لفظ روٹھ گئے جب

287

عالیہ زاہد بھٹی
کئی دن گزرے جب کاغذ پر قلم چلتا تھا تو لفظ بکھرتے تھے، تانے بانے ملتے تھے سلسلے وصل و جدا کے طویل چلتے تھے‘ کچھ شام غمِ ہجرِ یاراں،کچھ سود و زیاں کی بہاراں،کچھ دل رکھنے کی باتیں،کچھ اغیار کے دل جلنے کے حصے،کچھ ڈھوک سیال سے چہار درویش کی جھنکاراں،اور کچھ زلفِ گرہ کے حصے۔
یہ سارے قصے اور ان قصوں کے حصے اب ماضی بعید کی بتیاں ہیں جنہیں سناکر گزری اپنی رتیاں ہیں۔ مگر اب نہ وہ شام نہ شامِ غم،نہ وہ صحبتِ یاراں نہ وصلِ بہاراں اب تو مہیب سناٹے ہیں،سائے ہیں، بھیانک خاموشی، کہیں جاں سوز حادثے تو کہیں اس خاموشی کے عفریت سے نکلی اک نادیدہ وبا۔
وبا نہ لفظ پرانا ہے اور نہ ہی حادثوں کا نام انجانا ہے،نہ تو بیماریوں اور الجھنوں کا رستہ بیگانہ ہے سب کچھ وہی ہے اور سبھی کچھ پرانا ہے تو پھر ہماری دنیا اور اس میں بسنے والے لوگوں کے رویئے، ان کے الفاظ،ان کے انداز کیوں اس قدر مبہم اور لایعنی ہو گئے کہ یوں لگتا ہے کہ اس قوم کے الفاظ کھو گئے، دنیا والوں کے انداز بدل گئے یا پھر ان قصوں پر لکھنے، بولنے اور کہنے سننے والوں کے قلم، زبانیں اور کان سب کچھ راہزنوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئے، بنادیے گئے یا بننے دیے گئے۔
اک لفظ ہوتا تھا ’’اصلاح‘‘ جس کی کی جاتی تھی وہ تو سنورتا ہی تھا مگر جس کے ذریعے ہوتی تھی اثرات وہاں بھی مرتب ہوتے تھے۔ مگر آج ہم سب اسی زعم میں مبتلا کہ ہم ’’ناقابل اصلاح‘‘ہیں۔ ماضی میں یہ جملہ کسی کو بول دیا جاتا تو وہ بحر ندامت میں غرق ہو جاتا اور اپنی اصلاح کی درخواست کرتا کہ ’’خدارا! مجھے یوں تنہا نہ چھوڑا جائے مجھے شامل اصلاح ہی رکھا جائے۔‘‘
مگر آج یہ لفظ روٹھ جانے میں کچھ حصہ اس اصلاح کرنے اور اصلاح”سہنے”والوں کا بھی ہے۔ ماضی میں گھر کے بچوں کی اصلاح ہر”بڑے” کی ذمہ داری تھی۔ آج یہ حال ہے کہ ہم دہی میں بھی’’بڑے‘‘ نہیں ’’پھلکیاں‘‘ ڈالتے ہیں یعنی بڑے کا تصور بطور بڑا یا ’’بِگ‘‘ ہمارے ہاں متروک ہو گیا سو جب ’’بڑا‘‘ ہونے، سمجھنے، سمجھانے کا تصور متروک ہوا تو پھر بڑے اور چھوٹے کے بیچ میں تعلق جو کبھی تھا وہ بھی عنقا ہو گیا۔
آج کورونا ہے، ٹرین کا حادثہ ہے، طیارے کا حادثہ ہے، دکھ ہے، تکلیف ہے، بیماری ہے، افسردگی، پژمردگی، سال خوردگی ہے۔ اک نہیں ہے تو خود سپردگی نہیں ہے۔ وہ جو اپنے آپ کو اپنے بڑوں کی بانہوں میں سمٹوا کر جو اک دل بستگی اور سکون تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔
’’اللہ سب سے بڑا ہے۔‘‘ یہ لفظ تو نہ متروک ہوا نہ ہو سکتا ہے مگر اس لفظ کا تعارف دنیا میں آنے والے نئے بچوں، نئے افراد سے کرانے والے ’’بڑے‘‘ نہیں رہے۔ جب خود سپردگی کی وہ کیفیت ہو کہ خدا سپردگی تک پہنچ جائے تو یقین جانیں جس نے ہمیں چن کر بھیجا ہے اس فانی دنیا میں وہ ہمیں ڈوبنے نہیں دے گا‘ ٹوٹنے بھی نہیں دے گا۔ کہہ دیجیے اس سب سے بڑے سے کہ:
’’اے مالک! اے بڑوں کے بڑے! اے کارساز! اے دمساز! اے تھامنے والے! اے گرنے سے بچانے والے! اے ڈوبنے سے بچانے والے! اے جلنے سے بچانے والے! اے دبنے سے بچانے والے! اے ہر شر سے حفاظت فرمانے والے! ہمیں بچالے، ڈوب کر مرنے سے، جل کر مرنے سے، دب کر مرنے سے، گر کر مرنے سے ہماری حفاظت فرما اور ہمیں اپنی عافیت اور رحمت بھری پناہ میں لے لے آمین۔ اک بار بس اک بار اپنے بڑوں سے اور سب بڑوں کے بڑے اپنے رب سے جڑ کر دیکھ لیں۔ وہ جانتا ہے،مانتا اور سنتا ہے۔ ضرور سنے گا۔ بس اک بار سمجھ کر کہہ دیجیے۔ اللہ اکبر بس وہ سب سے بڑا ہے۔ کوئی مسئلہ، کوئی دکھ، کوئی بیماری،کوئی وبا، کوئی پریشانی، کوئی حادثہ اس شخص کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جو اپنے آپ کو دل کی گہرائیوں سے اس سب سے بڑے کے سپرد کر چکا ہو اور دن میں سو سو بار اس عہد کا اعادہ کرتا رہے۔
یقین جانیں یہ جو ہم حادثوں میں‘ دکھوں میں‘ وباؤں میں‘ پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ناں یہ سب اس گھڑی اس لمحے اس دن ذکر ’’‘اللہ اکبر۔‘‘ کی بھاری ڈوز سے محرومی رہی ہوگی‘ ہماری مصروفیت کہ جس کی وجہ سے ہم اس ’’اللہ اکبر‘‘ کے لفظ کو پوری جزئیات کے ساتھ حرزِ جاں بنا کر مشام جاں بنانا بھول گئے ہوں گے، وہی لمحہ زوال بن کر چھا گیا ہوگا۔
اردو ادب تو بھرا پڑا ہے اس جذباتی وابستگی کے دلبرانہ انداز سے کہ ’’جس دن بھلا دوں تیرا پیار دل سے وہ دن آخری ہو میری زندگی کا۔‘‘ اور تو اور محبوب کا جلوہ نظر نہ آنے پر آنکھیں اندھی ہوجانے کی بد دعائیں الامان الحفیظ۔ یہ تو عشق مجازی کی باتیں ہیں جن کو ہزار چاہتوں کے باوجود بھی موت آجانے پر چھوڑنا پڑے گا اور عشق حقیقی…؟ مجازی جب اتنا حقدار ہے تو حقیقی تو اس سے زیادہ کا متقاضی ہے ناں؟ روٹھے لفظ مان جائیں گے… اک بار بس اک بار کہہ دیں ’’اللہ اکبر‘‘ اور اس لفظ سے وابستہ تمام تر ذمہ داریاں ادا کرنے کی نیت کرلیں کہ نیتیں ہی تلتی ہیں عشق کے پلڑوں میں وگرنہ ہم جیسے خاک نشین کہاں جاتے۔

حصہ