چڑھ جا بیٹا سولی پر ۔۔۔ رام بھلی کرے گا

523

آج سے دس سال قبل جب پوری دنیا 2008ء کی معاشی کساد بازاری کا بدترین شکار تھی اور امریکا کے کارپوریٹ سیکٹر نے حکومت سے سات سو ارب ڈالر کی مدد طلب کی تھی تاکہ وہ اس بحران سے نکل سکے، ایسے میں امریکی حکومت نے اپنے مشہور تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے ذمے یہ کام لگایا تھا کہ وہ ایک ایسی جامع رپورٹ مرتب کرے کہ امریکی معیشت اس معاشی بحران سے کیسے نکل سکتی ہے۔ ایک سال کی محنت کے بعد جو رپورٹ رینڈ کارپوریشن نے امریکی حکومت کو جمع کروائی اس کا لب لباب بہت خوف ناک تھا۔ رپورٹ کے مطابق سات سو ارب چھوڑ، چودہ سو ارب بھی دے دیے جائیں تو وال اسٹریٹ اس بحران سے نہیں نکل سکتی۔ امریکا کو اگر اس بدترین اقتصادی بحران سے نکلنا ہے تو اس کی اسلحہ ساز صنعت جسے ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کہتے ہیں، کو ایک بہت بڑی مارکیٹ چاہیے اس مارکیٹ کو پیدا کرنے کے لیے دنیا میں دو بڑی جنگیں بہت ضروری ہیں۔ یہ جنگیں بھی ان ملکوں کے درمیان ہونا چاہیں جن کی معیشتیں مضبوط ہوں اور جو جنگ کے اخراجات کا بوجھ برداشت کر سکیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسی معیشتیں صرف تین تھیں۔ ایک بھارت، دوسری چین اور تیسری روس اور اگر ان تینوں کو کسی بڑی نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھا دیا جائے تو امریکی اسلحہ سازی کی صنعت رات دن سپلائی میں لگ جائے گی۔ جس سے امریکی معیشت کا پہیہ چلنے لگے گا۔ یہ رپورٹ یوں تو خفیہ رکھی گئی لیکن جنوری 2010ء میں جب اس کے مندرجات سامنے آئے تو چین کی حکومت نے اس پر باقاعدہ احتجاج کیا تھا۔ اس رپورٹ کی پہلی بنیادی تجویز یہ تھی کہ تینوں ملکوں میں مسلمان اقلیتیں کثیر تعداد میں موجود ہیں اور اگر انہیں حکومتی طاقت سے گتھم گتھا کروا دیا جائے تو ایک پراکسی(proxy) جنگ دیر تک چل بھی سکتی ہے اور معیشت کو بھی بری طرح تباہ کر سکتی ہے۔ اس خفیہ پلاننگ کے لیے پاکستان اور افغانستان کے مسلمان جہادی گروہوں کو اپنے علاقوں سے بے دخل کر کے جہاد کے لیے بھارت، چین اور روس دھکیلنا ضروری تھا۔ لیکن طالبان کے ہاتھوں امریکا اور نیٹو افواج کی ذلت آمیز شکست کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات میں بھارتی سرمایہ پر منظم ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے گروہوں کی ناکامی نے یہ خواب چکنا چور کر دیا۔ اب ان تینوں ملکوں کو براہ راست جنگ میں اتارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ روس کو بشار الاسد کے شام کی جنگ میں الجھایا گیا کیونکہ اس کے لیے شام کی بندرگاہ بہت ضروری تھی۔ اس نو سالہ جنگ میں جس قدر اسلحے کا کاروبار چمکا اس کی وسعت کا اندازہ لگائیں کہ قطر، ترکی، سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، عراق اور مصر کی طرح کئی اور ممالک اپنے اپنے پروردہ گروہوں کو آزاد مارکیٹ سے اسلحہ خرید کر سپلائی کرنے میں لگے ہیں۔ آزاد مارکیٹ کا یہ اسلحہ امریکی فیکٹریاں تیار کرتی ہیں۔
باقی رہ گئے چین اور بھارت، چین گزشتہ تیس سال سے پُرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اپنی معاشی ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ لیکن اس کی سرحد کے دو مقامات ایسے تھے جہاں بھارت کے ساتھ تنازعات کی راکھ سلگ رہی تھی۔ تنازع کا پہلا مقام لداخ کا وہ بے آباد پہاڑی سلسلہ ہے جہاں سے قدیم شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کی افواج نے 1834ء میں جب لداخ کو ریاست جموں میں شامل کیا تو اس کے بعد وہ تبت پر حملہ آور ہو گئیں جنہیں چینی افواج نے 1842ء میں بری طرح شکست دے کر پیچھے دھکیلا، لداخ میں داخل ہوئیں اور وادی لیپہ کا گھیرائو کر لیا۔ سکھ افواج امن معاہدہ کر کے واپس لوٹ گئیں۔ برطانیہ نے پنجاب میں سکھ راج کو شکست دی تو برطانیہ اس علاقے کا وارث بن بیٹھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی چین کے مسلمان علاقوں خصوصاً سنکیانگ میں مسلمان رہنما یعقوب بیگ کی سربراہی میں انقلاب برپا تھا۔ یہ علاقے 1862ء سے 1877ء تک مغربی چین میں حکمران خاندان کوینگ(Qing) کی عملداری سے نکل چکے تھے۔ لیکن بعد میں جب ان کے آپس کے قبائلی جھگڑے شروع ہوئے تو حالات نے چین کو دوبارہ ان پر قابض بنا دیا۔ اس دوران برطانیہ کے ایک بیورو کریٹ ڈبلیو ایچ جانسن(W.H. Johnson) نے وہاں کا سروے کیا اور ایک لائن نقشے پر کھینچتے ہوئے ’’عکسائی چن‘‘ کے 37.244 مربع کلو میٹر کے علاقے کو جموں و کشمیر میں دکھا دیا۔ چین نے جب 1878ء میں سنکیانگ پر دوبارہ قبضہ کیا تو اس تجارتی شاہراہ کی اہمیت کے پیش نظر اس نے دوبارہ اس کی جانب پیش قدمی کی۔ برطانیہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی وجہ سے چین سے مخاصمت مول نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے وہ خاموش رہا۔ یوں چین نے قراقرم سلسلہ کوہ کے ساتھ ساتھ اپنی پوسٹیں بھی بنائیں اور سڑک بھی تعمیر کی۔ البتہ نقشوں پر وہی لائن قائم رہی جسے جانسن لائن کہا جاتا ہے اسی طرح کے عالمی بے یقینی میں برطانیہ چلا گیا اور برصغیر میں دو نئے ملک وجود میں آ گئے۔ ایک بھارت اور دوسرا پاکستان۔ بھارت خود کو دو وجوہات کی بنیاد پر اہم سمجھنے لگا۔ ایک یہ کہ تاج برطانیہ کا اصل وارث ہے اور دوسری وجہ یہ کہ ہمالیہ کے پہاڑ دراصل پورے ہندوستان کے میدانی علاقوں کا مذہبی طور پر حصہ ہیں۔ یہیں سے ان کے دیوتا برہما، وشنو اورشیو اپنے جلو میں ہزاروں لاکھوں دیوی دیوتا لیے مقدس ’’ہندوتوا‘‘ سرزمین پر اترے تھے، اس لیے ہمالیہ سے بحر ہند تک یہ پوتر سرزمین ہندومت کی میراث ہے۔


یہ علاقہ اس قدر بے آباد تھا کہ چین نے چیانگ کائی شیک سے اپنی آزادی کے فوراً بعد ہی جب اس کی اہمیت کے پیش نظر 179 کلو میٹر روڈ بنانا شروع کی تو تقریباً دس سال یعنی 1958ء تک بھارت کو اس کی خبر تک نہ ہوئی اور تماشہ اس وقت کھڑا ہوا جب چین نے اس سڑک کو اپنے نقشے پر ظاہر کر دیا۔ تبت کے علاقے 1959ء میں بغاوت شروع ہوئی تو بھارت نے باغی لیڈر دلائی لامہ کو پناہ دے کر چین کو اپنی حیثیت جتانے کی کوشش کی۔ مذاکرات شروع ہوئے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے اور 20 اکتوبر 1962ء کو چین نے اپنی افواج اس متنازع علاقے میں داخل کیں۔ اسے جس قدر علاقہ اپنے عسکری مقاصد اور سرحدی حفاظت کے لیے ضروری تھا‘ اس پر قبضہ کیا اور 20 نومبر 1962ء کو خود ہی جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ یہ سرحدی لکیر آج تک لائن آف ایکچوئل کنٹرول (line of actual control) کہلاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے آج جنگ کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس پورے خطے کو متنازع بنانے کی کوشش اس وقت سے تیز تر کر دی گئی تھی جب سے چین نے اپنی اقتصادی ترقی کے ایک مناسب عروج کو حاصل کرنے کے بعد اپنی تنہائی ختم کرنے کے لیے یورپ‘ ایشیا اور افریقہ کے ممالک سے کاروباری روابط بڑھانے کے لیے سی پیک(cepac) منصوبے کا آغاز کیا تھا جو بعد میں ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی نیٹ ورک میں ڈھل گیا۔ یہ منصوبہ دنیا کے نقشے پر چین کو نہ صرف آبادی کے لحاظ سے عظیم اور فوجی طاقت کے حوالے سے توانا ثابت کرے گا بلکہ اسے عالمی اقتصادی طاقت کے طور پر غالب کر دے گا۔ اس چینی یلغار کو روکنے کے لیے بھارت سب سے اہم مہرہ تھا جسے دو طرف چلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ چین سے مڈ بھیڑ اور پاکستان سے لڑائی۔ بنیے کا بیٹا سولی چڑھا دیا گیا ہے۔
بھارت میں گزشتہ دو سو سال سے جس مصنوعی ہندو قومی تشخص کا تصور ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے اس نے وہاں بسنے والے ہندوئوں اور ان کی متعصب قیادت کو آج اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ ایک بہت بڑے جنگ کے میدان میں اتار دیا ہے۔ یہ جنگ ویسے تو قومی ریاستوں کے درمیان ہے، لیکن مذہبی ہندو قیادت اسے دیوتائوں کی ’’پوتر‘‘ سرزمین کی یدھ (لڑائی) سمجھ رہے ہیں۔ مگر مغربی عالمی طاقتیں اسے ایک ایسا میدانِ جنگ بنائے بیٹھی ہیں جہاں پر ہونے والی لڑائی سے دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی دو معاشی طاقتیں چین اور بھارت اپنی اپنی بربادی کے پروانوں پر دستخط کردیں گی۔ دہشت گردی کے خلاف 2001 میں شروع ہونے والی جنگ کے عین بیچوں بیچ، جب جارج ڈبلیو بش نے دوسری دفعہ امریکی صدارت کا انتخاب جیتا تو اس نے اپنے پہلے ’’اسٹیٹ آف یونین خطاب’’ میں کہا ’’ہم اس قدر بھولے بھی نہیں کہ ہمیں چین اور بھارت کی معیشتوں کے خطرات کا اندازہ نہ ہو۔ بھارت کی معیشت ہمارے لیے زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ اس کا تعلیمی نظام ہمارے ساتھ ہم آہنگ ہے۔‘‘ جارج بش نے یہ خطاب 2 فروری 2005 کو کیا تھا اور آج اس کے ٹھیک پندرہ سال بعد عالمی اسٹیبلشمنٹ نے کس قدر غیر محسوس طریقے سے بھارت میں ’’ہندوتوا‘‘ کے تصور کو کارپوریٹ سرمائے کی مدد اور ہندو اکثریت کی بالادستی کو جمہوری لبادہ پہنا کر بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریا سیوک سنگھ اور بجرنگ دَل کی خونی آوازوں کو نریندر مودی کی صورت میں 26 مئی 2014 کو اکثریتی وزیراعظم کی کرسی پر بٹھایا اور پھر بھارت کے عوام میں اس نفرت کے غبارے میں مزید ہوا بھر دی گئی۔ نعرہ یہ دیا گیا کہ اس ’’یدھ‘‘ کے بعد پورے بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، برما، نیپال، سری لنکا، سکھم، بھوٹان یہاں تک افغانستان کے کابل و قندھار پر ’’ہندوتوا‘‘ کا گیروی پرچم لہرائے گا۔ اس نعرے نے بھارت میں بسنے والے ہندوئوں کو اس قدر پُرجوش بنا دیا کہ پانچ سال بعد اگلے الیکشنوں میں مودی نے 30 مئی 2019 کو بے پناہ اکثریت کے ساتھ حلف اٹھایا، جس نے بھارتی سیکولر آئین کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ صرف دو ماہ بعد 30 جولائی 2019 کو مسلمانوں کے طلاق ثلاثہ کے فقہی قانون کو پارلیمنٹ نے غیر قانونی قرار دیا، اس کے صرف پانچ دن بعد 5 اگست کو آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کی گئی اور جولائی کی 31 تاریخ کو ہی بھارت میں شہریوں کا ایک قومی رجسٹر مرتب کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں 12 دسمبر 2019 کو مسلمان دشمن این آر سی قانون لایا گیا۔ اس بل کے پیچھے یہ تصور کار فرما تھا کہ دنیا بھر کے ہندوئوں کو بھارت میں جمع کیا جائے، جو بھارت کی لوکل ذاتوں کے لوگ مسلمان، یا عیسائی، بدھ یا جین مت قبول کر چکے ہیں، انہیں واپس ہندو بنایا جائے اور باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کو بھارت کی ’’پوتر‘‘ سرزمین سے باہر دھکیل دیا جائے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے پورا بھارتی سماج دو حصوں میں منقسم ہو چکا ہے، ایک ہندو اور دوسرے نان ہندو۔ اس فضا میں بھارت میں بسنے والے ہندوئوں کی اکثریت اس پوتر یدھ (مقدس جنگ) میں حصہ لینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ان کے پنڈت، یوگی، مہامنت اور کنڈلی نکالنے والے مہورتیں نکال رہے ہیں کہ اگر فلاں شبھ گھڑی میں بھارت لڑائی میں داخل ہوا تو ہمالیہ کے پہاڑوں سے دیوتائوں کی فوجیں ان کی مدد کو ویسے ہی اتریں گی جیسے راون کو شکست فاش دینے کے لیے تمام آسمانی و زمینی دیوتا اکٹھے ہوگئے تھے۔ یہ وہ کیفیت ہے جس کے نشے میں بھارت کا ہندو سرشار ہے اور سمجھتا ہے کہ اب دنیا پر اس کا زمانہ آنے والا ہے۔
بھارت میں ’’ہندوتوا‘‘ کے اس خواب کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں۔ پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کبھی بھی کسی کے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ اس لیے کہ بیرونی حملہ آوروں کے آنے سے پہلے ہندوستان کبھی متحد نہ تھا بلکہ لاتعداد ریاستوں پر مشتمل ایک ایسی سرزمین تھی، جس میں راجے مہاراجے ایک دوسرے سے مسلسل جنگ میں مصروف رہتے تھے۔ بدھ مت کے پیروکار اشوک کی انصاف پسندی نے بھارت کو ایک بار پھر متحد کیا لیکن اس کی موت کے بعد سب بکھر گئے۔ اس کے قرب و جوار سے حملہ آور اس ہندوستان پر ہر طرف سے ٹوٹتے رہے۔ یونان سے سکندر، ایشیائے کوچک سے سفید ہن، ایران سے پارتھین اور پھر افغانستان سے محمود غزنوی کی للکار سے لے کر مغلوں کی یلغار تک سب کے سب کس قدر آسانی سے یہاں حکمرانی کرتے رہے۔ آخر میں انگریز آئے۔ انگریزوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان پر استعماری حکومت (Colonize) قائم کی۔ دراصل انگریز نے ہی سب سے پہلے متحدہ ہندوستان، اکھنڈ بھارت یا برصغیر ہندو کا تصور دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انگریز کے اس متحدہ ہندوستان کو ساوریکر اور گولوالکر کی ’’ہندوتوا‘‘ نے مقدس بناکر ہندوئوں کے سامنے پیش کیا اور اس اکھنڈ بھارت کے تصور میں ایسا بدلا کہ آج بھارت کا ہندو خود کو ایک ایسی جنگ کے لیے تیار کیے بیٹھا ہے جو ’’کلیوگ‘‘ یعنی ’’آخری یوگ‘‘ یا آخری زمانے میں ہوگی اور ایک دن بھارت ماتا پر ہندو قانون ’’منو سمرتی‘‘ نافذ ہو کر رہے گا‘ گیروی پرچم ہمالیہ کی بلندیوں سے لہرائے گا اور ہر بیرونی نسل کے لوگوں سے یہ بھارت دھرتی پاک ہوجائے گی۔
رینڈ کارپوریشن کی 2010 کی رپورٹ میں بھارت اور چین کو ایک بڑی جنگ میں ملوث کرنے کی تجویز، جارج بش کا 2005 میں دونوں معیشتوں کا عالمی منڈی پر منڈلاتا ہوا خطرہ اور اس کے بعد بھارت میں مودی کو کارپوریٹ سرمائے کی فراہمی، یہ سارا ایک ایسا تانا بانا ہے جسے آج لداخ میں بھارت چین تصادم سے جوڑا جا سکتا ہے۔ مگر اس لڑائی کو ایندھن ہندوتوا کا تصور فراہم کر رہا ہے۔ اس وقت بھارت چین پر صرف لداخ کے علاقے میں ہی آمنے سامنے نہیں ہے بلکہ سکھم کا علاقے بھی خطرناک تصادم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بھارت کی مشرقی سمت یعنی بنگلہ دیش کے بعد سات ریاستیں، ارونا چل پردیش، میزو دام رام، مانی پور، تربپورہ، ناگالینڈ، آسام، دسپور واقع ہیں۔ ان ریاستوں کو بھارت سے ایک مختصر سی زمینی پٹی سلگری کاریڈور ملاتی ہے جسے عرف عام میں ’’مرغی کی گردن‘‘ Chicken Neck کہا جاتا ہے۔ اس پٹی کے دونوں جانب بھارت اور چین کی سرحدیں ہیں جن کے درمیان صرف چودہ میل کا فاصلہ ہے۔ یہ چودہ میل اگر توپوں کی زد میں آجائیں تو وہ ساتوں ریاستیں بھارت سے مکمل طور پر کٹ جاتی ہیں۔ ان سات ریاستوں میں گزشتہ پچاس سال سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جنہیں بھارتی فوج طاقت سے دبا رہی ہے لداخ کے ساتھ ساتھ یہ دوسرا اہم محاذ ہے جو اس وقت گرم ہوچکا ہے۔ نیپال جس کے گورکھے بھارتی فوج کا اہم حصہ تھے، اس آزاد ملک کے ساتھ بھارت کے مشہور ’’کالا پانی‘‘ کے علاقوں کا تنازع تصادم میں بدل چکا ہے اور بھارت چین پر پشت پناہی کا الزام لگا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کا سرحدی تنازع این آر سی کے بعد شدید ہوچکا ہے، اس لیے کہ ایک کروڑ بنگلہ دیشیوں کو جو بھارت کی ہجرت کر گئے تھے، انہیں کو بھارت واپس بنگلہ دیش دھکیلنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی اٹھارہ سالہ سرمایہ کاری طالبان کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکی ہے اور امریکا خطے میں مکمل طور پر غیر جانبدار بن کر رہ گیا ہے۔ خالصتان کے نعرہ میں اب 1984 کے بعد ایک بار نئی جان پڑی ہے اور سکھ سوال کرتے پھرتے ہیں کہ بی جے پی حکومت نے مہاتما گاندھی کو مارنے والا ’’ہندو گوڈسے‘‘ کو آج تو ہیرو بنا دیا ہے مگر اندرا گاندھی کو مارنے والے سکھوں کو غدار ہی کہا جاتا ہے اور انتقام کے جوش میں 1984 میں دلی میں پانچ ہزار سکھ زندہ بھی جلائے گئے تھے۔ بھارت کی فوج شروع دن سے ہی سکھ اور گورکھے سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ دونوں اس وقت ہندو بھارت کے سخت مخالف بن چکے ہیں۔ کشمیر کا محاذ الگ مسلسل دہک رہا ہے۔ ایسے میں مغربی دنیا جس طرح بھارت کو چین کی معاشی ترقی روکنے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اسے جنگ میں دھکیل چکی ہے، اس کا انجام بہت واضح نظر آرہا ہے۔ یہ ایک ایسا انجام ہے جس کے بعد بھارت اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا یعنی ایک اکھنڈ بھارت نہیں بلکہ پانچ سو ریاستوں والا منقسم بھارت۔

حصہ