چین بھارت کشیدگی یا گریٹ گیم کے

504

اُبھرتے خدوخال ؟۔
چین اور بھارت میں جو کشیدگی پھوٹ پڑی ہے یہ اچانک ہر گز نہیں نہ اس کا تعلق کورونا جیسے وقتی مسئلے سے جوڑا سکتا ہے ۔جس طرح اس کشمکش کی جڑیں تاریخ میں دور تک پیوست ہیں اسی طرح اس کا تعلق مستقبل کے عزائم اور منصوبوں سے ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ کورونا کے اثرات مرتب ہونے سے پہلے پہل فریقین نے متعین کردہ راستے پر اپنی رفتار تیز کر دی ہے ۔چین نے ایک جست لگا کر ان علاقوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کر دیا جو سی پیک کے آغاز تک پہنچنے کے لئے خاصی اہمیت کے حامل تھے اور بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا ہے۔چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات بہت پرانے اور گہرے ہیں اور یہی تنازعات 1962کی چین بھارت جنگ کا موجب بھی بنے ہیں ۔اس جنگ میں بھارت کو ایسی شکست سے دوچار ہونا پڑا کہ دوبارہ ان کے دلوں میں چین سے دوبدو معرکہ آرائی کی خواہش انگڑائی ہی نہ لے سکی۔بھارت نے اس جنگ سے سبق سیکھ کر متنازعہ سرحدی علاقوں میں انفراسٹرکچر نہ بنانے کا حتمی فیصلہ کیا مبادا کہ کبھی چین ان علاقوں پر قبضہ کرکے اس انفراسٹرکچر کو استعمال کرے۔دہائیاں اسی سوچ کے تحت گزرتی چلی گئیں چین اور بھارت میں براہ راست تصادم تو نہ ہوا البتہ سرحدی تنازعات کی کھینچا تاتی جاری رہی۔یہاں تک 1988میںبھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے چین کا دورہ کرکے سرحدی تنازعات میں طاقت کے استعمال نہ کرنے اور ان تنازعات کو بات چیت اور افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان ایک گولی کا تبادلہ نہ ہوا۔اس دوران سرد جنگ کا بڑا کھیل اختتام کو پہنچا اورعالمی طاقتوں کی نئی ضرورتیں انہیں نئے دشمن تراشنے اور نئے چیلنج تلاشنے پر راغب کر بیٹھیں۔کمونزم کے انہدام کے بعدامریکہ نے مستقبل کے جن چینلجزکی نشاندہی کی ان میں پولیٹکل اسلام اور کنفیوشس تہذیب شامل تھی۔گزشتہ دو دہائیوں میںامریکہ مسلمانوں کا تعاقب کرتا رہا اس دور میں چین نہایت خاموشی کے ساتھ اپنی اقتصادی طاقت بڑھاتا رہا ۔تجارت کے نام پر دنیا میں مشرق سے مغرب تک اپنا سکہ جماتا رہا ۔اپنے کھانوں کے ذریعے دل تک اترنے کا شارٹ کٹ اپناتا رہا اپنی سستی مصنوعات کے ذریعے عام آدمی کا من مو ہ لیتاچلا گیا۔ اپنی دیوہیکل ترقی کے ذریعے دنیا کے دماغوں کو چکراتا اور ان کی نگاہوں کو خیرہ کرتا رہا ۔چین کا سٹائل خاموش ،باوقار اور غیر محسوس پیش قدمی رہا اس لئے امریکہ کی آنکھ اس وقت کھلی جب چین ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت کے طور پر میدان میںموجود تھا۔چین کو محدود رکھنا اور اس کے گرد گھیرا ڈالنا برسوں پرانا منصوبہ تھا مگر یہ کام ہزاروں میل کی دوری سے نہیں ہو سکتا تھا اس کے لئے چین کے ارد گرد ایسے شراکت دار تلاش کئے جا رہے تھے جو دائیں بائیں سے چین کے اثررسوخ کو بڑھنے سے روکے رکھیں۔بھارت چین کا ہمسایہ بھی تھا اور دونوں میں تزویراتی اختلافات بھی تھے اس لئے اس کام کے لئے بھارت پر امریکہ کی نظریں بہت پہلے جمی ہوئی تھیں۔چین کے گھیرائو میںجنوب مشرقی ایشیا کی جانب سے جاپان ویت نام جنوبی کوریا اورجزائر ملاکا کی طرف سے آسڑیلیا اور دوسرے ملکوں کو سرگرم کرکے بھارت کے ساتھ ان کا ایک سٹریٹجک اتحاد بنانا مقصد تھا ۔اس سکیم میں صرف ایک رکاوٹ تھی اس کا نام پاکستان تھا ۔پاکستان اس سکیم کو ناکام بھی بنا سکتا تھا اور کامیاب بھی مگر امریکہ کی بدقسمتی یہ تھی کہ پاکستان چین کے ساتھ گہرے دفاعی تعلقات کی ڈور میں بندھا تھا اور دونوں اس راہ پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے کی قسموں اور وعدوں کی زنجیر میں بندھے تھے ۔پاکستان کے لئے حکم یہ تھا کہ چین سے اپنا راستہ الگ کرے اوربھارت کے ہاتھ مضبوط کرے۔پاکستان نے اس کے لئے نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط رکھی تھی ۔اسی شرط کی تکمیل کے لئے نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی امریکہ کی سرپرستی میں پاک بھارت ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز ہوگیا ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور تعلقات کے رنگ برنگے پروجیکٹس لانچ کئے جانے لگے اور ان پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ۔دونوں ملکوں میں سیاسی تنازعات کو پس پشت ڈال کر اقتصادیات کو بنیاد بنا نے کی سوچ کو فروغ دیا گیا مگر یہ کوشش اس لئے کارگر نہیں ہوئی کہ بھارت کشمیر پر ٹھوس اور زمینی سطح پر کوئی رعائت دینے پر تیار نہ ہوا ۔یہی وجہ ہے پاکستان کی ہئیت مقتدرہ نے مسئلہ کشمیر پر کیمپ ڈیوڈ طرز کے منصوبے کو نوازشریف اور جنرل مشرف کے دو ادوار میں اس وقت ناکام بنایا کہ جب دونوں ملک معاہدوں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے ۔یہ بیل اس قدر منڈھے چڑھ چکی تھی کہ میاںنوازشریف نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اب بھارت پاکستان کا دشمن نہیں رہا۔دو نوں کوششوں کی ناکامی کے بعد بھارت کو یہ انداز ہ ہوا کہ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کشمیر پر کوئی ٹھوس رعائت حاصل کئے بغیر کسی پائیدار اور حتمی سمجھوتے پر آمادہ نہیں ۔جس کے بعد سردجنگ کے آخری مرحلے کی طرح سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان پسنے کے انداز میں پاکستان چین اور امریکہ کی کھینچا تانی میں پھنس کر رہ گیا ۔پاکستان پنڈولم کی طرح امریکہ اور چین کے درمیان جھولتا رہا مگر اس کا زیادہ اور دلی جھکائو چین کی طرف ہی رہا ۔اسی زورا زوری میں چین نے اپنے برسوں پرانے سی پیک کا بلو پرنٹ میز پر رکھا اور پاکستان نے اسے قبول کیا ۔سی پیک منصوبہ چین کو وسط ایشیا ،خلیج اور یورپ سے ملانے کا منصوبہ تھا اور اس راستے کو بند کرنے سے ہی چین کے گرد قائم کیا جانے والا حصار مکمل ہوتا تھا۔موجودہ صدر ژی جن پنگ کے دور میں چین نے اپنی روایتی ڈھلی ڈھالی پالیسی کو تھوڑا اعتماد کے ساتھ آگے بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی ۔چین عالمی اور علاقائی معاملات پر ایک واضح لائن اختیار کرتا نظر آنے لگا۔امریکہ نے جنوبی ایشیا کو بھارت کی عینک سے دیکھنا اپنی عادت بنالی اور اسی کا اثر تھا کہ امریکہ نے چین کے مقابل بھارت کو ہر قیمت پر کھڑ ا کرنے کا راستہ اپنایا ۔اس سے بھارت کی حکمران اشرافیہ نخوت اور تکبر کی ہوائوں میں اُڑتی چلی گئی ۔امریکہ کے پڑھائے ہوئے سبق کے مطابق بھارت نے اپنی سرحدی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے سڑکوں کا جال بچھانا شروع کیا ۔چین کے ساتھ تقریباََ پنتیس سو کلومیٹر طویل سرحد پر 608 کلومیڑ کی ستائیس رابطہ سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں جابجا کشیدگی پیدا ہوتی چلی گئی کیونکہ بہت سے مقامات پر سرحدوں کو پوری طرح تعین بھی نہیں۔ یہ سرحدتینوں سیکٹرز میں تقسیم ہے ۔مغربی سیکٹر میں لداخ وسطی سیکٹر میں ہماچل پردیش اتراکھنڈ،سکم اور مشرقی سیکٹر میںارونا چل پردیش تک جاتی ہے۔اس سرحد میں دوردرجن مقامات پر چین اور بھارت کے درمیان تنازعات ہیں۔دونوں ملکوں کے اختلافات اب سرحدی کھینچا تانی تک نہیں سٹریٹجک میدانوں تک وسیع ہو چکے ہیں ۔دھرمسالہ میں قائم دلائی لامہ کی سربراہی میں تبت کی جلاوطن حکومت کے بعد سی پیک کی اندھی مخالفت نے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو کشیدگی سے بھردیا ہے۔بھارت علاقائی ملکوں میں چین کے اثر رسوخ سے خوف کھانے کے علاوہ اس کی تجارت کو بھی حسد کی نظر سے دیکھتا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کا سب سے توانا مخالف چین ہے اور یہ بات بھی بھارت کو کھٹک رہی ہے۔ 2012میں پہلی بار بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا کہ لداخ کے علاقے میں چینی فوج نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو عبور کرنے کو معمول بنا لیا ہے اور پیپلز لبریشن آرمی بہت آہستہ روی کے ساتھ ان علاقوں میں پیش قدمی کر رہی ہے۔بھارتی میڈیا کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال میں بھارتی فوج نے 600مرتبہ سرحد عبور کی۔بیجنگ نے ہمیشہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف ورزی کی خبروں کی تردید کی ۔2017میں بھوٹان کے قریب ڈوکلام کے علاقے میں دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں ۔ہاتھا پائی ہوئی ۔کشیدگی کا یہ سلسلہ تہتر روز تک جاری رہا ۔خطے پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہے یہاں تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر ژی جن پنگ نے چین کے شہر ووہان میں ملاقات کرکے کشیدگی کے اس دور کو ختم کیا۔پانچ اگست کو بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت کو آن واحد میں ختم کردیا ۔ ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر یونین علاقوں کا درجہ دے دیا ۔کشمیر کی نمائشی داخلی خودمختار ی ختم ہو کر رہ گئی ۔یہ پاکستان کے ساتھ تمام رابط وتعلق ختم کرنے کا حتمی فیصلہ تو تھا ہی چین کو بھی للکارنے کا انداز تھا۔
پانچ اگست کے فیصلے کے حکمت کار بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ریاست جموںوکشمیر کے بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور اکسائے چن بھی ہوتا ہے ۔اکسائے چن ریاست جموں وکشمیر کا وہ علاقہ ہے جو پاکستان نے ایک معاہدے کے تحت چین کے کنٹرول میں دیا ہے اور اس معاہدے میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ کشمیر کے حتمی فیصلے کے وقت ان علاقوں کے مستقبل کا بھی تعین کیا جائے گا ۔گویاکہ چین اور پاکستان دونوں اکسائے چن کو باقی ریاست کی طرح متنازعہ سمجھتے ہیں۔پانچ اگست کے بعد بھارت نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی دھمکیوں میں شدت پیدا کی ۔یہ اکسائے چن کے حوالے سے چین کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی ۔اکسائے چن سے چین کے دواہم حصوں کو ملانے والی قومی شاہراہ بھی گزرتی ہے اور یہی علاقہ چین کی ایک وسیع دنیا میں کھلنے والی کھڑکی اور مستقبل کے پوشیدہ امکانات کا جہان ہے۔یہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منبع ہے ۔ اس سے پہلے کہ بھارت کوئی مہم جوئی کرتا چین نے گیلوان وادی میں پیش قدمی کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔اس دوران نے بھارت نے چین کی جنوب مشرق کی طرف سے چین کی کلائی مروڑنے کے لئے تائیوان میں بغاوت کے شعلوں کو ہوا دینا شروع کی۔ تائیوان میں بھارتی مداخلت کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چینی کی برتری کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی ہے ۔چین کے خلاف امریکی حکمت عملی اور اس میں بھارت کے بروئے کار لانے کی اس کوشش کو امریکہ کے سابق نیول چیف جیمز سٹر وائیڈرس نے یوں بیان کیا ہے ۔
”Key to the US is to gradually bend chinese behavior with out breaking the international relationship in a way that leads in to a cold war or armed coflict .The best way to do that is bring more international allies in to the navigation patrols”
چین کے خلاف امریکہ کی وسیع تر حکمت عملی کو بیان کرتے ہوئے امریکی نیول چیف نے براہ راست تصادم یا کوئی سر دجنگ چھیڑنے کی بجائے چین کے گرد دوستوں اور اتحادیوں کا ایک حصار قائم کرنے کی بات کی ہے ۔یہ ایک طرح کی پراکسی جنگ ہے جوچھپ چھپا کر وار کرنے کے تصور کے گرد گھومتی ہے۔سابق امریکی نیول چیف چین کے خلاف بھارت کو بروئے کار لانے کی بات یوں بیان کر رہے ہیں۔
”Many countries in the region will welcome a stronger Indian role.Given the maritime balance a relatively small navel expeditionary force can have a dispropotionate impact in a theatre that Bejing is actually worried about.New Delhi,smessage should be”Do not poke us here and we will not poke you there”.
گویاکہ امریکہ کے سابق نیول چیف بتارہے ہیں چین کے گھیرائو میں خطے میں قائدانہ رول بھارت کا ہوگا اور دوسرے ممالک سے بخوشی قبول بھی کریں گے ۔ساتھ ہی وہ کہہ رہے ہیں کہ دہلی کو چین پر واضح کرنا چاہئے کہ ہمارے ساتھ یہاں (لداخ میں) مت چھیڑو ہم تمھارے ساتھ وہاں ( جنوبی چین کے سمندروںمیں ) نہیں چھیڑیں گے ۔چین نے گلوان وادی میں کارروائی کرنے میں پہل کر کے بھارت کے لداخ کے راستے گلگت بلتستان کی طرف پیش قدمی میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی فوجی سربراہوں اور مشیر قومی سلامتی اجیت دووال سمیت کئی اہم افراد سے ملاقاتیں کر کے صورت حال کاجائزہ لے چکے ہیں ۔چینی صدر ژی جن پنگ پیپلزلبریشن آرمی کو جنگ کے لئے تیار رہنے کا حکم دے چکے ہیں ۔یوں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا ماحول بنتا جا رہا ہے ۔اگر ایشیا کی دوایٹمی طاقتوں کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے تو یہ صرف دوملکوں کا تنازعہ رہے گا نہ اس کے اثرات دو ملکوں تک محدود رہیں گے ۔اس کے فوجی اور اقتصادی اثرات سے پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے ۔اس سے پورے خطے میں پیدواری صلاحیت اور شرح نمو بری طرح متاثر ہو سکتی ہے ۔

حصہ