سید مودودیؒ کی نماز جنازہ میں شمولیت کی سعادت

533

ڈاکٹر اسرار احمدؒ
اگست ۱۹۷۹ء کا وسط تھا اور رمضان المبارک ۱۳۹۹ھ کا آخری عشرہ شروع ہونے والا تھا جب میرے پہلے سفر امریکا کی تیاری مکمل ہوئی‘ اور امید ِواثق ہوئی کہ اگر کوئی نادیدہ رکاوٹ پیش نہ آ گئی تو میں ہفتہ عشرہ میں بالٹی مور پہنچ جائوں گا۔ اندریں حالات ایک روز اچانک ایک خیال ذہن میں بجلی کی طرح کوندا… آج کل مولانا مودودی بھی امریکا ہی میں مقیم ہیں۔ کاش کہ وہاں ان سے ملاقات کی صورت نکل آئے! اُس وقت تک امریکا کے جغرافیہ کے بارے میں میری معلومات بس موٹی موٹی باتوں تک ہی محدود تھیں اور اس کی ریاستوں اور شہروں کے محلِ وقوع کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں‘ لہٰذا کچھ اندازہ نہ تھا کہ میرا امریکا کے جن جن شہروں میں جانے کا پروگرام تھا‘ بفلو جہاں مولانا کا قیام تھا‘ ان میں سے کسی کے آس پاس واقع ہے یا نہیں اور وہاں بآسانی جانا ممکن ہو گا یا نہیں‘ تاہم ایک خواہش تھی جو مسلسل زور پکڑتی چلی گئی یہاں تک کہ اس نے ’’ارادے‘‘ کی صورت اختیار کر لی کہ حتی الامکان اس سفر کے دوران مولانا سے ملاقات کی کوشش کروں گا۔ اس پر فطری طور پر بہت سی بھولی بسری باتیں بھی ذہن میں تازہ ہوئیں اور بہت سے سوئے ہوئے جذبات و احساسات بھی ازسر نو بیدار ہوئے اور فی الجملہ قلب و ذہن پر اس کیفیت کا تسلط سا ہو گیا جو اس شعر میں بیان ہوئی ہے کہ ؎۔

ترکِ تعلقات بھی عینِ تعلّقات ہے
آگ بجھی ہوئی نہ جان آگ دبی ہوئی سمجھ!۔

ان کیفیات میں جب کبھی یہ خیال آتا تھا کہ مولانا سے یہ ملاقات پورے سو استرہ سال بعد ہو گی تو ایک عجیب سی حسرت آمیز مسرت کا احساس ہوتا تھا جس کی تعبیر الفاظ کے ذریعے ممکن نہیں۔
لاہور سے ہفتہ ۱۸ اگست ۱۹۷۹ء کی شام اور کراچی سے ۲۱ اگست کو علی الصبح ڈیڑھ بجے روانہ ہو کر میں اسی تاریخ کی رات کو ساڑھے نو بجے امریکا میں اپنے پہلے ’’مقام‘‘ بالٹی مور جا پہنچا۔ اس سفر کے بعض نہایت دلچسپ واقعات میں ایک ’’رودادِ سفر‘‘ کی صورت میں تحریر کر چکا ہوں جو ’’میثاق‘‘ کے جنوری‘ فروری ۱۹۸۰ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ بہرحال بالٹی مور میں میں نے اپنے میزبانوں سے اولین معلومات جو حاصل کیں وہ بفلو ہی کے بارے میں تھیں اور میرے دل کی کلی ایک دم کِھل اٹھی اور امیدوں کے چراغ دفعۃً روشن ہو گئے جب مجھے معلوم ہوا کہ بفلو ٹورنٹو سے‘ جہاں مجھے اپنے اس سفر کے دوران سب سے طویل قیام کرنا تھا‘ صرف سو میل کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں سے بفلو آنا جانا بآسانی ایک دن میں ہو سکتا ہے۔
یکم ستمبر ۱۹۷۹ء تک بالٹی مور واشنگٹن ایریا میں قیام کے بعد‘ دو دن ڈلاس میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا کے سالانہ کنونشن کی نذر کر کے ۳ستمبر کو ٹورنٹو پہنچا تو وہاں بھی اولین معلومات مولانا ہی کے بارے میں حاصل کیں۔ معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے۔ تاہم مقامی ’’حلقہ احبابِ اسلامی‘‘ (جماعت اسلامی کے وابستگان اور متاثرین نے نہ معلوم کن مصلحتوں کو بنا پر امریکا میں اپنے آپ کو جماعت کے نام سے منظم کرنے کی بجائے ’’حلقہ احباب اسلامی‘‘ کے نام سے صرف ایک ڈھیلے ڈھالے حلقہ احباب کی صورت دے رکھی ہے!) کے رفقاء کا مولانا کے صاحب زادے ڈاکٹر احمد فاروق سے مسلسل رابطہ قائم ہے اور ان شاء اللہ جلد ہی ملاقات کی صورت پیدا کر لی جائے گی۔ ایک دو روز بعد معلوم ہوا کہ مولانا کی انتڑیوں کی تکلیف بڑھ گئی تھی جس کے باعث ایک بڑا آپریشن کرنا پڑا اور اب ان سے ملاقات لگ بھگ دو ہفتے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔ اس سے فوری طور پر تو امید کے چراغ کچھ بجھتے سے محسوس ہوئے لیکن ساتھ ہی اﷲ کا شکر بھی قلب کی گہرائیوں سے ابھرا کہ ٹورنٹو میں میرے قیام کا پروگرام پہلے ہی سے دو ہفتے سے زائد طے تھا… البتہ ایک دوسری چیز جس کاذکر بار بار سننے میں آ رہا تھا‘ کسی قدر تشویش کی موجب بن رہی تھی اور وہ یہ کہ حلقۂ احباب کے اکثر ارکان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر احمد فاروق بہت سخت مزاج قسم کے آدمی ہیں۔ انہیں یہ تو بالکل ہی پسند نہیں ہے کہ کوئی ان کے والد سے ملاقات کے لیے آئے‘ فون پر بھی ان کا انداز بہت روکھا پھیکا ہوتا ہے۔ خود مجھے مولانا کے صاحب زادگان اور ان کے مزاج سے قطعاً کوئی واقفیت نہ تھی۔ جماعت اسلامی کے مرکز واقع ۵اے‘ ذیلدار پارک‘ اچھرہ میں جہاں مولانا اپنے اہل و عیال سمیت مقیم تھے‘ میری آمد و رفت زیادہ تر ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۴ء تک رہی تھی اور اُس وقت تک مولانا کے تمام صاحب زادے بہت چھوٹے تھے‘ چنانچہ میں ان میں سے نام بھی صرف سب سے بڑے کا جانتا تھا یعنی سید عمر فاروق مودودی کا۔ ڈاکٹر احمد فاروق مودودی کا نام پہلی بار اس وقت سننے اور پڑھنے میں آیا تھا جب مولانا چند سال قبل بغرضِ علاج لندن اور امریکا گئے تھے۔ باقی ان سے کوئی اور واقفیت قطعاً نہ تھی۔ بہرحال اس قسم کی باتوں سے دل ڈوبتا سا محسوس ہوا کہ اگر ’’حلقۂ احبابِ اسلامی‘‘ کے ارکان کے ساتھ مولانا کے صاحب زادے کا رویہ یہ ہے تو ’’تابہ من چہ می رسد؟‘‘ تاہم ارادہ بہرحال یہی رہا کہ ’’ہرچہ بادا باد‘‘ ملاقات کی کوشش ضرور کروں گا۔
اسی اثناء میں ایک روز مَیں ٹورنٹو کی بو سٹیڈ روڈ کی جامع مسجد میں بعد نماز مغرب قرآن مجید کا درس دے رہا تھا کہ ایک صاحب نے ایک رقعہ تھمایا جس میں تحریر تھا کہ مولانا مودودی پر عارضہ قلب کا حملہ ہوا ہے‘ ان کے لیے دعائے صحت کرا دیجیے! اس خبر سے خود میرے اعصاب پر شدید صدمے کا حملہ ہوا اور میں چند ل تو گم سم اور بھونچکا سا رہا۔ بعد میں اپنے حواس کو مجتمع کر کے میں نے حاضرین کو اس کی اطلاع بھی دی اور اجتماعی دعا بھی کی… تاہم پہلی بار مجھے کچھ ایسے محسوس ہوا کہ جیسے منزل عین نگاہوں کے سامنے آنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہو اور میرے ساتھ ’’تدبیر کند بندہ‘ تقدیر کند خندہ‘‘ والا معاملہ ہو رہا ہو۔
قیامِ ٹورنٹو کے دن پورے ہو گئے لیکن بفلو سے ملاقات کی اجازت موصول نہ ہوئی تو دل ڈوبنے سا لگا ‘لیکن دفعۃً پھر امید کی ایک کرن نمودار ہوئی اس لیے کہ ٹورنٹو میں میرے میزبان سمیع اللہ خان صاحب نے مانٹریال کے بعض احباب کے اصرار کی بنا پر وہاں کے سفر کا پروگرام بنا لیا۔ یہ سفر کار کے ذریعے ہوا اور اس میں تین دن صَرف ہو گئے۔ واپس آئے تو تازہ ترین اطلاع یہ ملی کہ اب مولانا کی طبیعت بہت حد تک بحال ہو چکی ہے اور ان شاء اللہ زیادہ سے زیادہ دو تین روز کے بعد ملاقات کی اجازت مل جائے گی۔ ادھر بعض احباب کی تحریک پر میری ایک وِزٹ (visit) شکاگو کی طے ہو گئی تھی اور ریز رویشن اس طرح ہوئی تھی کہ ٹورنٹو سے شکاگو جانا ہو گا اور وہاں سے براہ راست نیویارک جہاں سے واپسی کا سفر شروع ہو جانا تھا۔ میری خواہش پر احباب نے پورا پروگرام تبدیل کیا اور اب طے پایا کہ میں شکاگو میں دو تین دن قیام کر کے واپس ٹورنٹو آئوں اور یہاں سے بفلو جا کر احباب کی معیت میں مولانا سے ملاقات کروں اور پھر ٹورنٹو سے نیویارک روانہ ہوں۔ ٹورنٹو کے احباب کے میری خوشنودی کی خاطر اتنے اہتمام پر (جس پر یقینا پیسے کا صَرف بھی بڑھ رہا تھا) ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جمعہ ۲۱ستمبر کی سہ پہر کو میں شکاگو روانہ ہوا۔ شکاگو کا ذکر تو اس سے قبل بہت سننے پڑھنے میں آیا تھا‘ اور اکثر و بیشتر کسی اچھی بات کے ضمن میں نہیں بلکہ کسی نہ کسی برائی ہی کے سلسلہ میں آیا تھا‘ تاہم وہاں کسی سے کوئی ذاتی شناسائی نہ تھی۔ ٹورنٹو میں جو احباب میرے درس میں تسلسل اور پابندی کے ساتھ شریک رہے تھے ان میں سے ایک صاحب نے خود ہی خفیہ خفیہ اپنے ایک عزیز ڈاکٹر خورشید احمد ملک صاحب کو میری آمد کی اطلاع دے کر ان سے ’’دعوت‘‘ منگوالی تھی اور اب میں صرف ان کے نام کی واقفیت کے ساتھ شکاگو جا رہا تھا۔ شکاگو کے ’’اوہیئر‘‘ ایئرپورٹ پر جو صاحب لینے آئے وہ ڈاکٹر خورشید ملک نہیں بلکہ ڈاکٹر وصی اﷲ خان تھے۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر خورشید چونکہ خود کسی آپریشن کے سلسلے میں مصروف تھے‘ لہٰذا انہوں نے انہیں میرے استقبال پر مامور کیا ہے۔ جلد ہی یہ بات کھل گئی کہ یہ وہی ڈاکٹر وصی اﷲ ہیں جن کا ذکر لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ضمن میں جماعت وجمعیت کے حلقوں میں سننے میں آتا رہا تھا… بلکہ مزید انکشاف یہ بھی ہوا کہ ہم آپس میں دور نزدیک کی قرابت بھی رکھتے ہیں‘ یعنی ان کی والدہ صاحبہ اور میری والدہ ماجدہ دونوں ایک ہی خاندان سے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر وصی اﷲ خان نے مجھے تیس چالیس میل کا سفر اپنی کار پر طے کرا کے ڈاکٹر خورشید صاحب کے مکان واقع ڈائونرز گروپر پہنچایا‘ اور مجھے وہاں ڈراپ کر کے وہ خود بھی فوراً اپنی کسی مصروفیت کا عذر کر کے روانہ ہو گئے۔ اب میں تھا اور ایک خالص اجنبی ماحول‘ لیکن جلد ہی یہ سارے حجابات دور ہو گئے۔ ڈاکٹر خورشید صاحب کی والدہ صاحبہ نے جس شفقت و محبت کا اظہار کیا اور ان کے وجود کے روئیں روئیں سے جس سادگی اور اخلاص کی مہک آئی اس نے فوراً ہی ایسے محسوس کرا دیا کہ گویا میں اپنے ہی گھر میں اپنی ہی حقیقی والدہ کے زیرسایہ ہوں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر خورشید صاحب بھی آ گئے تو اندازہ ہوا کہ ’’اَلوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ‘‘ کے حق ہونے میں تو غالباً سب ہی کو اتفاق ہے لیکن یہاں اصل معاملہ ’’اَلوَلَدُ سِرٌّ لِوَالِدَتِہٖ‘‘ کا ہے۔ نہایت کھلے مزاج کے حامل اور خلوص و اخلاص کے پیکر کامل! مجھے اس وقت کچھ اندازہ نہ تھا کہ آئندہ میرے سالانہ سفر امریکا کا اصل باعث اسی شخص کو بننا ہے اور امریکا سے کل کا کل تعلق ان ہی کے واسطے سے ہو گا۔
(جاری ہے)

حکومت الہیہ

دنیا میں انبیا علیہم السلام کے مشن کا منتہائے مقصود یہ رہا ہے کہ حکومت الہیہ قائم کرکے اس پورے نظام زندگی کو نافذ کریں جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔

دعوئے ایمان

ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کا کوئی جز اور کوئی پہلو بھی اس دین سے خارج نہ ہو۔ اپنی کسی چیز کو جتنا اور جس حیثیت سے بھی آپ اس دین کے احاطہ سے باہر اور اس کی پیروی سے مستثنٰی رکھیں گے، سمجھ لیجیے کہ اسی قدر آپ کے دعوئے ایمان میں جھوٹ شامل ہے۔
٭…٭
سید مودودیؒ

قدر

قدر کی مستحق ہمیشہ وہی سوسائٹی رہی ہے جس میں نظم و انضباط ہو، تعاون اور امدادِ باہمی ہو، آپس میں محبت اور خیر خواہی، اجتماعی انصاف اور معاشرتی مساوات ہو۔

دعوت

جس طرح مجھے کل کا سورج نکلنے کا یقین ہے اتنا ہی مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر آپ نے اس دعوت کے کام کی شرائط کو پورا کیا تو ان شا اللہ آپ کامیاب ہوں گے۔
٭…٭
سید مودودیؒ

حصہ