وہ غیر ضروری ضروریات

322

افروز عنایت
اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے چند حقیقی جھلکیاں شیئر کروں گی جو میں سمجھتی ہوں کہ تحریر کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
بہو: (ساس سے) امی مجھے دو دن کے بعد ملازمت کے لیے جوائن کرنا ہے۔
ساس: (نئی نویلی دلہن کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے) ملازمت… مگر بیٹا… کیوں؟
بہو: میں نے دس بارہ دن پہلے اپلائی کیا تھا، آن لائن انٹرویو ہوا، اب ادارے کی طرف سے لیٹر آگیا ہے کہ میں پرسوں سے جوائن کرلوں۔
ساس: اس کی کیا ضرورت ہے؟ میرا مطلب ہے کہ… کچھ عرصے بعد کر لینا۔
بہو: امی مجھے ملازمت کا کوئی شوق نہیں ہے، لیکن وہ… مارکیٹ میں نیا موبائل آیا ہے، ایک لاکھ سے زیادہ قیمت ہے اس کی، مجھے بڑا شوق ہے اسے خریدنے کا… بس چند مہینے ملازمت کروں گی، پیسے جمع ہوگئے تو چھوڑ دوں گی۔
ساس بے چاری بہو کی بات کا کیا جواب دیتی! وہ تو انتظار کررہی تھی کہ گھر میں بہو آئے گی تو وہ اپنا آپریشن کروائے گی، بہو گھر کو سنبھال لے گی۔ لیکن بہو تو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے کوشاں تھی، اور اس کی خواہش بھی ایسی تھی جو بے ضرورت تھی۔
٭…٭
انعم: (شوہر سے) بچے وچے تو بعد میں بھی ہوسکتے ہیں، میری ایک دیرینہ خواہش ہے کہ پہلے ہم ایک بڑا سا گھر بنائیں، ہم دونوں اپنی تنخواہ میں سے مل کر بہت بچت کرسکتے ہیں جس سے ہماری نئے گھر کی دیرینہ خواہش پوری ہوسکتی ہے۔
٭…٭
احمد: شازیہ بات کو اور حالات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ کیا اس وقت ضروری ہے کہ تم یہ سونے کے کنگن بنوائو! ویسے بھی تمہارے بھائی کی شادی ہے، کپڑوں وغیرہ کی تیاری… یہ سب کیسے ممکن ہوگا! میرے خیال میں اس موقع پر یہ کوئی خاص ضروری چیز نہیں کہ میں آفس سے قرض لے کر تمہاری یہ ضرورت پوری کروں۔
٭…٭
مندرجہ بالا نوعیت کے واقعات ہمیں اپنے چاروں طرف نظر آتے ہیں کہ ہم نے غیر ضروری چیزوں کو اپنے اوپر سوار کرلیا ہے۔ جبکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر ہمارا آسانی سے گزارا ہوسکتا ہے۔
٭…٭
ہر سال کی طرح اِس سال بھی رمضان المبارک میں دورۂ قرآن اور تفسیر قرآن کو سننے کا موقع ملا، گرچہ اِس مرتبہ براہِ راست یہ سعادت حاصل نہ ہوسکی لیکن الحمدللہ جماعت کی طرف سے اور دوسرے ذریعوں سے بھی ’’آن لائن‘‘ تفسیر قرآن سننے کا موقع ملا۔ ہر مرتبہ تفسیر قرآن اور دورۂ قرآن سے ضرور کوئی ایک بات دماغ کو جھنجھوڑتی اور سوچنے پر مجبور کردیتی ہے جس پر میرا یہ ناتواں قلم حرکت میں آجاتا ہے۔ اِس مرتبہ بھی مقررہ آمنہ عثمان کی بات کہ ’’غیر ضروری خواہشات جن کو ہم نے اہم ضروریات بناکر اپنے نفس پر سوار کرلیا ہے…‘‘ سن کر مندرجہ بالا واقعات ذہن کے دریچوں پر دستک دینے لگے۔
اس قسم کے واقعات آپ کے اردگرد بھی پیش آتے رہتے ہوں گے۔ ان بے جا چیزوں کو ہم نے آج اپنی لازمی اور اہم ضروریات بنا لیا ہے کہ ان کے بغیر ہمارا گزارا ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ ہمارے دل و دماغ پراس طرح سوار ہوگئی ہیں کہ ہم ان کو حاصل کرنے اور اپنانے کے لیے مشکلات کا سامنا بھی کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ایسی ہی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کے لیے بندہ ’’حد‘‘ سے بھی گزر جاتا ہے۔ آج ہمارے اردگرد غلط راہوں سے پیسے کا حصول ان ضروریات کی تکمیل کی وجہ سے ہی بڑھتا جا رہا ہے۔ جب حلال ذرائع سے ان ’’ضروریات‘‘ کی تکمیل میں ناکامی ہو، تو بندہ غلط راہوں پر چل پڑتا ہے، اس طرح شیطان کی چالیں کامیاب ہوجاتی ہیں کہ بندہ آخر میری جکڑ میں آہی گیا۔ اگر بالفرض وہ جائز کمائی سے بھی ان غیر ضروری ’’ضروریات‘‘ کی تکمیل کا خواہش مند ہو تو بھی اس کے لیے اور آس پاس کے لوگوں کے لیے یہ امر تکلیف کا باعث بنتا ہے، جیسا کہ اوپر کے واقعات سے بھی ظاہر ہے۔ ایک خاتون نے بے بسی سے بتایا کہ محدود آمدنی کے باوجود گھر میں ایک پرانی گاڑی ہے جس سے کام چلا رہے ہیں لیکن میرا بیٹا کہتا ہے کہ مجھے شرم آتی ہے اپنے دوستوں کے سامنے، میں یہ گاڑی استعمال نہیں کروں گا، مجھے نئی گاڑی چاہیے…
ان بے جا اشیاء کی مانگ اس لیے بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ آس پاس یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ نمود ونمائش، جسے دیکھ کر اگلا بندہ اس سے دو قدم آگے جانے کا سوچتا ہے۔ ایک دوست نے ایک لاکھ کا موبائل خریدا، تو دوسرا اُس سے مہنگے کی تمنا کرتا ہے۔ اس نمودو نمائش اور ریس میں ہم نے ان غیر ضروری اشیاء کو اپنے اوپر یوں مسلط کرلیا ہے جیسے یہ ہماری بہت بڑی ضرورت ہیں، ان کے بغیر ہمارا گزارا ناممکن ہے۔ بے شک ان میں سے کچھ چیزیں آج کے دور کی ضروریات میں بھی شامل ہیں جیسے موبائل، گاڑی وغیرہ… لیکن ’’خوب سے خوب تر کی تلاش‘‘ نے اس ضرورت کو ’’خدا‘‘ بنادیا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ میں بے جا رسومات، جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہماری زندگی کا لازمی جزو ہیں، جن کو نظرنداز کرنے کی صورت میں ہمیں اس معاشرے سے نکال دیا جائے گا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو ان بے جا رسومات کے بغیر بھی شادی بیاہ کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے، بلکہ ’’سادگی‘‘ میں ہی برکت ہے جسے ہم سب فراموش کرچکے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہ غیر ضروری چیزیں نہ صرف ہماری زندگی کا لازمی جزو بن کر ہم پر سوار ہوجاتی ہیں بلکہ ایک ’’نشے‘‘ کی طرح مسلط ہوجاتی ہیں، جس کے بغیر ہماری زندگی نامکمل اور مشکل ہوجاتی ہے، مثلاً موبائل… کسی نوجوان سے ایک دن اُس کا موبائل دور کرکے دیکھیں، اسے یوں محسوس ہوگا کہ اس کی زندگی ادھوری ہوگئی ہے… بے مزا زندگی، روکھی پھیکی زندگی… دراصل یہی ’’شیطانی جکڑ‘‘ ہے جس میں آج ہر خاص و عام جکڑا ہوا ہے، لیکن جو اپنے نفس پر قابو پانے والے ہیں، جو نفس کے غلام نہیں بلکہ نفس اُن کے قابو میں ہے، وہ ان بلا ضرورت اشیاء کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیتے۔ ایسے ہی بندے ’’فلاح‘‘ پانے والے ہیں جو اللہ کی نعمتوں سے فیض بھی حاصل کرتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں روکا نہیں۔ اعتدال اور ضرورت کے تحت اشیاء کو استعمال کرنے سے دینِ اسلام نے ہمیں روکا نہیں۔ اللہ کے حکم اور سنتِ نبویؐ کے مطابق زندگی کی ضروریات کو استعمال کرنا ہمارے نفس کی بھلائی کے لیے ضروری ہے۔ ایک گھر جو ضروریاتِ زندگی سے آراستہ ہو وہ ہماری زندگی کے لیے کافی ہے، نہ کہ ہم عالیشان محل کی تمنا کریں جو دنیا جہاں کی ڈیکوریشن اشیاء سے آراستہ ہو، جسے دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ دینِ اسلام نے ہمیں ایسی تمنائوں کے لیے، اپنے نفس پر قابو پانے کے لیے تعلیمات و احکامات جاری کیے ہیں تاکہ ہم ان غیر ضروری اشیاء کے پیچھے اپنی زندگی ضائع نہ کردیں، کیونکہ رب العزت نے یہ زندگی ’’اِس دنیا کی زندگی‘‘ کو سنوارنے کے لیے نہیں بلکہ آخرت کی زندگی کو سنوارنے کے لیے دی ہے۔ جبکہ یہ بے ضرورت اشیاء ہمیں آخرت کی زندگی سے غافل کردیتی ہیں۔ ایک ضرورت کو پورا کرنے کے بعد ’’نفس‘‘ اگلی ضرورت کو اہم ضرورت کے کھاتے میں ڈال کر ہمیں مصروف کرتا رہتا ہے۔ اس طرح بندہ اپنے رب سے دور ہوکر شیطان کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔
لہٰذا ان ’’غیر ضروری ضروریات‘‘ کو اپنے لیے اہم نہ جانیں، انہیں اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دیں۔ یہی چیز اپنی اولاد پر بھی واضح کریں، تاکہ وہ بھی ان غیر ضروری ضروریات کے نشے سے اپنا آپ بچائیں۔
آخر میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کروں گی جس سے واضح ہوگاکہ کس طرح ہم نے ’’ان ضروریات‘‘ کو اپنے لیے اہم بنالیا ہے۔
مجھے ایک عزیزہ نے بتایا کہ اس کی بھانجی کی شادی ماہ رمضان سے پندرہ دن پہلے ہونا طے پائی جو لاک ڈائون کی وجہ سے نہ ہوسکی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ چند لوگوں کی موجودگی میں سادگی سے نکاح کردیا جائے، لڑکی والے بھی راضی تھے، لیکن لڑکے کی والدہ نے کہا کہ میرا اکلوتا بیٹا ہے، میں تو پورے دھوم دھام سے اور رسومات کے ساتھ شادی کروں گی چاہے مجھے پانچ چھ مہینے کیوں ناں انتظار کرنا پڑے۔
یہ ہیں وہ غیر ضروری چیزیں جو ہم نے اپنے اوپر مسلط کرکے اپنے آپ کو اور ’’دوسروں کو بھی‘‘ مشکل میں ڈال دیا ہے۔

حصہ