ایتھوپیا، کانگو اور چاڈ کی تباہ حال معیشت اور پاکستان کے مشیرخزانہ

459

قاضی جاوید
آخر کا ر وہی ہو جس کے بارے میں غیر جانبدار ماہرین ِمعیشت بار باذکرکر رہے تھے۔ عبدالحفیظ شیخ نے پاکستانی معیشت کی گراوٹ کو ایتھو پیا،کانگو ،اور چاڈ تک پہنچا دیا
10مئی کی شام کو ہماری حکومت نے بے حد خوشی اور بغلیں بجاتے ہو ئے اعلان کی کہ دنیا کے 20امیر ترین ممالک کے گروپ جی 20کے قرض دینے والے 11ممالک کے گروپ پیرس کلب نے پاکستان کا قرض 31دسمبر 2020تک موخر کر دیا ہے اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا قرضہ موخر کیا گیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کے پیرس کلب نے یہ شرمناک اعلان بھی کیا کہ پاکستان سمیت چار غریب ممالک کے قرض کی ادائیگیاں ایک سال کیلئے موخر کردیں ،غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پیرس کلب نے پاکستان کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک چاڈ، ایتھوپیا اور جمہوریہ کانگو کا قرضہ بھی موخر کیا ہے اس طرح پاکستان اب ماہر معیشت عبدالحفیظ شیخ کی مہارت سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہو ئے افریقہ کے غریب ترین ممالک میں شامل ہو گیا ہے
دنیا کے 20امیر ترین ممالک کے گروپ جی 20کے قرض دینے والے 11ممالک کے گروپ پیرس کلب نے پاکستان کو رواں برس 1.8ارب ڈالر کی قسط میں سہولت مل گئی۔ پیرس کلب اعلامیے میں کہا گیا کہ G-20 ممالک بھی قرضوں کو موخر کرنے کی توثیق کرچکے ہیں۔وزیراعظم خان نے سب سے پہلے غریب ممالک کے لیے قرض موخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس لیے کہ عمران خان کو اس بات کا کا علم ہو گیا تھا کہ پاکستان دنیا کے چند غریب ممالک میں شامل ہو گیاہے ۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کے قرض موخر کرنے کا مطالبہ کیا ہے دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان کے لیے 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی۔اعلامیے کے مطابق قرض غریبوں کے تحفظ، صحت کی سہولتوں میں توسیع اور کوروناصورتحال کے دوران روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ہوگا۔صدر ایشیائی ترقیاتی بینک مساسوگا اساکاوا کا کہنا تھا کہ مشکل صورتحال میں پاکستان کی مکمل مدد کا عزم رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں ایشیائی ترقیاتی بینک اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں جس کے تحت اے ڈی بی 30 کروڑ ڈالر قرض اور 50 لاکھ ڈالر امداد کی صورت میں دے گا۔ اس طر ح پورے ملک کی معیشت پر صر ف قرض ہی قرض کی ہی بھر مار ہے
اس کے علاوہ ملکی معیشت کے کے بارے میں تباہ کن کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر خزانہ برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ مالی سال 2020 کے لیے زراعت میں 2.67، صنعت میں منفی 2.64 فیصد اور خدمات کے شعبے میں منفی 0.59 نمو کی بنیاد پر ملکی آمدن کی شرح نمو کا تخمینہ 0.38 فیصد ہے۔اسلام آباد میں اقتصادی مالی سروے 20-2019 پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کہا کہ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گزشتہ حکومت کے آخری 2 سالوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16-17 سے گر کر 9 کے قریب پہنچ گئے تھے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر سستا رکھا گیا جس کے باعث درآمدات، برآمدات سے دگنی ہوگئیں اور ان تمام چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے کہ ہم اپنی معیشت کو اچھے انداز میں چلا سکتے اور اس وقت میں ہمارے قرضے بڑھ کر 25ہزار ارب روپے ہو چکے تھے۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارے قرضے تقریباً 30ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکے تھے۔یہ ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم اپنی حکومت میں جو شرح نمو حاصل کررہے تھے وہ باہر سے قرض لے کر ملک کے اندر خرچ کررہے تھے تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ ہم مزید وسائل یعنی ڈالرز کو متحرک کریں۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور موخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروباروں کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی، قرضے یہ تمام چیزیں حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔انہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم نے اپنے بیرونی طور پر معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹا اور ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے ہم 3 ارب ڈالر تک لے آئے۔ دوسری اہم چیز ہے کہ رواں سال اور پچھلے سال مجموعی طور پر کہ 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کیے گئے۔ ایک بہت اہم چیز ہے کہ ایک ملک ماضی میں لیے گئے قرضے چاہے وہ کتنے ہی بڑی تعداد میں کیوں نا ہوں، وہ واپس کرے۔اس پوری رپورٹ کا پڑھ کر یہ احساس ہو تا ہے کہ ملکی معیشت ملکی اور غیر ملکی قرض پر انحصار کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا، ہم نے درآمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائین تو درآمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی آر میں تقریبا 27فیصد جا رہی تھی۔ حکومت کے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔احساس پوگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غرب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، اسی جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152ارب روپے رکھے گئے۔ دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو ہم نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، یہ سب چیزیں ہم نے کوروناوائرس کے آنے سے پہلے حاصل کیں، پھر کورونا وائرس آیا اور سا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔
کوروناکے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اندازے لگارہے ہیں کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی تین فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔برآمدات بھی متاثر ہوئیں، ترسیلات زر زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن اب متاثر ہونے جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کے ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4ہزار 700ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی آر کوٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ایک ہزار 240ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگراموں پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کمپنی کے پے رول پر برقرار رکھ سکیں۔
ٹیرف صرف پاکستان میں درآمدات پر قابو پانے اور گھریلو صنعت کی حفاظت کے بجائے محصولات جمع کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر ٹیرف کا مقصد درآمدات کو کم کرنا ، گھریلو صنعت کی حفاظت ، مسابقت کو بہتر بنانا ، ملازمت کو بہتر بنانا ، سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور ادائیگی کے توازن کو بہتر بناناہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی محصول اور درآمد میں اضافے کے درمیان ایک مثبت رشتہ ہے۔شیخ خالد تواب نے مزید بتایا کہ متعدد ٹیکسوں ، مراعاتی ایس آر اوز اور مختلف قسم کے ریگولیٹری ڈیوٹیز کی وجہ سے پاکستان میں ٹیرف کا ڈھانچہ بہت پیچیدہ ہے جس سے انڈرانوائسنگ ، اسمگلنگ اورمس ڈیکلریشن دکو فروغ ملتا ہے جس سے مینوفیکچرنگ سیکٹر متاثر ہوتے ہیں اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔انکا کہنا تھا کہ زائد درآمدی ٹیرف سے روزگار کی راہ میں متعدد بگاڑ پیدا کردیئے گئے ہیں اور کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ کرکے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی مسابقت کو متاثر کیاگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر صنعت کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا جانا چاہئے اور بیس لائن مٹیریلز اور خام مال کے لئے زیروفیصد سے شروع ہونے والے سیکٹرز کومعیاری ٹیرف سلیب کو شامل کیا جائے ،ری ایکسپورٹ کیلئے ویئرہائوسنگ کی سہولت دی جائے تاکہ وہی مال دوبارہ دوسرے ممالک میں جاسکے ،سیمی فنشڈ پروڈکٹس کے لئے ڈیوٹی 5 سے 10فیصد اور باقی تمام اشیاء پرزیادہ سے زیادہ ڈیوٹی 20 فیصد کی جائے۔ اس کے علاوہ صنعتی صارفین اور تجارتی درآمد کنندگان کیلئے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی شرحیں یکساں کی جائیں تاکہ سہولیات کے غلط استعمال کو دور کیا جاسکے۔ خالدتواب نے مزید کہا کہ نئے مالی سال 2020-21کے وفاقی بجٹ میں مختلف سیکٹرز کو فائدہ پہنچانے کیلئے جاری کردہ ایس آر اوز کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔
معیشت کے غیر رجسٹرڈ افراد کو دستاویزی معیشت کا حصہ بنانے اور انہیں رجسٹرڈ بنانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی اور ایسی پالیسی اختیار کی جائے کہ تمام سرمایہ کاری کے بارے میںکوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ کرونا وبا کے باعث موجودہ عالمی بحران میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، جی 20 اور ایف اے ٹی ای وغیرہ کی جانب سے کوئی اعتراضات اٹھانے کے امکانات نہیں جو کہ پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر سرمائے کے استعمال کی اجازت دے۔گرچہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود کو 13.25فیصد سے8.0فیصد تک لے آیا ہے تاہم اب بھی یہ شرح نمو کے لیے ناکافی ہے۔اقساط میں شرح سود میں کمی معیشت کو متحرک نہیں کرسکتی۔پالیسی ریٹ کو ایک ہی بار 4فیصد کی شرح پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو متحرک اور کاروباری لاگت کو کم کیا جاسکے۔ تمام بڑی معیشتیں کرونا وبا کے اثرات کو دور کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کررہی ہیں اور شرح سود کوبھی صفر کیا گیا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک آ ف پاکستان گورنر رضا باقرنے آگاہ کیا ہے کہ مرکزی بینک کی ری فنانس اسکیم سے مجموعی طور پر اب تک 1320کمپنیاں مستفید ہوچکی ہیں اور مذکوہ اسکیم کے تحت اپریل، مئی اور جون2020 ء کے دوران درخواست گزاروں کو96ارب روپے فراہم کیے جاچکے ہیں ۔ یہ اسکیم کرونا وبا کی وجہ سے کاروبار اور ملازمتوں پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے متعارف کروائی گئی تھی تاکہ تنخواہ دار طبقے کو تنخواہیں و اجرت ادا کی جاسکے۔لیکن ہماری اطلاع کے مطابق گورنر اسٹیٹ بینک آ ف پاکستان اس رقم کو تاجروں اور صنعتکاروں کو دے ایک فاش غلطی کی ہے تاجروں اور صنعتکاروں نے مارچ میں 20دن کی تنخواہ ملازمین کو ادا کی اور اپریل میں لاکھوں ملازمین کو برطرف کر یا گیا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک کے عوام کو بچانے کے لیے فوری طور پر ریلیف دیا جائے۔کورونا سے ملک میں ایک کروڑو سے زائد غریب عوام بے روزگا ہو رہے اس کے لیے حکومت فوری اقدام کرے ۔اگر ان کو نہ بچایا گیا تو ملک میں سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔

حصہ