امریکا میں کالوں پر گوروں کی فوقیت کا بدترین تسلسل

672

میدان عرفات میں جبل الرحمت پر کھڑے ہو کر 6 مارچ 632 بمطابق 9 ذلحج 10 ہجری کو محسن انسانیتؐ نے رنگ و نسل اور زبان و قومیت کو توڑتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’’کسی گورے کو کالے پر‘ کالے کو گورے پر‘ عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضلیت حاصل نہیں۔ اللہ کے نزدیک برتر وہ ہے جو متقی و پرہیزگار ہے، تم سب ایک آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔‘‘ آج اس عظیم، برتر اور حسین آواز کو دنیا میں بلند ہوئے چودہ سوسال ہو چکے ہیں۔ وہ امت مسلمہ‘ جو سید الانبیاءؐ نے اپنی میراث میں چھوڑی تھی‘ اُس میں سے غلامی کی لعنت کو بھی ختم ہوئے آج ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ وہ امتِ عظیم ہے جس نے اس خطبئہ حجتہ الوداع کے اعلان کو اس قدر سچ کر دکھایا کہ نہ صرف اپنی عبادات اور نماز و حج کے اجتماعات میں سے گورے و کالے اور عربی و عجمی کا فرق مٹایا بلکہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا سنگِ میل رقم کیا جو اس دور میں تو ناقابلِ یقین تھا۔ آج سے ساڑھے آٹھ سو سال قبل 1206 عیسوی میں ہندوستان میں ایک ایسی بادشاہت کی بنیاد رکھی گئی، جس کا سربراہ ایک غلام تھا۔ قطب الدین ایبک۔ جسے ایک سوداگر نے ترکستان سے خرید کر نیشاپور کے قاضی فخرالدین عبدالعزیز کے ہاتھ فروخت کیا اور اس نے اس غلام کو شہاب الدین غوری کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ انتہائی معمولی شکل و صورت کے اس غلام کی ایک چھنگلیا ٹوٹی ہوئی تھی، اسی لیے اسے ایبک مثل(خستہ انگشت) کہتے تھے۔ یہ غلام جو 1150ء میں پیدا ہوا، جوانی میں فروخت ہوا اور صرف بیالیس سال کی عمر یعنی 1192ء میں، شہاب الدین غوری نے اسے دلی اور اجمیر کا گورنر مقرر کر دیا۔ اگلے سال سلطان نے اس غلام کے لیے ’’فرمان فرزندی جاری کیا‘‘یعنی اسے اپنا بیٹا بنالیا۔ جب 15مارچ 1206ء کو شہاب الدین غوری جہلم کے قریب گگھڑوں کے ہاتھوں مارا گیا تو ترکستان کے بازاروں میں بکنے والا یہ غلام، ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا بانی ٹھہرا۔ اس کی سلطنت میں موجود تمام مسلمانوں نے جن میں ہاشمی النسل سید بھی تھے اور ترکی النسل شاہسوار بھی، سب نے اسے بادشاہ تسلیم کیا۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ قطب الدین ایبک کے مرنے کے بعد1210ء میں اس کا بیٹا آرام شاہ تخت پر بیٹھا۔ وہ اس قدر نااہل تھا کہ ترک سرداروں نے اسے بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایک اور ترک غلام شمس الدین الشمس جسے قطب الدین ایبک نے خریدا تھا، اسے ہندوستان کے تخت پر بٹھا دیا۔ غلاموں کی حکومت کا سلسلہ جو انسانی تاریخ کا روشن ترین باب ہے، 84 سال یعنی تقریباً ایک صدی تک چلتا رہا۔ اس سلسلے نے ایسے متقی، پرہیزگار اور منصف مزاج حکمران پیدا کیے ہیں جن کی نظیر ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی ملنا مشکل ہے۔ محسن انسانیت ؐ کے خطبئہ حجتہ الوداع کے اعلان کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کے چودہ سو عیسوی سال گزرنے بعد اور امت مسلمہ کی قائم کردہ مثالی خاندانِ غلاماں کی حکومت کے ساڑھے آٹھ سو عیسوی سال کے بعد آج کے جدید ترین جمہوری نظام کے چیمپئن، انسانی حقوق کے علمبردار اور مغربی تہذیب کے پرچم بردار امریکا میں اس وقت سیاہ فام افراد کے خلاف جمہوری اکثریت کی نفرت کا ایک طوفان برپا ہے۔ سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں کالے اور گورے کے درمیان صدیوں پرانی دبی ہوئی عصبیت آتش فشاں کی طرح ایسی پھوٹی ہے کہ اس نے انسانی حقوق، برابری اور جمہوری اخلاقیات کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینک دیا ہے اور اندر سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمئین امریکا کا مکروہ چہرہ عیاں ہو چکا ہے۔ امریکی جمہوری چیمئین شپ وہ ہے جو میرے ملک کے سیکولر لبرل اور مغربی جمہوریت کے علمبرداروں کو بہت عزیز ہے۔ وہ ہر سال امریکا کے اسٹیٹ ڈیارٹمنٹ کی دو رپورٹوں کا شدت سے انتظار کیاکرتے تھے۔ ایک ’’انسانی حقوق کی صورت حال‘‘ سے متعلق اور دوسری ’’مذہبی رواداری‘‘ سے متعلق۔ جیسے ہی یہ دونوں سالانہ رپورٹیں سامنے آتیں، ہر سیکولر لبرل اور جمہوری آمریت کا علمبردار کالم نگار پاکستان کو مطعون کرنا شروع کر دیتا۔ اسی طرح مخصوص اینکر پرسن پہلے پاکستان اور پھر مسلمان ممالک کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیتے۔ آخر میں ان سب کی تان اس بات پر ٹوٹتی کہ پاکستان میں نہ انسانی حقوق کی حالت بہتر ہے اور نہ ہی مذہبی رواداری کا ثبوت ملتا ہے، اس لیے جلد ہی امریکا اور یورپ اس ملک پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کا جینا دوبھر کر دے گا۔ یہ سیکولر اور لبرل ’’جمہورئیے‘‘ آخر میں ایک ’’عظیم تاریخی تجزیہ‘‘ بیان کرتے کہ یہ سب اس لیے ہے کہ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ قراردادِ مقاصد ہے۔ جب تک اس بنیاد سے نجات نہیں ملتی ہم ترقی نہیں کر سکتے۔
امریکا کا جو چہرہ اس وقت دنیا کے سامنے آیا ہے، یہ با لکل نیا اور انوکھا نہیں ہے۔ امریکی سوسائٹی اور تہذیب کی بنیاد ہی کالوں سے نفرت، ان کے استحصال اور ان پر ظلم و تشدد سے عبارت ہے۔ چار سو برس سے اس دھرتی پر سیاہ فام افریقیوں کی غلامی کا کاروبار جاری ہے۔ اگست 1619ء میں افریقی علاقے انگولا سے بیس سیاہ فام افریقیوں کو ولندیزی یعنی موجودہ ہالینڈ کے گوروں نے اغوا کر کے برطانوی گوروں کے ہاتھ بیچا تھا۔ جس دن ان کا جہاز امریکا میں برطانوی کالونی ورجینیا کے شہر جیمز ٹائون پہنچا، یہ وہ پہلا دن تھا، جب سرکاری طور پر امریکی ساحلوں پر غلاموں کی تجارت کا منظم آغاز ہوا۔ اس سے پہلے کوئی اِکادُکا گورا زمیندار یا تاجر اپنی ضروریات کے لیے اغوا شدہ افریقی سیاہ فام افراد کو خریدکر امریکا لایا کرتا تھا۔ اس دن کے بعد پوری ایک صدی افریقہ سے غلاموں کی تجارت ہوتی رہی اور تقریباً 70 لاکھ سیاہ فام افریقی امریکا لائے گئے۔
جیمز ٹائون کے ’’مہذب‘‘ امریکا میں اگست 1619ء کے جس دن غلاموں کا بازار سجا تھا، اس دور میں مسلم امہ کی سرزمین پر خلافتِ عثمانیہ کی مرکزیت قائم تھی، ایران میں صفوی بادشاہت اور ہندوستان میں مغل حکمران بام عروج پر تھے۔ ہندوستان کے دلّی اور لاہور ثقافت، تہذیب، ادب اور فنِ تعمیر کے مراکز تھے۔ شاہ جہان کا تاج محل اسی صدی میں دنیا کے نقشے پر ابھرا اور اورنگ زیب عالمگیر نے اسی صدی میں ایک ایسی حکومت قائم کی تھی جس میں پہلی دفعہ برصغیر پاک و ہند کے تمام بڑے بڑے ہندو مندروں کے لیے بھی زمینیں وقف کی گئیں اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے لیے مستقل سرکاری گرانٹ جاری کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ اورنگ زیب عالمگیر سے پہلے مسلمان استاد اور ہندو استاد کی تنخواہوں میں آدھے کا فرق تھا، اس نے ان دونوں کی تنخواہ کو برابر کر دیا۔ اسی صدی میں مغرب کا فرانس غربت اور افلاس کا ایسا شکار تھا کہ لوئی چودہ کے زمانے میں صرف پیرس شہر میں چھ لاکھ فقیر تھے۔ ہندوستان دنیا بھر میں 25 فیصد جی ڈی پی کا حصے دار تھا۔ چین میں منگ خاندان زوال پزیر ہوچکا تھا۔ جن دنوں امریکا اور یورپ غلاموں کی تجارت اور کپاس سے دولت کمانے میں لگے ہوئے تھے، اسی زمانے میں اورنگ زیب کے دورکے ہندوستان میں علم و عرفان کا یہ عالم تھا کہ دنیا میں پہلا بے جوڑ گلوب علی بن لقمان کشمیری نے بنایا تھا جس پر دنیا کا نقشہ موجود تھا۔ جونپور کے صادق اصفہانی نے دنیا کی 32 صفحات پر مشتمل پہلی اٹلس بنائی تھی۔ جب امریکا کا جدید معاشرہ غلاموں کی تجارت اور مظالم کی بنیاد پر اپنی معیشت استوار کر رہا تھا، خلافت عثمانیہ دنیا بھرکے مظلوم یہودیوں کے لیے واحد پناہ گاہ تھی۔
سترہ ویں صدی کی مہذب اور ترقی یافتہ مسلم دنیاکے مقابلے میں جدید امریکا انسانی تاریخ کے اس بدلتے ہوئے موڑ اور تہذیبی ترقی کے عروج میں ابھی غلاموں کی تجارت کا آغاز کر رہا تھا۔ اگست 1619ء کے اس خوش گوار دن جب جیمز ٹائون، ورجینیا کے بازار میں انگولا سے بیس سیاہ فام کو لا کر بیچا گیا، اُس دن سے یہ انسانی تجارت امریکا میں سرکاری سرپرستی میں پھلنے پھولنے لگی۔ اس سے پہلے براعظم امریکا میں یورپ سے بھاگ کر آنے والے جرائم پیشہ گوروں کی اکثریت آباد تھی اور وہ امریکا میں موجود مقامی ریڈ انڈین افراد سے غلامی کا کام لیتے تھے۔ یہ وہ مقامی ریڈ انڈین تھے جو اس خطے میں امن سے رہ رہے تھے کہ اچانک 12 اکتوبر 1492ء کو کرسٹوفرکولمبس کا جہاز امریکا کے ساحلوں پر اترا اور یورپی اقوام کے لٹیروں، ڈاکوئوں، قاتلوں، چوروں اور جرائم پیشہ افراد یہاں آکر آباد ہونا شروع ہو گئے۔ بے چارے مقامی ریڈانڈین کا پہلا قتلِ عام !’’ٹیکا اوک‘‘ (Tecoak)کے علاقے میں ہوا جہاں پر آباد پورا قبیلہ ’’اوٹومی‘‘ (Otomi) بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ یوں علاقوں پر علاقے فتح ہوتے رہے اور قبیلوں پر قبیلے صفحۂ ہستی سے مٹتے رہے۔ آخری قتلِ عام 19جنوری1911ء کو نویڈا کی ریاست میں ہوا۔ آج بھی پورے امریکا میں ریڈ انڈین مقامی افراد کی پانچ سو سے زیادہ آبادیاں ہیں جنہیں ’’ریزرویشنز‘‘ (Reservations) کہا جاتا ہے۔ ان آبادیوں میں یہ قبائل صدیوں پرانی زندگی میں رہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سولہویں صدی کا امریکا ریڈ انڈین کے قتلِ عام اور نسل کشی کا امریکا تھا۔ تقریباً گیارہ کروڑ مقامی افراد قتل کیے گئے۔ جس شخص کو انسانی تاریخ کا عظیم سیاح اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جس کولمبس کی تصویریں بچوں کے نصاب کی کتابوں میں لگائی جاتی ہیں اس اکیلے شخص کی قیادت میں 5 لاکھ ریڈانڈین مقامی افراد قتل کیے گئے۔
مقامی آبادی کا قتلِ عام اور غلاموں کی تجارت چارسو سال تک ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ اسی دوران ڈھائی سو سال قبل 1777ء میں امریکی جمہوری اور آئینی حکومت بھی قائم ہوئی اور جارج واشنگٹن پہلا جمہوری صدر بھی بنا۔ یوں جمہوریت اور سیاہ فام انسانوں کی غلامی اور تجارت ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پروان چڑھتے رہے۔ غلاموں کی جس تجارت کا امریکی آغاز 1619ء میں ہواتھا، ان کی آبادی چند برسوں میں اس قدر بڑھ گئی کہ ان کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون بنائے جانے لگے۔ سب سے پہلا قانون 1661ء میں بنایا گیا جس کے تحت کوئی کالا گورے سے یا گورا کالے سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ قانون 21 ریاستوں میں فوراً لاگو ہو گیا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آخری ریاست الباما (Albama) ہے جس میں ایک نسل سے دوسری نسل کی شادی پر پابندی کا قانون صرف بیس سال پہلے یعنی 2000ء میں ختم کیا گیا۔ اس دوران امریکا کے آئین کی وہ دفعات جو 1777ء کے اعلانِ آزادی میں تمام انسانوں کے برابر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، مستقل نافذ رہیں، آئین کا حصہ تھیں اور امریکا انسانی حقوق کے نام پر پوری دنیا میں دھاڑتا بھی رہا۔
ان بے چارے افریقی سیاہ فام غلاموں کا امریکا کے ساحلوں تک کا سفر بھی دردناک اور المناک کہانیوں سے عبارت ہے۔ اسپین، پرتگال، فرانس، انگلینڈ اور دیگر ممالک سے انسانوں کے تاجر افریقہ کے علاقوں میں نہتے سیاہ فام افراد کو اغوا کرتے، کبھی گڑھے کھود کرانہیں ٹہنیوں سے ڈھانپتے، قسمت کے مارے ان میں گر جاتے تو انہیں زنجیروں میں جکڑ کر باہر نکالا جاتا۔ ساحلِ سمندر کے پاس بڑے بڑے اڈے بنائے گئے تھے جن میں ایک کمروں کی قطار میں مردوں کو رکھا جاتا، دوسرے میں عورتوں اور تیسری قطار کے کمروں میں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا۔ تینوں کمرے پنجروں کی طرح آمنے سامنے ہوتے۔ بچے بھوک اور تنہائی سے روتے بلکتے اور والدین اپنی آنکھوں کے سامنے بے بسی سے انہیں دیکھتے رہتے۔ عورتوں سے جنسی زیادتی ہوتی، مردوں پر شدید تشدد کیا جاتا اور یہ تماشا ایک دوسرے کے روبرو ہوتا۔ یوں ان کوکئی سال ایسی حالت میں رکھ کر یہ احساس دلایا جاتا کہ یہی تمہاری زندگی اور تمہارا مقدر ہے۔ اس کے بعد انہیں بحری جہازوں کے ایسے کیبنوں میں ٹھونسا جاتا، جن کی چھت صرف ڈھائی فٹ اونچی ہوتی۔ خوف، بیماری، گھٹن اور تکلیف سے جو مر جاتا اسے سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیا جاتا۔ صرف پچیس فیصد غلام ہی امریکا کے ساحلوں تک پہنچ پاتے جو خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتے کہ آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی باقی پوری زندگی کپاس، تمباکو اور گنے کے کھیتوں میں غلامی کرتے گزر جاتی۔ غلاموں کی تعداد بڑھانے کے لیے عورتوں کو گائے بھینسوں کی طرح جنسی اختلاط پر مجبور کیا جاتا تاکہ وہ ہر سال ایک نئے غلام کو جنم دیں۔ اس فعل کے بعد مردوں کو علیحدہ کر دیا جاتا اور عورتیں ایک جانوروں کے گلے کی طرح سے بچے پالتیں۔ عورتیں دہرا بوجھ اٹھاتیں، کمپنیوں اور گھروں میں کام کے علاوہ بچے بھی پالتیں۔ ایک ساتھ ریوڑ کی طرح جوان ہونے والے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح غلاموں کی منڈیوں میں بیچ دیا جاتا۔
جمہوریت کی سب سے بڑی علامت امریکی کانگریس نے 1793ء میں ایک قانون Fugitive Slave Act پاس کیا جس کے تحت کسی غلام کو بھگانا یا فرار کرانے میں مدد دینا ایک جرم قرار دیا گیا۔ یہ قانون اس لیے منظور کیا گیا تھا کیوں کہ سیاہ فام غلاموں میں بغاوت کی چنگاریاں سلکنے لگی تھیں۔ اس بغاوت کا پہلا علمبردار ناٹ ٹرنر(Nat Turner) تھا جس کی ماں ایک افریقی غلام عورت تھی جسے گوروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اپنی ماں سے محبت اور نامعلوم باپ سے نفرت نے اُسے پاگل بنا دیا تھا۔ وہ ہر وقت سیاہ فام افریقیوں کی آزادی کے خواب دیکھتا رہتا۔ 1831ء میں ایک دن اُس نے سورج گرہن دیکھا تو اسے ایک انقلاب کی علامت سمجھا۔ اُس نے اپنے چند ساتھیوں سمیت اپنے مالک کے خاندان ’’ٹریوس فیملی‘‘(Travis Family) کو قتل کر دیا اور ورجینیا ریاست کے چھوٹے سے شہر ’’یروشلم‘‘ کی طرف چل پڑا۔ اُس کے ساتھ 75 کے قریب سیاہ فام غلام اکٹھا ہو گئے، جنہوں نے 60 گوروں کو قتل کر دیا۔ ریاست فوری طور پر ایکشن میں آئی۔ بندوقوں، بکتربند گاڑیوں اور جدید اسلحے سے لیس ملیشیا نے انہیں یروشلم شہر کے باہر گھیر لیا، نہتے غلاموں پر فائرنگ شروع ہوئی، سو کے قریب سیاہ فام غلام اور کچھ راہ گیر مارے گئے۔ ٹرنر وہاں سے بھاگ نکلا، چھ ہفتوں تک جنگلوں میں مارا مارا پھرتا رہا، پکڑا گیا، مقدمہ چلا اور پھر اسے عبرت کا نشان بنانے کے لیے سرِعام پھانسی دے دی گئی۔ یاد رہے کہ یہ 1831ء￿ یعنی صرف ایک سو نوے سال پہلے کا واقعہ ہے، کوئی ہزاروں سال پہلے کی کہانی نہیں ہے۔
اس واقعے کے تیس سال بعد 1861ء کی بہار میں امریکا کی ریاستوں میں غلامی کی حق اور خلاف آپس میں ایک بہت بڑی جنگ کا آغاز ہوا۔ ابراہیم لنکن امریکی صدر منتخب ہوا تو اس کا نعرہ امریکا سے غلامی اور غلاموں کی تجارت کا خاتمہ تھا۔ پورا امریکا دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ جنوبی ریاستیں‘ جہاں کھیتی باڑی عام تھی‘ وہ غلامی کے حق میں کھڑی ہو گئیں اور شمالی ریاستیں غلامی کے خلاف۔ 12اپریل1861ء سے 9 مئی 1865ء تک چار سال تک جنگ چلی۔ ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ پینسٹھ ہزار افراد مارے گئے جن میں 80 ہزار سیاہ فام غلام اور 50 ہزار آزاد شہری بھی شامل تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں امریکا سے قانونی طور پر غلامی کا خاتمہ توہو گیا لیکن گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے سیاہ فام افراد سے نفرت کی آگ امریکی معاشرت، تہذیب اور زندگی کے دیگر معاملات میں مسلسل سلگ رہی ہے اور ہر چند سال بعد کسی سیا ہ فام کی موت کی صورت رونما ہوتی رہتی ہے۔ ٹھیک ایک سو چالیس سال بعد امریکی جمہوری الیکشنوں میں 75 فیصد گوری اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دے کر ایک بار پھر امریکا کو اسی طرح فتح کر لیا ہے جیسے1492ء میں کولمبس کی سربراہی میں فتح کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت بندوق استعمال ہوئی تھی اور اس دفعہ ووٹ۔

حصہ