ممتاز ماہر تعلیم، صاحب نظر ادیب اور دانشور پروفیسر انوار احمد زئی اپنی ذات میں ایک ادارہ

327

اختر سعیدی

ہر آن بڑھتا ہی جاتا ہے رفتگاں کا ہجوم
ہوا نے دیکھ لیے ہیں چراغ سب میرے

جمال احسانی کا یہ شعر کتنا سچا ہے۔ رفتہ رفتہ علمی اور ادبی دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔ جو جا رہا ہے اس کا کوئی نعم البدل نظر نہیںآتا‘ جو خلا پیدا ہو رہا ہے وہ کیسے پُر ہوگا؟ مجھے تو دور تک سناٹا دکھائی دے رہا ہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی بھی راہی ملکِ عدم ہوئے۔ بلا شبہ وہ اپنی ذات میں ایک تہذیبی ادارہ تھے۔ تدفین سے واپسی پر ڈاکٹر نثار احمد نثار نے مجھے حکم دیا کہ میں ان پر کچھ لکھوں‘ چنانچہ حکم کی تعمیل کر رہا ہوں۔ ورنہ میں کیا مری بساط کیا۔ ان پر بہت لکھا جائے گا‘ ان کی زندگی کے ہر گوشے پر سیرِ حاصل گفتگو ہوگی‘ اُن کی علمی‘ ادبی اور تعلیمی خدمات کے حوالے سے مضامین تحریر کیے جائیں گے۔ وہ صاحبِ علم تھے اور میں طفلِ مکتب ہوں‘ میری اس تحریر کو مضمون ہرگز نہ سمجھا جائے۔ یہ میرے غیر مربوط تاثرات ہیں۔ میں خود بھی جانتا ہوں کہ صرف ایک مضمون لکھ کر حقِ رفاقت ادا نہیں کیا جاسکتا۔ میرے ان سے تعلقات کا دورانیہ کم و بیش چالیس برسوں پر محیط ہے۔ بہرحال وہ منتشر خیالات پیشِ خدمت ہیں جو میں نے نم آلود آنکھوں اور شکستہ دل کی جذباتی کیفیت میں سپردِ قلم کیے۔ براہِ کرم اس تحریر میں ربط تلاش نہ کیجیے۔ جب میں نے پروفیسر انوار احمد زائی پر لکھنے کا ارادہ کیا تو گھنٹوں سوچتا رہا کہ کہاں سے ابتدا کروں۔
’’چالیس برس کا قصہ ہے‘ دوچار برس کی بات نہیں‘‘
پھر یک بہ یک یادوں کے دریچے کھلتے چلے گئے اور میں لکھتا چلا گیا۔ پروفیسر انوار احمد زئی کا تعلق ہندوستان کی سابق مسلم ریاست ٹونک (راجستھان) سے تھا۔ ٹونک کی تاریخ کے حوالے سے انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے اپنے آبا و اجداد کے ساتھ پہلی ہجرت حیدرآباد (سندھ) میں کی۔ انہیں حیدرآباد سے عشق تھا۔ وہ عرصۂ زمانہ سے کراچی میں مقیم تھے لیکن حیدرآباد کی گلیوں کو تمام زندگی سینے سے لگائے رکھا۔ ہر محفل‘ ہرنشست میں کسی نہ کسی حوالے سے حیدرآباد کو ضرور یاد رکھتے۔ کراچی آنے کے بعد بھی وہ ہر سنیچر کی شام حیدرآباد جاتے اور اتوار کی شام واپس آتے۔ ان کا آدھے سے زیادہ خاندان آج بھی حیدرآباد ہی میں ہے۔ حیدرآباد کی تاریخ پر اُن کی گہری نظر تھی۔ ان کا شمار اُن قلم کاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے حیدرآباد کی ادبی فضا کو فعال اور متحرک بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ حیدرآباد کے لوگوںکا بھی فرض ہے کہ وہ حقِ رفاقت ادا کریں‘ ان کی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی لائحہ عمل دیں۔
میری پروفیسر انوار احمد زئی سے پہلی ملاقات 1980ء میں ’’مجلس مصنفین‘‘ حیدرآباد کی جانب سے منعقدہ ایک تنقیدی نشست میں ہوئی تھی جہاں رضوان صدیقی اور سید قاسم رضا بھی موجود تھے۔ جب میں نے ان کو بتایا کہ میرے آبا و اجداد کا تعلق بھی ٹونک سے ہے تو انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس کے بعد جب بھی کسی محفل میں ملتے ’’گرائیں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ وہ تمام زندگی شعبہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ محکمہ تعلیم کا کوئی بڑا عہدہ ایسا نہیں جسے انہوں نے اپنی علمی بصیرت سے سیراب نہ کیا ہو۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی کئی برس تک محکمہ تعلیم (سندھ) سے منسلک رہے۔ ان دنوں وہ ضیا الدین یونیورسٹی میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے ان کی خدمات تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھی جائیں گی۔ انہوں نے بہت مصروف زندگی گزاری لیکن علم و ادب کو ہمیشہ اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ ان کے تبحرِ علمی اور ذہانت کا ایک زمانہ معترف ہے۔ بعض لوگ تقریر کے ماسٹر ہوتے ہیں اور بعض لوگ تحریر کے شہنشاہ۔ اللہ تعالیٰ نے انوار احمد زئی کو ان دونوں صفات سے بہرہ مند کیا تھا۔ تقریر میں نکتہ رسی ان کا کمال تھا‘ ان کی تقریر اتنی مربوط ہوتی تھی جیسے کوئی مقالہ۔ ان کی تحریروں میں بھی لفظوں کی صورت گری نمایاں نظر آتی ہے۔ انہیں دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرنے کا ملکہ حاصل تھا لیکن انہوں نے دینی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی۔ تصوف سے بھی انہیں غیر معمولی لگائو تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے دستِ حق پرست پر بیعت کی تھی۔ ان کی دربار عالی سے انہوں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ انہیں اس نسبت پر فخر تھا۔ ادبی محافل ہوں‘ سیرت النبیؐ کے جلسے ہوں یا ٹی وی چینل پر کسی موضوع پر گفتگو‘ ہر جگہ و علم وادب کے موتی بکھیرتے نظر آتے۔ ان کی گفتگو کا انداز عالمانہ تھا‘ ان کی تحریروں میں دانشوری جھلکتی ہے۔ میں تو انہیں ماہر لسانیت بھی کہتا ہوں اس لیے کہ وہ زبان و بیان کے معاملے میں بہت محتاط دکھائی دیتے تھے‘ وہ محفل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا فن جانتے تھے۔ محافل میں مقررین کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ انوار احمد زئی سے پہلے تقریر کریں تاکہ کچھ بھرم رہ جائے۔ زود گوئی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کئی شاعروں اور ادیبوں کے انتقال پر میں نے اُن سے مضمون لکھنے کی درخواست کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کل صبح گیارہ بجے تک مضمون چاہیے۔ انہوں نے کبھی میری بات رد نہیں کی‘ میرے دفتر پہنچنے سے پہلے‘ مضمون پہنچا دیا کرتے تھے۔ کیا یہ وضع داری اور سچا کمٹ منٹ نہیں۔ اب ایسے وضع دار لوگ خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ پروفیسر انوار احمد زئی بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے‘ اس حوالے سے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ انہوںنے کئی ممالک کے سفر نامے بھی لکھے جو کتابی صورت میں موجود ہیں اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کی بے شمار کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔
پروفیسر انوار احمد زئی اختراعی ذہن کے مالک تھے۔ جدت طرازی ان کی سرشت میں شامل تھی۔ میں دسمبر 1999ء کی وہ شام شاید کبھی نہ بھول سکوں جب انوار احمد زئی کی دعوت پر کراچی کے شعرا کا ایک قافلہ بائی روڈ حیدرآباد کے لیے روانہ ہوا تھا جس میں حمایت علی شاعر‘ محمود شام‘ محسن بھوپالی‘ آفاق صدیقی‘ انور شعور اور کئی اہم شعرا شامل تھے‘ جہاں ’’بزمِ انوارِادب‘‘ کی جانب سے مہران آرٹس کونسل میں ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے کُل سندھ مشاعرے کا اہتمام کیا تھا۔ مشاعرہ رات 9 بجے شروع ہوا اور ٹھیک 12 بجے ختم ہو گیا‘ بعدازاں مسرور احمد زئی نے اعلان کیا کہ یہ مشاعرہ پچھلی صدی کا آخری مشاعرہ تھا‘ اب نئی صدی کی پہلی کتاب کی رونمائی ہوگی۔ یہ اعلان غیر متوقع تھا‘ اس سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کسی کتاب کی رونمائی بھی ہونا ہے‘ چناں چہ ممتاز و معتبر شاعر اور صحافی محمود شام سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے دستِ مبارک سے پروفیسر انوار احمد زئی کے افسانوی مجموعے کی نقاب کشائی کریں۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس طرح کُل سندھ مشاعرے اور کتاب کی رونمائی نے تاریخی حیثیت حاصل کرلی۔ کیا ایسی کوئی دوسری مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ اس سے پروفیسر انوار احمد زئی کی دانشوارانہ سوچ اور زاویۂ نظر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے کا ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے اپنے صاحبزادے عزیز احمد زئی کی شادی کے موقع پر پروگرام بنایا کہ شعرا سے ’’سہرے‘‘ لکھوائے جائیں۔ یہ کام انہوں نے ڈاکٹر نثار احمد نثار کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے یہ فرض نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ کافی تعداد میں سہرے لکھوا کر پروفیسر انوار احمد زئی کے حوالے کر دیے‘ پھر ارشاد فرمایا کیوں نہ ان سہروں کو کتابی صورت دی جائے‘ یہ مرحلہ بھی ڈاکٹر مسرور احمد زئی اور ڈاکٹر نثار احمد نثار نے آسان کر دیا۔ سہروں پر مشتمل نہایت خوب صورت کتاب شائع ہوئی‘ پھر انہوں نے شادی سے پہلے ایک محفلِ مشاعرے کا اہتمام کیا‘ تمام شعرا نے اپنے لکھے ہوئے سہرے سنائے۔ یہ بھی ایک انوکھا تجربہ تھا جس کے موجد پروفیسر انوار احمد زئی ٹھہرے۔ گویا جو کہا‘ وہ کر دکھایا۔
’’چہار بیت‘‘ ایک قدیم فن ہے جو ایک زمانے تک خواص تک محدود رہا‘ اسے عوامی پزیرائی کبھی نہیں ملی۔ لیکن اس فن کو عوامی بنانے میں پروفیسر انوار احمد زئی نے تاریخی کردار ادا کیا۔ غالباً بیس سال قبل انہوںنے محمد شفیع چندریگر اور ڈاکٹر مسرور احمد زئی کی معاونت سے ’’دیال داس کلب‘‘ حیدرآباد میں سالانہ محفل چہار بیت کا ڈول ڈالا تھا۔ اس کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ ’’میلے‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ شائقین چہار بیت کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ فنِ چہار بیت ہندوستان کے مخصوص خطوں تک محدود تھا جیسے ٹونک‘ رام پور‘ بھوپال‘ امروہہ اور مراد آباد۔ لیکن انہوں نے اس فن کو پاکستانیوں کے دلوں کی آواز بنا دیا۔ کیا یہ تاریخی کارنامہ نہیں؟ وہ محفل چہار ہیت میں ہر زبان اور ہر طبقے کے لوگوں کو مدعو کرتے اور انہیں اس فن کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت بھی بتاتے۔ ان کی قائم کردہ اس روایت کو جاری رہنا چاہیے۔ شفیع چندریگر اور ڈاکٹر مسرور احمد زئی کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ ان کی یاد میں ’’محفل چہار بیت‘‘ کا اہتمام کریں‘ یہ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا انوکھا انداز ہوگا۔
پروفیسر انوار احمد زئی بعض معاملات میں بہت روایت پرست واقع ہوئے تھے۔ اپنی رہائش گاہ پر ہر سال محفلِ نعت کا اہتمام کرتے۔ سالانہ محفل سماع کبھی قضا نہیں ہوئی۔ وہ ہر سال رمضان میں اپنی اہلیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے محفلِ نعت اور دعوتِ افطار کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ (غالباً اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے یہ محفل منعقد نہیں ہوئی۔) ان تمام روایات کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے جس کا آغاز پروفیسر انوار احمد زئی نے کیا تھا۔ انوار احمد زئی کے صاحبزادے عزیز احمد زئی ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہیں لیکن انہیں علم و ادب کا ذوق اپنے والد سے ورثے میںملا ہے۔ وہ شعر بھی کہتے ہیں اور علمِ عروض سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ مرحوم کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مسرور احمد زئی بھی محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں‘ وہ ذہنی اور فکری طور پر ان سے بہت قریب تھے۔ ڈاکٹر مسرور احمد زئی میں ان کی کچھ صفات نظر آتی ہیں۔ امید ہے کہ یہ چچا بھتیجے اُن کی تمام روایات کو زندہ رکھیں گے اور ان کی علمی و ادبی کاوشوں کو کتابی صورت دیں گے۔

حصہ