پہاڑوں کے بیٹے

283

اُم ایمان
(قسط نمبر11)
’’عبداللہ! تم زبیر کے کمانڈر سے ضرور ملنا اور اس کو بتانا کہ وہ جب یہاں آیا تھا تو ایک دن سے زیادہ ٹھیرا ہی نہیں تھا۔ جمال اور کمال کو بھی یہ بات بتانا کہ ان کے باپ کو میں خود دوسرے ہی دن بدخشاں جانے والی بس میں بٹھا کر آیا تھا۔ مجھے بہت پریشانی ہے کہ زبیر ابھی تک بدخشاں نہیں پہنچا ہے، اور میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ نہ پولیس اور حکومت کے کسی ادارے سے کوئی مدد لے سکتا ہوں۔ غالب امکان یہی ہے کہ اسے روسیوں نے گرفتار کرلیا ہوگا۔‘‘
’’بس اب تو جو کچھ کرنا ہے انہیں خود ہی کرنا ہے۔‘‘
’’اور عبداللہ! یوں پستول اور کلاشنکوف لے کر اگر پکڑے گئے تو بچ نہ پائو گے۔ انہیں کہیں چھپا لو تو اچھا ہے۔‘‘
’’شیر دل بھائی! تم فکر نہ کرو، میں تو رات رات کو سفر کروں گا، اور یوں بھی مجھے بدخشاں نہیں، پکتیا جانا ہے۔ زبیر بھائی کے بارے میں جو تم نے بتایا ہے، یہ بہت پریشان کن ہے۔ میںکوشش کروں گا کہ یہ اطلاع جلدازجلد زبیر کے کمانڈر اور جمال اور کمال تک پہنچ جائے تاکہ وہ اس سلسلے میں جو پیش رفت کرنا چاہیں یا کوئی پروگرام طے کرنا چاہیں، کرلیں۔‘‘
عبداللہ نے قریب کھڑے اپنے بیٹے کریم خان کو اشارہ کیا۔ وہ دوڑ کر کمرے سے اس کا سفری بیگ اٹھا لایا۔ عبداللہ نے بیٹے کو گلے لگا کر پیار کیا اور محنت سے پڑھنے اور ماں کا خیال رکھنے کی تلقین کی، اور شیردل سے بولا ’’دل تو چاہتا تھا کہ تمہارے ساتھ گرم گرم قہوے اور گپ شپ کا مزا لیا جائے، لیکن میرے دوست ابھی مجھے لمبا سفر کرنا ہے، دعا کرنا کہ راستے میں جہاں روسیوں سے مڈبھیڑ ہو، خدا ہمیں غالب کرے، خدا حافظ…‘‘
عبداللہ شیردل سے ہاتھ ملا کر تیز قدموںسے اندھیری گلی میں غائب ہوگیا۔ شیردل نے کریم خان کو دروازہ بند کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی باپ کے جانے کی خبر ہمجولیوں اور دیگر لوگوں میں پھیلانے سے منع کیا۔
کریم خان دروازہ بند کرتے کرتے رک گیا۔
’’کیوں چاچا؟‘‘
’’اس لیے او خانِ خاناں کہ تیرا باپ منزل پر بحفاظت پہنچ جائے۔ پھر بے شک سب کو بتادینا۔ بس ابھی ساری دنیا کو خبر کرکے روسی کارندے اس کے پیچھے لگانے کی ضرورت نہیں۔ سمجھا کہ نہیں سمجھا؟‘‘ شیردل نے اس کے موٹے موٹے سرخ گالوں کو اپنے کھردرے سخت ہاتھوں کے پیالے میں لے کر پوچھا۔
شیردل گھر آیا تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔ اس نے جلدی جلدی وضو کرکے صفیہ کو اٹھایا اور مسجد کی راہ لی۔ زینب نے دن کو لگے بندھے اوقات میں بانٹ دیا تھا۔ صبح فجر کے بعد ناشتے کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے لی تھی، پھر جب بچے اسکول چلے جاتے تو وہ فاطمہ اور گل جانہ کو لے کر پڑھانے بیٹھتی۔ زینب نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ پڑھنا لکھنا بخوبی جانتی تھی۔ ساتھ ہی چھوٹا موٹا حساب کتاب بھی کرلیتی تھی۔ اب بھائی شیردل سے ابتدائی قاعدے کی کتابیں منگوا کر دو گھنٹے دونوں بچیوں کو پڑھاتی۔ گیارہ بجے جب ذرا دھوپ چڑھ جاتی تو مشین لے کر صحن میں بیٹھ جاتی اور سلائی شروع کردیتی۔ دونوں بچیاں زینب کی سلائی کے چھوٹے چھوٹے کپڑے اور کترنیں جمع کرکے اس کے کپڑے سیتیں۔ زینب نے کپڑے کی گڑیا اور گڈا دونوں کو بناکر دے دیے تھے، بس جیسے دونوںکی عید ہوگئی تھی، لیکن ساتھ ہی زینب نے دونوں سے وعدہ لے لیا تھا کہ دل لگا کر پڑھائی کریں گی اور پڑھائی سے جی نہیں چرائیں گی۔ زینب اور گل جانہ گڈے اور گڑیا کو پاکر اتنی خوش تھیں کہ اگر زینب اور بھی کوئی وعدہ لینا چاہتی تو وہ بخوشی راضی ہوجاتیں۔
صفیہ بھی اس معاملے میں مطمئن تھی کہ ایک طرف بچیاں پڑھنا لکھنا سیکھ رہی تھیں اور دوسری طرف سلائی کے ہنر کی طرف بھی ان کا خوب دھیان تھا۔ کبھی کترنوں سے گڑیا کی قمیص سل رہی ہے، کبھی گڈے کا شلوار سوٹ تیار ہورہا ہے۔
’’اچھا ہے اسی طرح کھیل کھیل میں سلائی کڑھائی بھی آجائے گی۔‘‘ صفیہ اطمینان سے اظہار خیال کرتی۔ دوپہر کے کھانے کا سارا انتظام صفیہ کے ذمے تھا۔ شیردل دوپہر کو اسکول سے فارغ ہوکر بچوں کو لے کر گھر آتا تو کھانا تیار ہوتا۔ کھانا کھا کر نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ دکان کا رخ کرتا جہاں مہرو اس کا منتظر ہوتا۔
جس وقت کوئی گاہک نہ ہوتا، شیردل مہرو کو کتابیں لانے کے لیے کہتا اور مہرو کی پڑھائی شروع ہوجاتی۔ پڑھائی لکھائی کے مقابلے میں مہرو حساب کتاب میں تیز تھا کہ دکان میں دن بھر یہی کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال پھر بھی اٹک اٹک کر دو چار جملے پڑھ لیتا تھا۔
زینب شام کو چار پانچ بجے اپنا سلائی کا کام سمیٹ دیتی۔ ہلال، بلال اسکول سے آکر اپنا کام کرتے اور پھر تھوڑی دیر کھیل کر ماموںکے پاس دکان پر چلے جاتے۔
شیردل کے اپنے دونوں بیٹے گلروز اور مہروز اسکول کے آخری امتحان کی تیاری کے سلسلے میں آج کل دکان نہیں آرہے تھے۔ شیردل نے انہیں خود ہی منع کیا تھا اور تاکید کی تھی کہ اسکول کے بعد مغرب تک وہ بیٹھک میں اپنے امتحان کے لیے پڑھائی میں مصروف رہیں۔ میٹرک کا امتحان چوں کہ حکومت کی طرف سے لیا جاتا تھا لہٰذا اس کے لیے زیادہ محنت کے ساتھ تیاری کی ضرورت تھی۔
رات کے کھانے کی روٹی زینب خود تنور میں تیار کرتی۔ سالن یا تو صبح کا بچا ہوا ہوتا یا دہی اور گڑ ہی سے کھانا کھا لیا جاتا، ساتھ دودھ کا ایک ایک گلاس ملتا۔
کبھی کبھی بلال اور ہلال اپنے ریوڑ کی کہانیاں گل روز اور مہروز کو سناتے تو دور کھڑی گل جاناں مرعوب سی ہو جاتی۔ پھر فاطمہ کو بھی اپنے چوزوں کی یاد آتی۔
’’اب تو چوزے بڑے ہو گئے ہوں گے؟‘‘ فاطمہ ماں سے پوچھتی۔
’’ہوں…!‘‘ زینب سر ہلاتی۔
’’مرغی بنے ہوں گے یا مرغے؟‘‘ دوسرا سوال ٹیڑھا تھا۔ زینب خاموش رہتی۔
’’شاید انڈے بھی دیتی ہوں اگر مرغی بنی ہوں گی تو؟‘‘
زینب بولتی ’’شاید…‘‘
’’اب تک تو بہت سے انڈے دے دیے ہوںگے، زرغونہ چاچی پھر انڈوں کا حلوہ بناتی ہوں گی؟‘‘ شیخ چلی کے سے سوالات پر زینب عاجز آجاتی۔
’’دیکھو بھائی شاید تمہارے گڈے کی ٹھکائی کررہا ہے۔‘‘ وہ اس کا دھیان بٹانے کے لیے کمرے سے آنے والی آوازوں کی طرف توجہ دلاتی۔ فاطمہ اور گل جاناں دونوں تیر کی طرف کمرے کا رخ کرتیں، لیکن وہاں تو بھائیوں کے درمیان شمشیر زنی کا مقابلہ ہورہا ہوتا۔ لمبی لمبی لکڑیاں ہاتھوں میں شمشیروں کی طرح تھامے گل روز اور مہروز اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہوتے۔ فاطمہ اور گل جاناں کے علاوہ بلال اور ہلال بھی تماشائیوں میں شامل ہوتے اور تحسین و آفرین کے نعرے زور شور سے بلند ہوتے۔
شیر دل نے عصر کے بعد جسمانی تربیت کے لیے انہیں قصبے کے باہر میدان میں بھیجنا ایک عرصے سے شروع کیا ہوا تھا، جہاں سردار احمد خان قصبے کے بچوںکو ورزش کے ساتھ ساتھ جسمانی لڑائی کے دائو پیچ بھی سکھاتا تھا۔ کچھ عرصے سے نشانہ بازی کی تربیت موقوف کر رکھی تھی کہ حکومت نے روسیوں کی افغانستان میں باقاعدہ آمد کے بعد ان کی ہدایت پر ایسی ہر قسم کی سرگرمیوں کی سختی سے ممانعت کررکھی تھی۔
…٭…
دوسرے دن منہ اندھیرے جب زبیر فجر کی نماز ادا کررہا تھا، دروازہ کھلا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر زبیر نے دعا کے لیے اٹھے ہاتھ جلدی سے منہ پر پھیرے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ دو سپاہی کلاشنکوف سے مسلح اندر آئے اور اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ زبیر نے ناظم اللہ کے بستر پر نظر ڈالی۔ وہ گہری نیند سویا ہوا لگ رہا تھا۔ سپاہی نے جلدی کرنے کا اشارہ دیا۔
زبیر نے جوتوںمیں پائوں ڈالا اور سپاہیوں کے ساتھ باہر کا رُخ کیا۔ ’’پتا نہیں دوبارہ یہاں آنا ہوگا بھی یا نہیں؟‘‘ زبیر نے دل میںسوچا۔
سپاہی اسے لے کر اُسی آفیسر کے دفتر میں آئے جہاں پہلے دن لائے تھے۔ وہ بڑی سی میز کے پیچھے انتہائی انہماک کے ساتھ کسی فائل کے مطالعے میں مصروف تھا۔ سپاہیوں نے کھٹا کھٹ سلیوٹ مارا تو اس نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔
’’ہوں زبیر خان! اب تمہارا کیا پروگرام ہے؟‘‘ اس نے مسکرا کر زبیر سے پوچھا۔
’’ہونہہ ایسے کہہ رہا ہے کہ جیسے میرے پروگرام پر عمل کے لیے بے تاب و بے قرار ہو۔‘‘ زبیر نے دل ہی دل میں طنزیہ انداز اختیار کیا۔ لیکن بظاہر بڑے دوستانہ انداز میں مسکرایا۔
’’سر! یہ مہلت جو آپ نے مجھے دی تھی، میں نے اسے بڑے سوچ بچار میںگزارا ہے۔ میں نے بہت سوچا اور بالآخر ایک فیصلے پر پہنچ گیا۔‘‘
’’ہوں…! تو تم بالآخر کس فیصلے پر پہنچے؟‘‘ اس نے دلچسپی کے ساتھ پوچھا۔
زبیر نے پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ دو، تین لمبے لمبے سانس لیے، جیسے بے انتہا گھبراہٹ کے عالم میں ہو، پھر سر جھکا کر آفیسر سے پوچھا ’’کیا میں بیٹھ سکتا ہوں؟‘‘
’’آف کورس! کیوں نہیں۔‘‘ زر خان ایک گلاس ٹھنڈے گلوکوز کا پلائو۔‘‘ اس نے فوجی کو ہدایت کی۔ زبیر خان اپنے آپ کو مکمل گھبراہٹ میں ظاہر کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
’’سر! اگرچہ مجھے زیادہ معلومات نہیں ہیں، لیکن جو کچھ معلوم ہے وہ میں آپ کو ضرور پہنچائوں گا۔ البتہ اس سلسلے میں دو باتیں آپ سے ضرور چاہوں گا، ایک تو یہ کہ مجاہدین کو اس کی بھنک نہیں ملنی چاہیے ورنہ آپ کو پتا ہے کہ وہ لوگ میری جان کے دشمن بن جائیںگے، اور دوسرے میرے بیوی بچوں کو بالکل پریشان نہ کیا جائے ورنہ میں ان کی نظر میں اگر مشکوک ٹھیر گیا تو وہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیں گے۔ آپ کو تو افغانوں کی روایات کا علم ہی ہے۔‘‘ زبیر نے بات مکمل کی اور غور سے آفیسر کی طرف دیکھا ۔ وہ بغیر کسی تاثر کے زبیر کی بات غور سے سن رہا تھا۔ اس کی دائیں جیب کے اوپر بیج لگا تھا جس پر اس کا نام ’’فیروزے خان‘‘ تحریر تھا۔
’’اچھا تو یہ افغان ہے، روسی نہیں۔‘‘ زبیر نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’ٹھیک ہے جوان! تمہاری بات پر ہمدردی سے غور کیا جائے گا۔‘‘ اس نے اپنے سامنے پڑی فائل بندکرکے سپاہی کے حوالے کی اور اسے زبیر کو اپنے اسسٹنٹ کے پاس لے جانے کی ہدایت کی۔
زبیر نے دل میںسوچا کہ یہ شاید کوئی انویسٹی گیشن آفیسر ہوگا، لیکن وہ تو ایک عام افغان سیکریٹری تھا۔ سپاہی برابر کے کمرے میں زبیر کو لے کر داخل ہوا اور زبیر کو اس کے حوالے کردیا اور خود باہر چلا گیا۔
اس آفیسر نے سوالات کا ایک پلندہ نکالا اور ٹیپ ریکارڈ آن کرکے خود بھی قلم کاغذ سنبھال لیا۔ سوالات ہر طرح کے تھے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات اور بڑی سے بڑی بات… ہر چیز اس کے احاطے میں تھی۔
’’یااللہ اتنے سوال جواب تو شاید حشر میں بھی نہ ہوں۔‘‘ زبیر نے دل میں سوچا۔ سامنے دیوار پر گھڑی دیکھ کر اس نے کہا ’’بارہ بج رہے ہیں، میں نے تو ناشتا بھی نہیں کیا، بھائی تمہارے سوالات کا سلسلہ کب تک چلے گا؟‘‘ زبیر نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
آفیسر نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ میز پر رکھ کر زبیر کی طرف دیکھا ’’واقعی…؟‘‘
’’ہاں جناب! یہ لوگ مجھے صبح نماز کے بعد ہی لے آئے تھے۔‘‘
’’ضمیر خان! ضمیر خان…!‘‘ اس نے آواز دی اور زبیرکے لیے ناشتا لانے کی ہدایت کی۔
’’واہ ضمیر خان! یہاں ضمیر کا بھلا کیا کام؟‘‘ زبیر نے دل ہی دل میں کہا۔ تھوڑی دیر میں ضمیر خان ٹرے ہاتھ میں لے کر آگیا۔ ’’جائو وہاں بیٹھ کر ناشتا کرلو۔‘‘ سوال کرنے والے آفیسر نے اشارہ کیا۔
زبیر دل ہی دل میں خوش ہوا کہ سوالات سے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، نجات تو ملی۔ اب ذرا دوبارہ اپنی پلاننگ کا جائزہ لینا چاہیے۔ ناشتے کے دوران وہ یہی سوچتا رہا۔ اب تک اس نے سارے سوالات کے صحیح صحیح جواب دیے تھے، کیوں کہ یہ زیادہ تر نجی زندگی کے بارے میں تھے، اور یہ بات اس نے دل میں پہلے ہی طے کررکھی تھی کہ اپنے بارے میں تو وہ صحیح معلومات دے گا، کیوں کہ وہ اس سب کی خود بھی تصدیق کریں گے اور غلط بیانی کی صورت میں اعتبار قائم ہونا ممکن نہ ہوگا، لیکن مجاہدین اور محاذِ جنگ کے بارے میں بہت محتاط رہے گا۔
اس وقت بھی چائے پیتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھا کہ ابھی تک تو انہوں نے ذاتی سوالات ہی کیے ہیں لیکن یقینا بہت جلد اس موضوع پر آجائیں گے۔ اگلے کئی دن اسی طرح مصروف رہے، پھر اس کے بعد کچھ ماہ کے لیے زبیر کو دوبارہ اسی کمرے میں عیش کے لیے بھیج دیا گیا۔ لیکن اب اتنی سہولت تھی کہ ایک تو سپاہی اچانک نہ آدھمکتے تھے اور دوسرے شام کو کچھ دیر کے لیے اسے ناظم اللہ کے ساتھ کمروں کے باہر بنے باغ میں چہل قدمی کی اجازت مل گئی تھی۔
(جاری ہے)

حصہ