میری وال سے

377

افشاں نوید
آج لاہور ایئرپورٹ پر ان لوگوں نے طیارے میں سوار ہونے سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھی ہوگی۔ کچھ لوگوں نے نیا لباس بھی شاید زیب تن کیا ہو۔
اسلامی شعائر میں جمعة الوداع کی خاص اہمیت ہے۔
آج کا جمعہ تو سچ مچ وداع کرگیا۔
شہداء نے ایئرپورٹ پر اپنے پیاروں کو میسج کیے ہوں گے، جہاز کی سیٹ پر بیٹھ کر ٹیک آف سے قبل میسج کیے ہوں گے، لینڈنگ کا وقت بتایا ہوگا۔
انگلیاں موبائل اسکرین پر مسلسل حرکت میں ہوں گی۔ دل ملن کی تمنا سے بے تاب دھڑک رہا ہوگا۔ یوں بھی ایک دن کا فاصلہ تو تھا ان کے اور عید کے درمیان۔
ہمارا خوب صورت تہوار، جہاں ایک طرف رمضان المبارک کے مکمل ہونے کی خوشی ہوتی ہے کہ اللہ نے ہمیں زندگی میں ایک اور رمضان عطا کیا۔۔ رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ۔۔ اللہ نے ہمیں روزوں کی، شب بیداری کی، نوافل کی توفیق عطا کی۔
عید رمضان اور قرآن کے شکریے کا عنوان ہے۔
وہ مسافر تھے جو رمضان کی مبارک ساعتیں تقریباً گزار کر عید کی پوری تیاری کے ساتھ جہاز میں سوار ہوئے تھے۔
وہ وقت جب جہاز کٹی پتنگ کی طرح فضاؤں میں ہچکولے لے رہا تھا۔۔۔ ایک مسلمان کی اُس وقت کیا کیفیت ہوگی؟
وہ بآوازِ بلند کلمہ شہادت پڑھ رہے ہوں گے، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور نئی زندگی کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے۔
مسلمان تو موت کو ناپید ہونا نہیں سمجھتا۔
جب ہم قرآن میں تباہ شدہ بستیوں کے احوال پڑھتے ہیں کہ اپنی چھتوں پر اوندھے پڑے رہ گئے تو تصور نہیں آتا۔
آج تصاویر میں ٹوٹے، بکھرے ہوئے گھر نظر آرہے ہیں۔۔ جو چند ثانیے قبل ہنستے بستے گھر تھے، لمحوں میں کھنڈر بن گئے۔
جہاز کے سفر میں جب جہاز لینڈنگ کی تیاری کرتا ہے تو گھر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جب فضا سے گھر نظر آتے ہیں تو کیفیت ناقابلِ بیان ہوجاتی ہے کہ۔۔۔ بس اب گھر آگیا۔۔ وہ گھر ہی تو ہے، اپنا پیارا گھر، جس کے لیے انسان ہر طرح کے دکھ جھیلتا ہے۔ اپنےگھر میں عافیت پاتا ہے، سکون کی ٹھنڈی چھاؤں۔۔۔
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے
گھر تو آخر اپنا ہے۔۔۔
لیکن۔۔۔ کبھی کبھی بستی آجاتی ہے اور گھر نہیں آتا۔ گھر آجاتا ہے مگر گھر میں داخلہ نصیب نہیں ہوتا۔
جہاز کے مسافر تو سفر میں تھے اور سفر خطرات کا نام ہے۔
لیکن ماڈل کالونی کے لوگ تو اپنے گھروں میں تھے۔ جہاز گھر پر گر پڑے گا یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔
بچپن سے اب تک جہاز سروں پر سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں، کبھی تصور بھی نہیں آتا کہ یہ جہاز کٹی پتنگ کی طرح ہمارے اوپر گر پڑے گا۔ بستیوں کو آن کی آن میں تاراج کردےگا۔
وہ تو عید کی خوشیاں بانٹنے آئے تھے۔ مگر گھر آئے ہی نہیں، رستے سے ہی راستہ بدل لیا۔
اب وہ میسج کتنے تاریخی ہوگئے جو شہیدوں نے اپنے پیاروں کو کیے تھے۔ اب وہ انگلیاں اسکرین پر کبھی حرکت میں نہیں آئیں گی۔
اب وہ دل کبھی نہیں دھڑکیں گے۔۔۔ ہاں ان کے پیاروں کے دل انہی کے لیے دھڑکتے رہیں گے، اس لیے کہ
نظر میں رہتے ہو
جب تم نظر نہیں آتے
کسی نے کہا ہوگا: امی اتنے بجے پہنچ رہا ہوں۔ میری فلاں پسندیدہ ڈش تیار رکھیے گا۔
ماں خوشی سے سرشار تیاری میں لگی ہوگی۔
کسی کے بیوی بچے منتظر ہوں گے۔
کسی کی عید کے چاند شادی طے ہوگی۔
جہاز کے حادثے کے بعد اخبار کے صفحہ اول پر عملہ کی تصوير بھی بہت دردناک ہوتی ہے۔ چاق چوبند فضائی میزبان، وہ جوانِ رعنا تو جہاز کا پائلٹ تھا جو لینڈنگ سے پہلے ہی فضاؤں سے بلا لیا گیا۔۔۔
کتنے دوست منتظر تھے دوستوں کے۔
آج دوپہر سے گھر میں خاص تیاریاں ہورہی ہوں گی کہ مسافر آیا ہی چاہتا ہے۔ گھروں میں عید کی تیاری کا الگ ہی سماں ہو گا، اپنے پیاروں سے ملن کوئی عید سے کم ہوتا ہے!!!
ہونی شدنی۔۔۔
ہونے والا واقعہ لمحوں میں ہو جاتا ہے اور ہمارے دل دکھ سے بھر جاتے ہیں۔
مومن کا معاملہ بھی بڑا عجیب معاملہ ہے۔ جب مارگلہ کی پہاڑیوں پر جہاز کریش ہوا، وہ عظیم حادثہ تھا۔
ہم کچھ شہداء کے گھروں پر گئے تو وہاں بڑا سکون و اطمينان پایا، بلکہ وہ شہادت کی مبارک بادیں وصول کررہے تھے۔
ایک شہید بچے کی امی بولیں ”مجھے کسی نے کہا شہید پر رویا نہیں کرتے تو میرے نہ صرف آنسو خشک ہوگئے بلکہ میرا دل اطمينان سے بھر گیا کہ میرا بچہ جنت میں ہے ان شاءاللہ۔ شہادت کا بڑا رتبہ ملا ہے میرے خاندان کو۔“
یہ عقیدہ بڑی چیز ہے۔ عقیدہ ہی زندگی ہے اور حسن زندگی ہے۔
زندگی حادثات سے پُر ہے۔۔
اگلے پل کی خبر نہیں۔۔
اگر ہمیں زندگی کی بے ثباتی کا درس مل گیا کہ اگلے لمحے کو اپنا نہ سمجھیں، اگلی نماز اپنی نہ سمجھیں، ایک دن بعد آنے والی عید کو اپنا نہ سمجھیں۔۔۔
وہ کیسی پاکیزہ زندگی ہے جو زندگی کی حقیقت کو سمجھ لے۔۔ بے ثباتی کو سمجھ لے۔
جن کے پیارے رستے سے ”اپنے گھر“ چلے گئے، اللہ صبر کا مرہم رکھ دے ان کے پیاروں کی جدائی کے زخموں پر۔
…چ…چ…
جہاز کریش ہونا ٹی ٹوئنٹی کی ناکامی نہیں ہے۔۔۔
2019ء کے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شکست کے بعد اس طرح کے تجزیے سامنے آئے۔
٭چار کیچ ڈراپ نہ ہوتے تو میچ کا پانسہ ہمارے حق میں پلٹ جاتا۔
٭وائیڈ بال پر چھکا لگانے کی کوشش میں وکٹ کھودی۔
٭رن لینے کی رفتار بہتر ہوتی تو اتنے رن بنانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔
٭پچھلے سیزن کی تھکی ہوئی کارکردگی کے باوجود ٹیم میں فلاں کی شمولیت سوالیہ نشان ہے۔
٭اس وکٹ پر ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ ہی مضحکہ خیز تھا۔
اس طرح کے تجزیے 1980ء کی دہائی کے ورلڈ کپ میں شکست کے بعد بھی سامنے آئے۔ لیکن المیہ یہ کہ چالیس سال گزرنے کے باوجود گراس روٹ لیول پر ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا۔
بعد از شکست، بعد از حادثہ، بعد از وفات، بعد از خسارہ باتیں اور تجزیے تو ہوتے ہیں۔
فلاں رپورٹ تاخیر سے ملی، فلاں ڈاکٹرز کی وجہ سے بیماری نے طول پکڑا وغیرہ۔ لواحقین دل ہلکا کرتے، بوجھ بانٹتے ہیں دکھوں کا، تبصرے کرکے۔
مگر۔۔۔
سب سے دل خراش وہ تجزیے ہوتے ہیں جو جہاز کریش ہونے کے بعد ہوتے ہیں۔
٭ پائلٹ دوسرا آپشن استعمال کرسکتا تھا۔
٭ لینڈنگ گیئرز اور دونوں انجن فیل ہونے کے باوجود کامیاب لینڈنگ کی جا سکتی ہے۔
٭ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے توجہ دلانے کے باوجود پرزے فراہم نہ کیےگئے۔
٭ پائلٹ نے ہنگامی حالات میں ہدایات پر عمل نہیں کیا۔
٭ تین ہزار فٹ کی اجازت دی تھی، دو ہزار فٹ سےکیوں ٹرن لیا۔
٭ سول ایوی ایشن کی کارکردگی عرصے سے سوالیہ نشان ہے۔
٭ فضائی کمپنیاں کرپشن کی بھینٹ چڑھ چکیں۔دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔کسی ترقی یافتہ ملک میں یوں نہ ہوتا۔
یہ کرکٹ میچ کی شکست نہیں ہے۔آپ سوچیں ان تبصروں سے لواحقین پر کیا بیتتی ہوگی! یہ تبصرے ٹی وی چینلز پر ہونے چاہئیں یا پالیسی ساز ادارے ان کا صحیح فورم ہیں؟
دنیا بھر میں فضائی حادثات ہوتے ہیں لیکن حادثے کے بعد تحقیقات اور آئندہ کے ٹھوس اقدامات بھی ہوتے ہیں۔
بڑے سے بڑے حادثے کے بعد نشستند، گفتند،برخاستند ہماری ملّی روایت بن گئی ہے۔
دیکھیں کرکٹ کی شکست کی طرح تبصرے کرکے کام نہیں چلے گا۔
کررونا کے بعد تجارت کے بڑے سے بڑے خسارے کی تلافی کی صورتیں بن جائیں گی۔ زندگی میں کسی بھی خسارے کی تلافی کی صورتیں ہوسکتی ہیں۔
مگر۔۔۔
جن پیاروں نے لمحہ بھر میں خاک کی ردا اوڑھ لی۔
وہ عزیز از جان شریکِ حیات
وہ روشن پیشانیوں والے کھلنڈرے جوان
وہ خاندان جو عید کی خوشیاں باٹننے آرہے تھے
وہ ماں اور باپ جو بن خدا حافظ کہے پہلی بار گئے ہیں
”جانے کا غم نہیں مگر بتا کر چلا جاتا“۔
بوڑھی ماں کا معصوم شکوہ
موت برحق ہے مگر تقدیر کا لکھا کہہ کر کچھ مجرموں کے چہروں پر نقاب نہیں ڈالی جاسکتی۔
قوم مجرموں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے۔
یہ آفات فضائی کمپنی کے بکروں کی قربانی سے ٹلنے والی نہیں ۔
ہمیں یقین ہے کہ اگلی فلائٹ سے قبل سول ایوی ایشن بکروں کی قربانی ضرور اپنے ایس او پیز میں شامل کر لے گی۔
…چ…چ…
ہماری امی کا انتقال 8 رمضان کو ہوا، 22دن بعد عید آئی۔
اللہ نے روزے رکھنے کی توفیق دی۔ جو کپڑے ہم نے عید کے بنائے تھے، پہن کر تیار ہوکر ہم امی کے گھر گئے تو وہاں موجود رشتے دار خواتین جو ملگجے کپڑے پہنے انتہائی غم زدہ بیٹھی تھیں، ہمیں دیکھ کر عجیب سے تاثرات کا اظہار کیا کہ:
گویا ہم نے عید کیوں منائی، ہماری تو ماں کا انتقال ہوا تھا۔
ہم اکثر دیکھتے ہیں فلاں کے سوگ میں خاندان میں عید نہیں منائی گئی۔
ہم بچپن سے سنتے تھے کہ کشمیر جب تک آزاد نہیں ہوگا ہمیں عید منانے کا حق نہیں، یا غزہ کے مسلمان جب تک سُکھ کا سانس نہیں لیں گے ہم عید نہیں منائیں گے۔
ہمیں کچھ نظریات درست کرنے کی ضرورت ہے۔
عید کا تعلق نہ مسلم امہ کے حالات سے ہے، نہ اجتماعی امور کے ساتھ۔ عید صرف روزے دار کا تحفہ ہے اللہ کی طرف سے۔
بالفرض مسلم امہ کے حالات بہت اچھے ہیں، نشاۃ ثانیہ کا دوردورہ ہے۔ دودھ، شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، مسلم دنیا کی تیل کی دولت علوم و فنون پر خرچ ہورہی ہیں اور دنیا کی 5 ٹاپ یونیورسٹیاں عالم اسلام کی ہیں۔
ان حالات میں بھی اُس مسلمان کو عید منانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا جس نے بلا عذرِ شرعی روزے نہ رکھے ہوں۔
ایک روزہ خوار چاہے ایک ہزار لوگوں کو کپڑے پہنادے، کھانا کھلا دے، اس کی عید نہیں ہے، کیونکہ عید روزے کے ساتھ وابستہ ہے، نہ کہ صدقے کے ساتھ۔
آپ کے عید نہ منانے سے کشمیریوں، فلسطینیوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، اُن کو فرق پڑے گا آپ کے عملی اقدامات سے۔
ہم اللہ کے دیے ہوئے تحفے عید۔۔۔ جو صرف روزے داروں کے لیے ہے۔۔۔ کو نہ منا کر ناشکری کرتے ہیں۔ اسلام میں عید منانے کا تصور اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور جائز خوشیاں بانٹنے کا تصور ہے۔ ہماری عید ہولی، دیوالی یا کرسمس کی طرح کا کوئی تہوار نہیں ہے۔
کچھ فیس بک پوسٹیں نظر سے گزریں کہ ہمارے اجتماعی حالات ایسے ہیں، اللہ کے عذاب آرہے ہیں، ہمیں عید منانے کا حق نہیں۔۔۔ تو ضروری محسوس ہوا کہ اس بات کو واضح کردیا جائے کہ عید رمضان کے روزے رکھنے والے کے لیے شکرانے کا نام ہے۔

میری عیدی مذاق عام سے ہو مختلف شورش
رفیقانِ قلم کو ڈٹ کے لڑنے کی دعا بھیجوں

حصہ