مانگنے والے مانگ خدا سے

1020

قدسیہ ملک
اس میں دو رائے نہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اللہ نے تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ صحت اور بیماری بھی اللہ کے حکم سے آتی ہے، اور یہ بھی تقدیر کا حصہ ہے، چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یقین جانو، اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتی، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سارے مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔‘‘ (مسند احمد)۔
قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ انسانوں کے اپنے اعمال بھی مصیبتیں اور پریشانیاں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ چناںچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ : 30)۔
میرے دادا مولانا عبدالعزیز صاحب جماعت اسلامی کے دیرینہ رکن تھے۔ تقسیم کے وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حکم پر انہوں نے حیدرآباد دکن ہی میں قیام کیا۔ پھر اس کے چند ماہ بعد دورانِ ہجرت اپنے جواں سال بھائی کو ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں شہید اور پھر ان کی لاش کو ٹکڑے ہوتے دیکھا۔ ان کو دفنا کر اپنی زمینیں، اپنی جائدادیں، اپنے مکانات اور اپنے باغات سب کچھ چھوڑ کر کراچی آئے اور مولانا مودودیؒ کی دی ہوئی اسّی گز کی رہائش گاہ میں قیام کیا۔ جماعت کا کام پوری تندہی، محنت اور محبت سے کیا اور وہیں انتقال ہوا۔ دادا سے جب بھی کوئی اپنے لیے دعا کرنے کو کہتا تو وہ دعا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں بھی تمہارے لیے دعا کروں گا، تم اپنے لیے خود بھی دعا کرو، اللہ تعالیٰ بندے کے دعا کرنے سے خوش ہوتا ہے، اور جو بندہ اپنے لیے دعا نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اُس سے ناراض ہوجاتا ہے اور کہتا ہے میرا بندہ مغرور ہوگیا ہے مجھ سے دعا نہیں کرتا۔ اس لیے اپنے لیے سب سے پہلے دعا کیا کرو۔ ہر شے اپنے رب سے مانگو۔ وہ اپنے بندے کی دعا سے بہت خوش ہوتا ہے۔ بندہ کسی اور سے مانگتا ہے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے۔
رمضان کی بات ہے، 21 ویں شب تھی، مجھے رات میں باربار ایک خالہ جان کا خیال آرہا تھا، پھر میں نے اُن کے لیے اپنے دل سے دعا کی۔ اگلے دن میں نے میسج پر بات انہیں بتائی کہ میں نے آپ کے لیے دعا کی۔ یہ پیغام دے کر میں بھول بھی گئی۔ اس سے اگلے دن خالہ جان کا میرے پاس فون آیا، وہ مجھ سے خاصی دیر تک بات کرتی رہیں، وہ بار بار میرا شکریہ ادا کررہی تھیں اور کہہ رہی تھیں: میں نے تمہارے لیے دل سے دعا کی ہے، تم نے مجھ سے محبت کی، میرے لیے دعا کی، تم نے اللہ کی خاطر مجھے یاد رکھا، میں بھی تمہارے لیے دعا کرتی ہوں۔ وہ بار بار شکریہ ادا کرکے مجھے شرمندہ کررہی تھیں۔
دعا صرف اور صرف اپنے لیے ہی نہ کریں، بلکہ اپنے چاہنے والوں، اپنے رشتے داروں، عزیزوں، اپنے دوستوں، اپنے ساتھیوں، اپنے ملنے جلنے والوں، اپنے پڑوسیوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کےلیے بھی کریں۔ اُن لوگوں کے لیے بھی دعا کریں جن سے آپ کی کسی قسم کی دشمنی ہے، یا جن کو آپ پسند نہیں کرتے، یا جو آپ کو پسند نہیں کرتے۔ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ دلوں میں گنجائش پیدا کردیتے ہیں۔ دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ دلوں میں نہ صرف یہ کہ محبتیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے ایسا قلبی تعلق استوار ہوجاتا ہے جو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ دعا کو مومن کا ہتھیار ایسے ہی نہیں کہا گیا۔ آزمائش شرط ہے۔ ہر مشکل، پریشانی، مصیبت اور آزمائش میں دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ کوئی ایسی راہ نکال دیتے ہیں جس طرف بندے کا گمان بھی نہیں ہوتا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو تو اللہ رب العزت تین باتوں میں سے ایک سے ضرور نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں، یا اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں، یا اس سے کوئی برائی ٹال دیتے ہیں۔ صحابہ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ اس سے بھی زیادہ بخشنے والا ہے۔“
یہ بات ہمیشہ ذہن نشین ہونی چاہیے کہ قبولیتِ دعا کی یہ صورتیں ہیں:
٭ اللہ تعالیٰ بندے کی دعا قبول کرتے ہوئے اسے وہی عنایت کردے جس کی وہ تمنا کرتا ہے۔
٭ یا پھر اس دعا کے بدلے میں کسی شر کو رفع کردیتا ہے۔
٭ یا بندے کے حق میں اس کی دعا سے بہتر چیز میسر فرما دیتا ہے۔
٭ یا اس کی دعا کو قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ کردیتا ہے، جہاں پر انسان کو اس کی انتہائی ضرورت ہوگی۔
دعا کے لیے کچھ ضروری شرائط ہے جن میں سب سے پہلے اخلاصِ نیت ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تم اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔
اس کے علاوہ حرام سے اجتناب کرنا چاہیے، اگر کوئی گناہ کیا ہے تو پہلے اس کی توبہ کرنی چاہیے، عاجزی اور انکسار سے دعا مانگنی چاہیے، جیسا کہ سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اب تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر اور چپکے سے بھی“۔ دعا کے اندر زیادتی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو حد سے نکل جائیں۔
اللہ کے فضل و کرم سےماہِ رمضان المبارک کی طاق راتیں ہمیں نصیب ہوئیں۔ ہم رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کے عشروں سے گزرے۔ ہر گھڑی، ہرجا، ہرلحظہ، ہر آن اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعا مانگیں تاکہ اس کی رحمت جوش میں آئے اور ہمیں اس وباء سے نجات نصیب ہوجائے۔ دعا کی فضیلت کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ”اور اے پیغمبر، جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو کہہ دو کہ میں تو تمہارے پاس ہوں۔ جب پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی دعا قبول کرتا ہوں، ان کو چاہیے کہ میرے احکام کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ نیک راستہ پائیں۔“( سورہ بقرہ)۔
اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ مالِ حرام سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے: مالِ حرام کے ایک لقمے سے 40 دن کی عبادتیں قبول نہیں ہوتیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے کچھ امور بھی بیان فرمائے، جن سے دعا کی قبولیت کے امکان زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، مثلاً: وہ مسافر ہے، اللہ کا ہی محتاج ہے، لیکن اس کے باوجود دعا اس لیے قبول نہیں ہوتی کہ اس نے حرام کھایا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حرام کے لقموں سے محفوظ رکھے۔
ایک حدیث جوحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں۔ اللہ تعالیٰ سے اس کے کرم کی امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فرمائے گا، اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ (جامع ترمذی)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔ (ترمذی)۔
دعا اور اللہ کا ذکر ایک مکمل اور پختہ وسیلہ ہے۔ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔ جس طرح ایک مجاہد اپنے ہتھیار کو استعمال کرکے دشمن سے اپنا دفاع کرتا ہے، اسی طرح مؤمن کو جب کسی پریشانی، مصیبت اور آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ فوراً اللہ کے حضور دعاگو ہوتا ہے۔ دعا ہماری پریشانیوں کے ازالے کےلیے مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ انسان دنیا کی زندگی میں جہاں اَن گنت و لاتعداد نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے، وہاں اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بیمار و سقیم ہوجاتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں ہر آدمی کے مشاہدے میں ہے کہ بعض انسان فالج، کینسر، یرقان، بخار وغیرہ۔۔۔ اسی طرح کئی اقسام کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان تمام بیماریوں سے نجات و شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ان بیماریوں کے علاج کے لیے جہاں دواؤں سے کام لیا جاتا ہے، وہاں دعائیں بھی بڑی مؤثر ہیں۔
بیماری اور پریشانی میں بدگمانی، شور شرابہ، شکوے شکایات کرنے کے بجائے ان اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جو رب کو ناراض کررہے ہیں۔ ایسے اعمال کی جانب متوجہ ہونا چاہیے کہ جن کی تعلیم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس خطرناک وباء سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنے والا بنادے، وباء سے ہر ممکن بچائو کرنے والا بنادے۔ ہمارے ملک کو اس وباء کے ممکنہ اثرات سے جلد از جلد مکمل طور پر نکلنے والا بنادے۔رب العالمین ہمارے ساتھ عافیت کا معاملہ فرمادے، آمین
آخر میں ایک قطعہ اپنے پیارے قارئین کی نذر کرناچاہوں گی۔

میں مانتا ہوں وبا کے دن ہیں
مگریہ بھی خدا کے دن ہیں
دلوں سے مایوسیاں نکالو
ذرا سا آگے شفاء کے دن ہیں
گزر گئی عمر غفلتوں میں
یہی تو رب سے وفاکے دن ہیں

حصہ