواجؓ مومنین کی مائیں ہیں ”
یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اللہ کے نبیﷺکے نکاح میں آنے کے بعد وہ سارے مسلمانوں کی ماں قرار پائیں۔ ایک ضعیف آدمی بھی اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اپنی ماں کو یاد کرتا ہے ۔ماں کا وجود ایسی ٹھنڈی چھاؤں ہے کہ انسان اس سے لمحہ بھر غافل نہیں رہ سکتا امریکی شہری ٹری والس کی عمر اس وقت 40برس تھی وہ انیس برس بے ہوش رہنے کے بعد ہوش میں آیا تھا وہ اس وقت محض 21 برس کا تھا جب پچیس فٹ کی بلندی سے ایک خشک دریا میں اس ٹرک سے گر گیا تھا جس پر وہ سوار تھا وہ سر کے بل گرا تھا اور دماغ پر چوٹ آئی تھی۔ بے ہوشی کے عالم میں ہے اس کو نالیوں کے ذریعے خوراک دی جاتی رہی ڈاکٹرز نوجوان کی پوری طرح حفاظت کر رہے تھے اس امید پر کہ وہ ایک دن ضرور ہوش میں آئے گا ۔انیس برس کوما میں رہنے کے بعد ایک صبح اسے اچانک معمولی سا ہوش آیا اس کی پلکوں پر جنبش ہوئی ۔ڈیوٹی پر موجود عملہ اس کے گرد جمع ہو گیا ان پر شادئ مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی وہ ٹیری پر جھکے ہوئے تھے کہ اب ٹیری کے ہونٹ جنبش میں آئینگے کتنا خوبصورت ہوگا وہ لمحہ جب انیس برس بات ٹیری کی زبان حرکت کرے گی۔ ٹیری شادی شدہ اور ایک بچی کا باپ تھا۔ اس کی بچی جو اس حادثہ کے وقت شیرخوار تھی اب انیس برس کی ہوچکی تھی اس کی بیوی اور بیٹی اس کی آنکھوں کے سامنے تھی اس کے ہونٹوں نے جنبش کی اور پہلا لفظ جو اس پر جھکے ہوئے لوگوں نے سنا اس نے کمزور سی آواز میں پکارا مام(ماں) …
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ساری عمر اپنی ماؤں کو ہی پکارتے رہتے ہیں ۔نو مہینے رحم مادر میں رہنے کے بعد بچہ دنیا میں آجاتا ہے تو ماں کے وجود سے الگ ہوجاتا ہے مگر ماں اس کے وجود کا حصہ بن کر اس کے اندر سرایت کرتی رہتی ہے۔ ہرماہ مجنوں اور اس کے بچے لیلیٰ ہوتے ہیں۔
اخلاقی اقدار کا زوال ہے۔ انسان کی تیز رفتار ترقی نے رشتوں کو کمزور کردیا لیکن ماں کا وہ رشتہ ہے جس میں کبھی مدو جزر نہیں آ سکتا ۔
ہم اپنی ماؤں کی پرچھائیاں ہیں ۔ہمیں اپنی ماں کو جاننے کے لئے کسی کتاب کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کسی فرد کے لیے یہ بھی اہم نہیں ہوتا کہ اس کی ماں کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہے ۔اس لئے کہ لوگوں کی رائے اس کی رائے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ ماں ایک رویے کا نام ہے ۔
قربانی کا عنوان ہے
عشق کی داستان ہے
جو بچوں کی جان ۔۔۔
اور اولاد پر مہربان ہے۔
ہم جب کسی کے احسان کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں تو شکریہ کے طور پر بے اختیار ہماری زبان پر یہ الفاظ آجاتے ہیں کہ یہ تو میری ماں جیسا رویہ ہے۔
ہماری مائیں چاہے دنیا سے جتنا عرصہ پہلے گزر چکی ہوں لیکن نہ ماؤں کی یاد میں کوئی کمی آتی ہے نہ ان کے ذکرسے طبیعت سیر ہوتی ہے۔ نہ دل و دماغ کبھی ان کے احسانوں کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہیں۔ ہم اپنی ماؤں کا حق ادا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اللہ رب کریم نے قرآن میں اپنے حقوق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر کرکے ان کے حقوق پر مہر ثبت کردی۔
ایک طرف ہم میں سے ہر ایک کا دل اپنی ماؤں کے احساس سے لبریز ہےاوردوسری طرف ہم ان ماؤں کو جانتے تک نہیں جو امت کی مائیںہیں۔ جیسے ہم اپنی ماں کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتے اسی طرح بحثیت امتی ہم ان امت کی عظیم ماؤں کے احسانات کا بدلہ بھی نہیں اتار سکتے ۔اگرچہ ان عظیم ہستیوں کے لئے یہی کافی تھا کہ ان کا تعلق اور نسبت دنیا کے سب سے عظیم انسان کے ساتھ تھی لیکن انہوں نے اپنی بلندکرداری اور استقامت سے بھی اسکی گواہی پیش کی کہ وہ اس کے مستحق ہیں کہ یہ اعلی ترین اعزاز ان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہو۔ ہمیں ضرورت ہے بار بار تاریخ کے ان دریچوں میں جھانکنے کی۔یہ کیسی بات ہے کہ اب حیات موجود ہے ۔تاریخ ان عظیم ہستیوں کی ضوفشانی سے منور ہے اور ہم آنکھیں بند کئے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے اور مغرب میں رول ماڈل تلاش کررہے ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کے حوالے سے جو روایات ہم تک پہنچی ہیں اس میں بیان کرنے کی بات یہ ہے کہ چالیس برس کی خاتون آج سے تقریبا ڈیڑھ ہزار برس قبل ایک قدم اٹھاتی ہیں۔ اپنی قوت کو پہچانتی ہیں، سماج میں اپنے مقام سے آگاہ ہیں۔دو بار بیوگی کے باوجود خود پر بےچارگی طاری نہیں کرتیں۔ یہودی علماء سے آپ سن چکی تھیں کہ توریت میں جس نبی کی آمد کی خبر ہے ان کا زمانہ قریب آلگا ہے۔
آپﷺ صادق اور امین۔
آپﷺ کی شخصیت کی آہٹیں زمانہ محسوس کر رہا تھا۔
حضرت خدیجہؓ اسی سماج کا حصہ تھیں۔زندہ بیدار دل رکھنے والی، آنے والے وقت میں اپنا رول ادا کرنے پر تیار تھیں۔
ہمارے ہاں 40 سال کی بیوہ عورت معاشرے میں”بےچاری”ہوتی ہے،لفظ بیوہ خود ہی بے چارگی رکھتا ہے۔ لوگوں کی نظروں میں بھی بیوہ عورت کے لیے عجیب دکھی سا پیغام ہوتا ہے۔۔
انہوں نے زمانے کو اپنے اوپر ترس کھانے دیا نہ وہ زمانے سے مرعوب ہوئیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟
انہوں نے ایک پروایکٹو ایجنڈے پر کام کیا اور بتایا کہ زمانے کو کیسے اپنے پیچھے چلایا جاتا ہے؟
بڑے بڑے سرداروں کے پیغام انہوں نے ٹھکرا دئے تھے۔
وہ جاہ و حشم کی مالک کسی بڑے سردار سے نکاح کرکے باقی زندگی چین وسکون سے بسر کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے مکہّ کے دریتیم کا انتخاب کیا۔جن سے وہ معاوضے پر تجارتی خدمات حاصل کر چکی تھیں۔
یہاں ان کا ایکسپوژر دیکھنے کی چیز ہے۔ان کی نظر کہاں تک دیکھ رہی تھی۔ اپنے فیصلوں میں وہ کس قدرمضبوط تھیں۔ اپنا فیصلہ سنا کر انہوں نے سماج کے ردعمل کی پروا نہ کی۔اور یہ جذباتی فیصلہ نہ تھا۔فیصلہ بھی ان کا ذاتی تھا۔اور فیصلہ کی وجہ ایک تو سماج میں آپﷺ کی نیک نامی دوسرے شام کے سفر سے واپسی پر آپ کے غلام میسرہ کی گواہی تھی۔اپنے مستقبل کے لیے جو آپ نے سوچا میسرہ نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
جب شام سے واپسی پر تجارتی قافلہ لے کر آپﷺ شام پہنچے ان لمحات کا ذکر سر ولیم بی میور نے خوبصورت الفاظ میں کیا ہے”سفر سے واپسی پر جب آپﷺ حضرت خدیجہؓ کے سامنے کھڑے تھے تو نے اپنے محنتی تجارتی نمائندے کا گہری تفکر آمیز سیاہ آنکھوں، شریفانہ خدوخال اور پر وقار شخصیت میں بڑی کشش پائی جو ان کے لیے مالی منافع سے زیادہ خوشی، فرحت اور رغبت کا باعث بن گئی۔
سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ سیدہ خدیجہ کی طرف سے پیشکش سن کر آپ نے اپنے چچاؤں سے مشورہ فرمایا حضرت حمزہ آپ کے والد خویلد کے پاس پہنچے اور رشتے کی بات کی طبقات ابن سعد میں ایک اور بھی واقعہ ہے کہ قریش کی عورتوں کی ایک عید ہوتی ہے وہ عبادت خانے میں جمع ہوتی ہیں ایسے موقع پر سب عورتیں جمع تھیں کہ اچانک ایک یہودی آیا کہنے لگا ۔اے قریش کی عورتوں تم میں ایک نبی آنے والا ہے لہذا تم میں سے جس کو اس سے نکاح کرنے کا موقع ملے ضرور کرلے ۔اس موقع پر حضرت خدیجہ بھی موجود تھیں دوسری عورتوں نے یہودی پر کنکر برسائے لیکن انہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے سنا۔
حضرت خدیجہ کے حضور کی طرف میلان کا پیش خیمہ غالبا یہی بات بنی۔
روایات میں ہے کہ نکاح کے دن حضور صلی اللہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے گھر پہنچے اور ابوطالب نے درج ذیل خطبہ دیا سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ابراہیمؑ کی اولاداسماعیلؑ کی کھیتی اور سعد کی نسل سے ہیں۔ ہمیں بیت اللہ کا پاسبان اور حرم کا نگہبان بنایا جو حرم اور امن کی جگہ ہے۔
اللہ کا شکر اس نے ہمیں لوگوں پر حاکم بنایا اور ہمارے شہر کو برکت سے نوازا میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ وہ شخص ہیں کہ جن کے شرف ووقار اعلی ظرفی اور فضیلت اور دانائی کا قریش کے کسی بھی آدمی سے موازنہ کیا جائے تو محمد بن عبداللہ کا پلڑہ بھاری نکلے گا۔
اس کے بعد ورقہ بن نوفل جو حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے انہوں نے بھی خطبہ دیا نکاح پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں خدیجہ بنت خویلد کو چار سو مثقال کے بدلے محمد بن عبداللہ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔۔
شام کے تجارتی سفر سے واپسی کے تقریبا تین ماہ بعد بھی نکاح ہوا۔شادی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ولیمہ دی جس میں بعض روایت میں ایک اور بعد میں دو اونٹ ذبح کرنے کا حکم ہے اور لوگوں کو کھانا کھلایا شادی کے بعد آپ ﷺحضرت خدیجہؓ کی خواہش پر اپنا آبائی مکان چھوڑ کر ان کے مکان میں تشریف لے آئے۔اسی گھر رہے یہیں اولاد پیدا ہوئی یہیں حضرت خدیجہ نے وفات پائی اور یہیں ہجرت تک مقیم رہے یہ بابرکت گھر آج مسجد الحرام کا حصہ بن چکا ہے۔۔ آپﷺاپنی عمر کے چالیسویں برس غار حراء میں تشریف لے جانے لگے جو مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔آپﷺ کئی کئی دن وہاں رہتے ستو اور پانی کا چھاگل ساتھ لے جاتے سیدہ خدیجہ بھی کئی بار کھجور اور ستو دینے غار حرا اپنے سرتاج کے پاس چلی جاتیں اسی دوران میں پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی اضطراب کی عالم میں گھر تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں زملونی زملونی۔۔مجھے اڑھاؤ۔مجھے اڑھاؤ سیدہ خدیجہ پلنگ پر بستر بچھا دیتی ہیں کمبل اڑھاتی ہیں سرھانے بیٹھتی ہیں۔آپ ﷺفرماتے ہیں خدیجہ مجھے خدشہ ہے کہ میری جان نہ نکل جائے۔ سیدہ خدیجہ سے زیادہ کون آپ کا مونس و غمگسار ہوسکتا تھا وہ خلوت اور جلوت کی ہمراز تھی انھوں نے 15 سال آپ کی رفاقت میں گزارے تھے اس عظیم تاریخی موقع پر انہوں نے جو گواہی دیں چودہ سو برس سے وہ خوبصورت الفاظ تاریخ سے چھن چھن ہم تک پہنچتے ہیں ۔
“ہرگز نہیں، خدا کی قسم !خدا آپ کو ضائع نہ کرے گا۔ آپ عزیزوں، رشتے داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں، کمزوروں بےکسوں ،غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ,مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ، آپ سچے انسان ہیں۔ یہ شہادت ان خاتون کی ہے جو پندرہ برس سے روز و شب آپ کے ساتھ ہیں۔

حصہ