ناگہانی آفت عوام اور حکمرانوں کا رویہ

302

عبدالعزیز غوری
کسی ناگہانی آفت کے موقع پر قومیں متحد ہو کر صبر کے ساتھ اس سے باہر نکلنے کی سرتوڑ کوششیں کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کا سہارا بنتی ہیں کسی کو بے سہارا نہیں چھوڑتییں۔۔۔
حکمران خادم بن جاتے ہیں۔۔۔ امیروں کی دولت میں غریب حصہ دار بن جاتا ہے۔۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مصیبت اللہ کی طرف سے آئی ہے اور وہی اسے ٹال سکتا ہے تو وہ سب اللہ کی طرف رجوع اختیار کرتے ہیں۔۔۔۔ اس موقع پر سود خور سود سے، زانی زنا سے، حاکم ظلم سے، تاجر ملاوٹ اور منافع خوری سے، میڈیا فحاشی و بے حیائی پھیلانے سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو ترجیح دینے والے اپنے کفر پر توبہ کرتے ہیں اس کے برعکس جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی آفتیں تو آتی رہتی ہیں وہ اپنے ذہن کے مطابق اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں تو گویا ایک ہی چیز سے کچھ لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے کچھ لوگ کفر میں مضبوط ہو جاتے ہیں اس وقت دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے۔۔
جو ظالم قومیں، جنہوں نے دنیا کو لوٹا ہے انسانیت کا خون بہایا ہے، جنہوں نے فطرت سے بغاوت کی ہے، اپنی طاقت اور وسائل پر ان کو بھروسا ہے، وہ آسمانی کتابوں کی ہدایت کو نہیں مانتے، جو عذاب وثواب کے قائل نہیں ہیں جنہوں نے اپنی کبریائی اور خدائی کا اعلان کیا ہوا ہے اور وہ مصیبت کو بھی نعمت سمجھ رہے ہیں، انہوں نے اپنا کاروبار زندگی معطل کردیا ہے اور ساری دنیا سے بھی ان کا کاروبار زندگی بند کروا رہے ہیں۔۔۔۔
80% لوگے ایسا کر چکے ہیں اور جن ساہوکاروں نے دنیا کو اپنی معاشی گرفت میں لے رکھا ہے وہ اس موقع پر 10 فیصد امداد اور 90 فیصد سود پر قرضہ دے رہے ہیں۔۔۔
اس طرح آئندہ سو سال کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں تیسری دنیا کا کوئی غریب ملک ان کے پھندے سے آزاد نہیں ہوسکتا پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے 80 فیصد کاروبار معطل کردیا ہے حکمرانوں کا کہنا ہے کہ گھروں پر بیٹھے رہنے، کاروباری زندگی کو بند کرنے، عبادت گاہوں کو بند کرنے سے، سماجی رابطے ختم۔ کرنے سے وبا بہت جلد ختم ہوجائے گی۔۔
حکومت نے بے روزگار، کم آمدنی والے اور غریب لوگوں کو ضروریات زندگی مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا، راشن اور کھانا پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔۔ حکومت نے اپنے وعدے تو پورے نہیں کیے،مگر عوام سے ڈنڈے کے زور پر اپنی بات منوانے پر تلی ہوئی ہے۔۔۔
حکومتوں اور علماء کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، تو علماء نے تو معاہدے کی پاسداری کی مگرحکومت نے معاہدے کی دھجیاں اڑادیں۔۔۔۔
دوسرے ملکوں میں بھی حکومتوں کو دشواری پیش آرہی ہے مگر وہاں ڈبل سواری کے الزام میں کسی کو سرعام مرغا نہیں بنایا جا رہا، انکی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جارہا،
جائز حاجت کے لیے بھی جانے والوں کو ذلیل نہیں کیا جارہا، کیا باقی ملکوں کی حکومتیں اپنی عوام کے ساتھ یہی سلوک کر رہی ہیں؟ کیا وہاں بھی ضرورت مندوں پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں ؟ کیا وہاں بھی غریبوں کا سامان زمین پر پھیکا جا رہا ہے؟
کرونا وائرس ایک عام وبا ہے مگر مریضوں کے ساتھ تو دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے مریضوں کے گھروں پر پولیس چھاپہ مارتی ہے جیسے کوئی بڑا مجرم چھپا ہوا ہے۔ پھر ان کو قرنطینہ سینٹر میں بند کر دیا جاتا ہے۔۔۔ عام بیماری میں مرنے والوں کو بھی کرونا کا مریض بتایاجارہا ہے، نہ کوئی شخص غسل دینے کے لئے تیار ہے نا دیکھنے کے لئے۔۔۔۔ جنازے میں شرکت کرنے سے لوگ کتراتے ہیں خاموشی کے ساتھ دفنایا جا رہا ہے اہل خانہ بناتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ گویا مرنے والا عبرت کا نشان بنتا جارہا ہے۔۔۔
حکومت سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جب تمہیں معلوم ہو گیا تھا کہ پاکستان اس کی زد میں آئے گا دو پڑوسی ممالک ایران اور چین میں پھیل چکا ہے تو حکومت نے کیا انتظام کیا؟ حکومت نے ایمرجنسی تو نافذ کر دی مگر حکومت نے ڈاکٹروں کی حفاظتی کٹس کا انتظام کیوں نہیں کیا؟
فیس ماسک بلیک میں بکتے رہے، سینیٹائزر مارکیٹ سے غائب ہوگئے مگر حکومت کے کان پر جوں تک نا رینگی، 22 کروڑ عوام کے لیے چند سو وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔۔۔۔ سندھ حکومت کی جانب سے راشن کی تقسیم غیر منصفانہ ہوئی اور جو راشن ملا وہ بھی دو نمبر اور ایکسپائر مہیا کیا گیا۔۔۔۔
حکومت نے عوام کو ٹیسٹ کی کیا سہولیات مہیا کیں ہیں ؟
اب تک کتنا پیسہ کرونا کے نام پر ہم ضائع کرچکے، جب تمام سیاستدان، علماء، عوام حکومت کی بات سن رہے ہیں تو حکومت اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھاتی؟ کیا حکومت کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عبادت گاہیں، تعلیم گاہیں بند کرادے، کاروبار زندگی معطل کردے اور اگر عوام اپنا حق مانگے تو ان کو مرغا بنا کر ان کو بے عزت کیا جائے۔۔
یہ عوام ہی ہے جن کے خون پسینے کی کمائی پر حکمران عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔
یہی عوام حکمرانوں کو اپنا کندھا دیکر اقتدار کی کرسی پر بٹھاتے ہیں۔۔۔۔ عوام ہی ہیں جنہوں نے یہ ملک بنایا یقین نہیں آتا تو تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ پاکستان کی بنیادوں میں کس کا خون ہے سب اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو پتہ چل جائے گا کہ کس کے خون سے یہ گلشن آباد ہوا ہے۔ عوام ہی قوم ہے۔۔۔۔ یہی ملک ہے۔۔۔۔ لہٰذا اس کو عزت دو۔۔۔۔۔ اس کا احترام کرو۔۔۔۔ اس کے ساتھ محبت سے پیش آؤ۔۔۔۔ اس کو اس کا حق دو۔۔۔۔ یہ وقت تو گزر جائے گا مگر جو بھی جو عمل کرے گا وہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔۔۔
اللہ رب العزت ہمیں اور پوری دنیا کو اس آفت سے چھٹکارا نصیب کرے۔۔۔ آمین

حصہ