کس کا مؤقف درست

360

’’ماسٹر صاحب یہ آپ کے پرائیویٹ اسکول والوں کو کیا ہوگیا ہے، آئے دن پریس کانفرنس کررہے ہیں! کبھی بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہونے پر، تو کبھی بچوں کی پڑھائی کا حرج ہونے کے نام پر… کبھی امتحانات کی تیاری، تو کبھی سلیبس مکمل نہ ہونے کی دہائیاں دے کر اسکول کھولنے کی ضد کرتے ہیں۔ خدا کا خوف کریں ماسٹر صاحب، دیکھتے نہیں پورے ملک میں کورونا وائرس پھیلا ہوا ہے، چھوٹے بچے ہیں، اگر یہ وبا ان بچوں کو لگ گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس صورتِ حال میں تو تمام ہی تعلیمی ادارے بند ہیں، آپ خود سوچیں کیا سرکاری اسکولوں میں تعینات اساتذۂ کرام نے اسکول کھولنے کی بات کی؟ یا سرکاری اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھانے والوں نے ان تعلیمی اداروں کو کھلوانے کے لیے کوئی پریس کانفرنس کی؟ جواب نفی میں ہوگا۔ تو پھر کیوں ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جارہا ہے جس پر چلنے سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہ ہوگا! یا پھر تعلیمی حرج کے نام پر اسکول کھلوانے کی ضد کے پیچھے رکی ہوئی فیسیں وصول کرنے کا ایجنڈا ہے! جو گلّے خالی ہوتے جارہے ہیں انہیں دوبارہ بھرنے کے لیے تمام توانائیاں صرف کی جارہی ہیں! آخر یہ سارا چکر ہے کیا؟ اگر بات تعلیم دینے کی ہے تو وہ آن لائن بھی دی جاسکتی ہے، اور اگر بچوں کو امتحانات کی تیاری کرانا مقصود ہے تو حکومتی اعلان کے مطابق تمام بچوں کو اگلی کلاسوں میں پروموٹ کیا جارہا ہے، پھر کیوں اس قدر شور مچایا جارہا ہے؟ میں پھر کہتا ہوں کہ مجھے سارا چکر تعلیم سے زیادہ بزنس کا لگتا ہے۔ مجھے تو پرائیویٹ اسکول درسگاہوں سے زیادہ بزنس ایمپائرز نظر آتے ہیں۔‘‘
’’تمہارے نظریات سن کر مجھے انتہائی افسوس ہوا۔ تم نے جو کچھ بھی افواہوں کی صورت سنا، وہ یہاں بیان کردیا۔ میں نے تمہاری ایک ایک بات بڑے تحمل سے سنی، اب تم میں بھی اتنا ظرف ہونا چاہیے کہ میرا مؤقف بھی سنو اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کرو کہ میں کہاں غلط ہوں۔ اگر میری باتوں میں سچائی نہ ہو، یا ان میں جھوٹ کی تھوڑی بہت بھی ملاوٹ نظر آئے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ درس وتدریس جیسے پاکیزہ پیشے سے علیحدگی اختیار کرلوں گا، دوسری صورت میں اگر میری باتیں اچھی حکایت پر مبنی ہوں تو تمہیں میری آواز بننا ہوگا۔
سنو، میرا کیس بڑا سیدھا سا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ سرکاری اسکولوں میں رائج تعلیمی ڈھانچے کی تباہی کے بعد اگر کسی نے اس میدان میں کامیابی حاصل کی اور ایسے ہونہار طالب علم پیدا کیے جنہوں نے دنیا بھر کے ممالک میں پاکستان کا نام روشن کیا تو وہ پرائیویٹ اسکول ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ جب مختلف سرکاری مراعات لینے میں مصروف تھے تو اُس وقت بھی یہی نجی اسکول تھے جن کے مالکان نے انتہائی کم فیسوں کے عوض بچوں کو علم سے روشناس کیا۔ سرکاری اسکولوں میں جو سلیبس چھٹی جماعت سے پڑھایا جاتا، نجی اسکولوں میں وہ کتابیں کے جی ون سے پڑھائی جاتیں، جس سے بچوں میں انگلش پڑھنے اور بولنے کا وہ سلیقہ آ گیا جو سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے سیکنڈری کے بچوں کو بھی نہ تھا۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھٹی کلاس میں آئے تو ٹیچر نے انگلش کے قاعدے سے اے فور ایپل، بی فور بوائے اور سی فور کیٹ پڑھانا شروع کیا جو ہمارے لیے نہ صرف انتہائی مشکل تھا بلکہ دردِ سر سے کم نہ تھا۔ سارا دن اے بی سی ڈی کی گردان کرنے کے بعد بھی ہمارے بھیجے میں انگلش کے دو لفظ نہ بیٹھتے۔ جبکہ ہمارے ساتھ پڑھنے والے وہ بچے جنہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ کسی نجی اسکول سے شروع کیا ہوتا وہ نہ صرف فرفر انگلش پڑھتے بلکہ جملے تک بنانا جانتے تھے۔ گوکہ اُس زمانے میں نجی اسکول نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن تعداد کے مقابلے میں نجی اسکولوں کا تعلیمی معیار سرکاری اسکولوں سے خاصا بہتر تھا۔ میں مانتا ہوں کہ سرکاری اسکولوں نے بڑے بڑے سائنس دان، اساتذہ، انجینئر، ڈاکٹر، یہاں تک کہ پاکستان کے نامور سیاست دان پیدا کیے، لیکن یہ 1980ء سے پہلے کی بات ہے۔ وقت گزرتا گیا، ہر آنے والے دن کے ساتھ سرکاری اسکولوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی، عمارتیں تباہ ہوتی چلی گئیں، نصابی اور ہم نصابی سرگرمیاں ماند پڑتی گئیں۔ حیرت کی بات تو یہ کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود انتظامیہ یاکوئی بھی ادارہ خوابِ غفلت سے نہ جاگا۔ پھر وہ وقت آیا جب بچے پڑھنا تو چاہتے تھے لیکن پڑھانے والا کوئی نہ تھا۔ والدین بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے خواب دیکھتے۔ اس وقت یہی نجی اسکول تھے جنہوں نے گرتے ہوئے تعلیمی معیار کو بلند کیا۔ میں نے اُسی وقت سوچ لیا تھا کہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک ایسے اسکول کی بنیاد رکھوں گا جس میں انتہائی کم فیس کے باوجود بہترین اور دورِ حاضر کے مطابق تعلیم دی جائے گی۔ میری نیت غریب بچوں کو مفت، اور فیس ادا کرنے والے بچوں کو انتہائی سستی تعلیم دینے کی تھی، اس لیے میری کوششیں رنگ لائیں اور میں نے ایک اسکول بنایا، یوں میں شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ پیشہ میں نے خدمتِ خلق کے لیے اپنایا۔ خدا گواہ ہے کہ میں آج تک اسی نظریے کی بنیاد پر اس پیشے سے وابستہ ہوں۔ خدا جانتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے بعد مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ اپنا اسکول شروع کروں۔ اور اس کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں میرے نزدیک اس کے پیچھے حکومتی پالیسیوں کا بڑا ہاتھ ہے جو صبح کچھ اور شام کچھ تھیں۔ اب تو یہ صورتِ حال تیزی سے کسی سانحے کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے تقریباً 90 فی صد اسکول متاثر ہوں گے۔ اگر وزیر تعلیم کا رویہ یہی رہا تو ستمبر 2020ء تک 50 فی صد ایسے تمام اسکول جو ماہانہ پانچ ہزار سے کم فیس وصول کررہے ہیں، بند ہوجائیں گے۔ حالیہ بحران کو سمجھنے کے لیے صرف اتنا کہوں گا کہ ان 90 فیصد اسکولوں کا تعلیمی سال مارچ/ اپریل سے شروع ہوتا ہے۔ امسال داخلے شروع ہوتے ہی لاک ڈائون ہوگیا، اس لیے نئے داخلے نہیں ہوسکے۔ سیشن شروع نہ ہوسکنے سے مارچ کی فیس بھی وصول نہ ہوسکی۔ معیشت کے اجتماعی حالات کی وجہ سے مفادِ عامہ میں سالانہ اضافہ بھی نہ ہوسکا، لیکن اس سب پر مستزاد یہ ہوا کہ حکومتی غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے والدین نے فیسیں روک لیں، اور اس وقت حقیقی تصویر یہ ہے کہ چوتھا مہینہ سر پہ آن پہنچا ہے لیکن ایک ماہ کی فیس بھی پوری وصول نہیں ہوئی۔
ہم پہلے سے کئی طرح کی رعایتیں اور وظائف دے رہے ہیں، حتیٰ کہ کئی طلبہ مفت پڑھ رہے ہوتے ہیں، والدین کے انفرادی مسائل میں ہر ممکن تعاون کرتے ہیں، ملک میں ہر طرح کی قدرتی آفت اور آزمائش میں بھی ہراول دستہ ہوتے ہیں، تو پھر ہم ہی سے مزید قربانی کیوں مانگی جارہی ہے؟
ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جب بھی SOP کی بات ہوئی، پرائیویٹ اسکولوں نے من و عن عمل کیا بلکہ اپنی استعداد سے زیادہ بہتر کیا۔ موجودہ صورتِ حال میں کہ بازار کھلے ہیں، مالز کھلے ہیں، ٹرانسپورٹ کھل رہی ہے، اور اب تو ریستوران تک کھل رہے ہیں، اسکول کیوں نہیں کھل سکتے؟ ہماری مالی صورتِ حال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ فیسوں کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ اب تک4 ماہ کے بقایا جات ہوچکے ہیں جو مزید بڑھیں گے۔ پانچ ہزار سے کم فیس والے اسکولوں کے پاس تو اب عمارات کے کرایوں، اساتذہ اور اسٹاف کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے بھی رقم نہیں ہے۔
جبکہ دوسری جانب امتحانی بورڈز نے امتحانی فیس کی مد میں اربوں روپے وصول کیے ہوئے ہیں جسے کسی بھی مد میں استعمال نہیں کیا گیا۔‘‘
’’میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ سارا چکر بچوں کو تعلیم دینے کا نہیں بلکہ مال بٹورنے کا ہے۔ پرائیویٹ اسکول والے چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اسکول کھلیں تاکہ وہ بچوں سے تمام بقایاجات وصول کرسکیں، انہیں صرف اپنی فیس سے غرض ہے، انہیں اپنے مالی حالات کی تو فکر ہے کسی غریب کے گھر ہونے والے فاقوں سے کوئی غرض نہیں۔ ماسٹر صاحب ذرا سوچیے جن بچوں سے آپ فیس وصولی کی بات کررہے ہیں اُن کے گھروں میں تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں اگر آپ اسکول کی خوبصورت عمارت رکھ کر پریشان ہیں تو سوچیے ایک کمرے میں رہنے والا شخص کس طرح خوشحال ہوسکتا ہے! جس دن سے آپ کے اسکول بند ہیں اسی روز سے اس غریب کی فیکٹری بھی بند ہے جہاں وہ نوکری کیا کرتا تھا۔ آپ کی ایسوسی ایشن تو حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے کاروبار کھلوا سکتی ہے، یہ غریب کہاں جائے؟ سوچیے جس کے پاس روزگار نہ ہو وہ بھلا کس طرح آپ کی فیس ادا کرسکتا ہے؟ میں مانتا ہوں یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے، لیکن آپ کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کرب میں آپ سے کہیں زیادہ ایک غریب مبتلا ہے۔ جس طرح ایک سفید پوش شخص حکومت کی بنائی ہوئی پالیسیوں پر عمل کررہا ہے آپ کو بھی موجودہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا، سب کو مل کر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا، ایک قوم بن کر مل کر لڑنے سے ہی اس وائرس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
’’پرائیویٹ اسکولوں نے تو ہمیشہ حکومتی اقدامات پر سرِ تسلیم خم کیا ہے۔ اس وقت نجی اسکولوں کی مالی حالت انتہائی خراب ہے۔ نجی اسکول بند ہونے سے صرف اسکول مالکان ہی متاثر نہیں ہوئے، بلکہ استاد، کلرک، ایڈمن، اکائونٹ آفیسر، چوکیدار، مالی،آیا، صفائی والا عملہ، کینٹین، وین اور رکشے چلانے والے، بک شاپ والے، یونیفارم سلائی کرنے والے،کاپی بنانے اور جِلد تیار کرنے والے، کتاب کی پرنٹنگ اور پبلشنگ والے، بکس ڈیلرز،کلر پنسل بنانے والے، شاپنر، ریزر بنانے والے، رف کاغذ بیچنے اور بنانے والے، فوٹو کاپی مشین مکینک، بچوں کے جھولے بنانے والی پوری صنعت، ڈیسک اور میز بنانے والی صنعت، سافٹ ویئر بناکر دینے والے اور آئی ٹی ایکسپرٹ، اسکول اساتذہ کو ٹریننگ کی خدمات دینے والے تمام لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
ایسی صورت میں حکومت کو چاہیے کہ وہ پانچ ہزار روپے سے کم فیس وصول کرنے والے تمام اسکولوں کے لیے پیکیج کا اعلان کرے، تاکہ اس ابتر معاشی صورتِ حال سے بے روزگار ہونے والوں کو بچایا جاسکے۔ اب تم خود ہی بتاؤ کہ میں نے کون سی بات غلط کی؟ کون سا ایسا ناجائز مطالبہ ہے جو میں حکومت سے کررہا ہوں؟ میں نے کب احتجاج کرنے یا کہاں دھرنا دینے کی بات کی؟ میں نے تو تمام باتیں قانون کے دائرے میں رہ کر کی ہیں، طلبہ کے تعلیمی مستقبل اور اپنی معاشی پریشانیوں کا ذکر کیا ہے جو میرا حق ہے۔‘‘

حصہ