ڈاکٹرز، ڈالرز اور سوشل میڈیا

393

ایک بار پھر یہ ہفتہ پاکستان بھر میں سوشل میڈیا کے گہرے اثرات ظاہر کرنے کا سبب رہا۔ کورونا وائرس کے تناظر میں پاکستان میں حکومتی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات کی قلعی کھولنے کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا خاصا متحرک نظر آیا۔حکومت کی جانب سے برسوںسے تعلیم ، صنعت، معیشت، صحت ،ٹرانسپورٹ کے اقدامات سب کی قلعی کھل گئی ۔یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر کورونا متاثرین کے الحمدللہ روبہ صحت ہوجانے کے بعد کے تاثرات بھی خاصے مقبول رہے اور استفادہ عام کے لیے بھرپور انداز سے پیش کیے جاتے رہے تاکہ لوگ پریشان نہ ہوں۔اس کار خیر میں ہمارے دوست سید عبد الرشید سے لے کرفواد احمد پھر ڈاکٹر تبسم تک کئی لوگ شامل رہے۔
سوشل میڈیا پر محلہ کی آپا کے عنوان سے سب سے وائرل پوسٹ ، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی تازہ صورتحال کا نقشہ کھینچتی دکھائی دی۔’’آج صبح محلے کی آپا جی گھر آئیں۔ گرمی، مہنگائی اور رشتہ داروں کی بے حسی پر دو گھنٹے گفتگو کی۔میں نے چائے کا پوچھا تو انہوں نے جوس کے بعد بیکری کے سامان کے ساتھ قہوہ پینے کی خواہش کی کہ آج کل لیموں اور قہوہ کورونا میں بہت مفید ہے۔2 گھنٹے بعد جاتے ہوئے خوب دعائیں دیں اور بولیں: اب ان شاء اللہ 15دن بعد ملاقات ہوگی، پوچھا کہ کیوں ؟ تو جواب دیا کہ ڈاکٹروں نے مجھے 2ہفتہ کے لئے ’قرنطینہ‘ بتادیا ہے، کہہ رہے تھے اس دوران کسی سے بھی نہیں ملنا جلنا، تو میں نے سوچا آج ہی سارے محلے والوں سے مل آؤں، آخر محلے داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔‘‘
پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد و صورتحال دونوں بتدریج خراب ہوتی جا رہی ہیں۔ احتیاط نہ کرنے اور صورتحال بے قابوہونے پر دوبارہ سخت لاک ڈاؤن کی خبریں آ رہی ہیں، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پریشر بڑھ رہا ہے کیونکہ عالمی وبا ہونے کی وجہ سے ورلڈ میٹر پر سب کی نظر ہے۔ایسے میں سب سے بڑھ کر کورونا کے علاج کے لیے طبی عملہ بشمول ڈاکٹرز کے لیے اقدامات اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔شروع میں تو حکومت و میڈیا صرف سیلیوٹ کر کے کام چلاتے رہے مگر وبا نے پھیلاؤ میں تیزی دکھائی اور جوں جوںڈاکٹرز و طبی عملہ اس وبا کا شکار ہونا شروع ہوا بلکہ موت کے منہ میں گیا تو مزید حالات خراب ہوئے ۔پہلے لفظ SOPکا چرچا ہوا اس کے بعد PPEکا شور مچنا شروع ہوا۔تا دم تحریر پاکستان بھر کے کئی ڈاکٹرز و طبی عملہ اس وائرس کا شکار ہیںاور دسیوںڈاکٹرز و عملہ اس وائرس سے لڑتے لڑتے جہان فانی سے کوچ بھی کر گئے اور بلا شبہ کئی صحت مند بھی ہو ئے ہیں۔ مگر اس دوران اُن سب کو کم از کم 20دن آئسولیشن میں گزارنے پڑے ہیں اور اس دوران اُن کے عمومی مریض رُلتے رہے ہیں۔یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دُنیا بھرمیں ہوا، اٹلی میں 9اپریل تک کوئی 100ڈاکٹرز کورونا سے مر چکے تھے (الجزیرہ نیوز)۔ 200کے قریب برطانیہ میں ڈاکٹر و طبی عملہ کی کورونا سے اموات رپورٹ ہوئی: بحوالہ دی گارجین (16اپریل)۔اسی طرح بھارت میں بھی ڈاکٹرز کی اموات کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔امریکہ میں بھی 3مئی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2درجن سے زائد کورونا سے طبی عملے کی اموات رپورٹ ہوئیں۔
صرف یہی نہیںبلکہ ڈاکٹرز و ہسپتالوں کے لیے سوشل میڈیا پر یہ بھی شور مچایا گیا کہ یہ مریضوں کو کورونا میں ڈال کر حکومت و عالمی ادارہ صحت سے ڈالر وصو ل کر رہے ہیں۔ اس کا اظہار سوشل میڈیاپر ہسپتالوں میں متاثرین کے لواحقین کی جانب سے کئی موبائل ویڈیوز سے بھی ہوا۔بہر حال یہ ’مریض کے بدلے ڈالر لینے والا‘پروپیگنڈا خاصا مضبوط تھا۔دوسری جانب دھڑا دھڑ ڈاکٹرز بھی مرنا شروع ہو رہے تھے ۔ اب یہ بات بھی ابتداء ہی میںبتاتا چلوںکہ جس طرح پولیس، حکومت، سیاست دانوں،وکلاء پر عوام کے اعتماد کا معاملہ ہے ویسے ہی ایک درجے میں ہسپتالوں و ڈاکٹرز کو بھی لالچی، قصائی ، کمیشن مافیا کہا جاتا ہے۔ادویہ ساز کمپنی کے ساتھ ڈاکٹرز کے تعلقات کی داستانیں ہوں یا دیگر معاملات ڈاکٹرز کے لیے بحیثیت مجموعی تاثر ایسا ہی بنا ہوا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب ڈاکٹرز یقینی طور پر ایسے ہی ہوں۔
اس پوری صورتحال میںاہل قلم و دانش کے ساتھ ساتھ سماج کے مختلف طبقات میں شعور بیدار کرنے میںبنیادی کردار تو پاکستان کی ایک غیر سیاسی فلاحی فاؤنڈیشن ’دعا‘کے سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم کا رہا جنہوں نے کورونا کی وبا کے تناظر میںسب سے پہلے ڈاکٹرز کے لیے اپنی فیس بک وال سے آواز بلند کی ۔پھریہی نہیں انہوں نے ڈاکٹرز کی تنظیم کو بھی اپنے ساتھ ہم آواز کیا ۔ انہوںنے محض سوشل میڈیا پر موثر ابلاغ کی قوت سے ثابت کیا کہ اگرآپ درست بات کہیں ، مدلل انداز سے کہیںتو اُس کو پذیرائی ملتی ہے اور وہ کئی مضبوط جھوٹے پروپیگنڈوںکو شکست دے سکتی ہے۔ہم نے بھی اس ہفتہ کے سوشل میڈیا حالات میںایسا ہی کچھ دیکھا۔گزرتے وقت و حالات کے ساتھ ملک بھر کے ڈاکٹرز نے بھی اُنکی درخواست پر اپنی دانست میں سماجی میڈیا کی اہمیت سمجھتے ہوئے سب کو متنبہ و متوجہ کیا۔آج حال یہ ہے کہ ٹی وی چینلز اُنہیں بلا کر پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہوگا ؟ اب کیا کریں؟ کس نے کیا کیا؟ وہ وائرس جس نے شہر کے شہر ملک کے ملک، مساجد، گرجا ، اسکول کالج سب بند کرادیئے تھے یا اُسکی موجودگی یا اُس کی شدت پر اس عید تک تو سب شک میں ہی مبتلا محسوس ہوئے ۔لاک ڈاؤن کمزور کرتے وقت یہ تک تبصرے کرنے پڑے کے ’ لوگوں کو احساس نہیں کہ ایک عید کا جوڑا پھرکفن تک لے جائے گا ،‘‘پھر ایسا ہی کچھ شروع ہوا ، ادھر عید کا سیزن گزرا ، دوسری جانب ہسپتالوں میں سینما کی مانند ہاؤس فل یعنی ’ہسپتال فل‘ کا بورڈ آویزاں ہوگیا۔
مارچ سے لے کر تین ماہ بعد بالآخر جون میںپیما کے ڈاکٹرز کی دوسری پریس زور دار پریس کانفرنس کے بعد اُن کی اپنی نظریاتی سیاسی جماعت کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس دلایا گیا تو انہوں نے بھی ایک پریس کانفرنس اور شہر بھر میں بینرز آویزاں کرکے ڈاکٹرز، مریض، ہسپتالوں کی حالات کی سنگینی کا اظہار کیا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں، انتہائی غیر معموی صورتحال ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ بات سب کو پہلے ہی بتائی جا چکی تھی۔ حکومت نے کوئی دو ماہ کے قریب یہ بات سمجھانے کے لیے ہی لاک ڈاؤن کیا کہ لوگ گھروں پر مقیم رہیں، ماسک پہنیں، احتیاط کریں ورنہ یہی ہوگا جو آج ہو رہا ہے۔سوچیں کس درد کے ساتھ اس فون کو ہینڈل کیا ہوگا ایک درد مند دل رکھنے والے ڈاکٹر کی وال سے ،’’دور طالب علمی میں کسی مباحثے میں شکست ناقابل قبول ہوا کرتی تھی- کسی سیاسی بحث میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو ذلت سمجھتے تھے۔آج دن بھر جب اکھڑتی سانسوں کے کچھ مریضوں اور ان کے اہل خانہ میں سے کچھ کے فون موصول ہوئے اور ایک ہی بات تھی کہ ’کسی ہسپتال میں داخلہ دلوادیں‘تو خیال آیا کہ ’ کاش کورونا کے حوالے ہم ( ڈاکٹرز) ہر بحث میں شکست کھاجاتے۔کاش ’نظریہ سازش ‘بیان کرنے اور جھوٹ گھڑ کر لکھنے والوں کا موقف ہی درست ہوتا!کاش! ہم غلط ہوتے!ایک کروڑ پتی فیملی کے ایک نوجوان نے بتایا کہ بڑے بھائی کو گزشتہ رات کئی ہسپتالوں میں لے کر گھومتے رہے،جگہ نہیں ملی، صبح دم توڑ گئے۔باقی گھر کے تمام افراد بھی اب کورونا میں مبتلا ہیں!تدفین کے انتظامات کے لیئے رہنمائی اور مدد درکار ہے!‘۔ اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعہ کراچی خصوصاً باقی ملک بھر میںایسے ہی منظر نامے پیش کیے جا رہے ہیں۔ کیا حکومت کیا اپوزیشن، کیا امیر کیا غریب، کیا اداکار کیااینکر سوشل میڈیا پر اس ہفتہ تو ان سب ہی کے متاثر ہونے ، دُنیا سے جانے اور صحت کی دعاؤں کی اپیلوں سے بھرا رہا۔وہ جو تین ماہ پہلے تک یہ کہتے تھے کہ تمہارے کسی جاننے والے کو ہوا ہے ؟آج وہ سب روتے اور خوف زدہ نظر آتے ہیں۔مرنے والوں، متاثرین کی بڑھتی تعداد کے بعد ایک بار پھر تمام نیوز ہیڈ لائنز میں کورونا نمبر ون پر آگیا ہیتو سوشل میڈیاپر تو لازمی اثرات پڑنے تھے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ اخلاص، علم، تجربے و بڑے وژن کے ساتھ ایک انسان بھی کافی ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا جب ابتدا میں تھی تو سب جانتے ہیں کہ کس طرح مختلف نظریات و باتوں نے اسے غیر سنجیدہ موضوع بنانے کی کوشش کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سندھ حکومت نے سب سے پہلے اسکولز بند کیے ، پھر لاک ڈاؤن میں پہل کی ، لیکن عوام کو تو جیسے بالکل بھی یقین نہیں آیاتھا۔بہر حال شروع میں سب کے سب کورونا کے اثرات کے بجائے لاک ڈاؤن کے اثرات میں لگ گئے یعنی راشن دینے دلانے میں، وہ بھی ضروری کام تھا لیکن اس کے ساتھ ہی جو ضروری کام تھا وہ تھا آگاہی کا۔ ایسے میں جب سب کورونا کے ماہرین نے ہوئے تھے، ڈاکٹر فیاض کی جانب سے اس ضمن میں ایک بنیادی کام یہ ہوا کہ اس پر افواہوں سے بچنے اور خود ساختہ ماہرین کی آراء میں پھنسنے کے بجائے متعلقہ ڈاکٹرز کو ہی شامل کیا گیا۔ جب سب کچھ لاک ڈاؤن میںبند تھا ، ہسپتالوںمیںاو پی ڈی معطل کر دی گئی تھی ، ہر مریض کو کورونا بنانے کی افواہوں میںلوگ ہسپتالوں سے خوف زدہ ہو رہے تھے۔ ایسے میں ڈاکٹر فیاض کی سماجی میڈیا وال سے مستقل ہرنئے پروپیگنڈے کے جواب کے لیے آگاہی ویڈیوز کا سلسلہ جاری رہا، چاہے وہ ٹیسٹ کے حوالے سے ہو یا کورونا کی علامات کے لیے، کورونا کے دوران احتیاط و علاج سے متعلق تدابیر ہوں یا مریضوں کے تجربات ، اُن کی فیس بک وال سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بھر پور انداز سے مثبت استعمال کیا گیا ۔یہی نہیں انہوں نے دیگرممالک کے مسلم رہنماؤں کو بھی اس میں شامل کیا اور اُن سے ویڈیو پیغامات منگوائے اور اُنکو بھی موثر ابلاغ کے لیے استعمال کیا۔ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کو بچانے کے لیے اُنکی حفاظتی کٹس یعنیPPE( پرسنل پرو ٹیکٹیو ایکویپمنٹ) کی ضرورت کا احساس دلا کر اُسے پاکستان بھر کے حتی الامکان ہسپتالوں میں فراہم کرنا ، پھر آکسی میٹر و آکسیجن سلنڈرز کی ضرورت و اہمیت کب کیوں،ا ستعمال کی تربیت اور اُس کا انتظام کرنے میں پہل کرنا، جب حکومت کی جانب سے غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے تو اُس کی تصحیح کے لیے شدو مد سے آواز بلند کی ، یہ موقف سوشل میڈیا پر خوب وائرل رہا۔’’یہ انتہائی ڈھٹائی سے میڈیا کے سامنے کہتا ہے کہ’پاکستان میں کورونا کے مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز اور آئی سی یو بیڈز کی کوئی کمی نہیں ہے۔پتا نہیں کس سیارے پر رہتا ہے یہ آدمی؟اس کے ذرائع معلومات کیا ہیں؟ہمارے اہل صحافت اس کو کراچی آنے کی دعوت کیوں نہیں دیتے؟ڈاکٹروں کی تنظیمیں اس کے ’سچے ‘ دعوؤں کی قلعی میڈیا کے سامنے کیوں نہیں کھولتیں؟اسی طرح سے ڈالرز والے ایشو پر بھی ڈاکٹر فیاض نے خوب آواز بلند کی ۔’’جب آپ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو بلاوجہ کورونا کا مریض بنایا جارہا ہے تو آپ دراصل آپ پوری ڈاکٹرز کمیونٹی کو بدنام کرتے ہیں،اور انتہائی غلیظ بہتان لگاتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں مریض الگ پریشان ہوتے ہیں اور مریضوں کے لیئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے والے ڈاکٹروں کی زندگیوں کو مشتعل لوگوں سے خطرات الگ پیدا ہوجاتے ہیں!براہ کرم اس قسم کی فضولیات سے پرہیز کیجئے!جب لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو بلاوجہ کورونا کا مریض کیوں بنادے گا؟وینٹی لیٹر پر کیوں ڈال دے گا؟اس کی کوئی وجہ تو ہونی چاہیے!جواب ملتا ہے کہ ڈاکٹروں کو ڈالر مل رہے ہیں! کون دے رہا ہے؟ کیوں دے رہا ہے؟کیا ڈالر ناظم آباد کے کسی پریس مشین پر چھپ رہے ہیں۔ملک میں ڈالر آئے تو اس کا ایک طریقہ کار ہے۔ آپ کے پاس اس سنگین بہتان کا کوئی ثبوت ہے؟جواب یہ ہوتا ہے کہ ’ واٹس اپ آیا تھا‘۔فیس بک پر دیکھا تھا۔فلاں ابن فلاں نے بتایا اور ڈاکٹر زتو ویسے ہی لالچی ہوتے ہیں!پھر اب اگلی محفل میں یہی مخلوق بالکل الٹی بات کررہی ہوتی ہے۔’ہسپتال مریضوں کو بھگا رہے ہیں۔ڈاکٹروں نے عجیب تماشہ بنادیا ہے۔مریض رل گئے ہیں؟‘اچھا ایسا کن ہسپتالوں میں ہوا ہے؟آپ کو تو چیونٹی بھی کاٹ لے تو مجھے فون کرکے مشورہ لیتے ہیںاور رات دن کا لحاظ نہیں کرتے تو اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوا تو آپ نے مجھے فون کیوں نہیں کیا۔جواب ملتا ہے کہ ’ واٹس اپ پر آیا تھا‘۔عمران خان سے درخواست ہے کہ کینسر کے ہسپتال کے بعد نفسیاتی امراض کے بہت بڑے ہسپتال کے منصوبے پر کام کریں۔ ان کی کابینہ کے کچھ اراکین سمیت بہت سوں کو داخلے کی ضرورت ہے۔

حصہ