رب سے معافی کے طلب گار لوگ

393

افروز عنایت
’’السلام بھائی‘‘۔
’’وعلیکم السلام… کیسے ہیں آپ۔‘‘
’’الحمدللہ۔ یہ راشن کی لسٹ ہے‘‘۔ (عبداللہ نے دکاندار کو لسٹ تھمادی)
’’بھائی یوں کریں آٹے کے دو پیکٹ ڈال دیں، آفس سے آتے آتے دیر ہوجاتی ہے، پھر گھر والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
’’تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے! آپ فون پر بتادیا کریں، ہم راشن آپ کے گھر پہنچادیں گے، اور ہماری فری سروس ہے۔‘‘
’’شکریہ بھائی، آپ نے میری پریشانی کم کردی۔‘‘
اس طرح اب عبداللہ کے گھر دکاندار راشن بھجوانے لگا۔
٭…٭
’’دو دن پہلے میں نے آپ کو راشن کے لیے فون کیا تھا۔‘‘
’’سوری، کل تک مال سپلائی ہوگا (تو بھجوا دیں گے)۔‘‘
اگلے دن بھی راشن نہ پہنچا توعبداللہ صاحب دکان پر پہنچے۔ لیکن دکاندار نے کہہ دیا کہ آٹے کی (راشن کی) قلت ہے، اس لیے پہلے جنہوں نے بکنگ کروائی ہے انہیں راشن ملے گا۔
’’یار میں نے تو دو دن پہلے فون کیا تھا، بکنگ تو میں نے بھی کروائی ہے۔‘‘
’’اوئے چھوٹے، ذرا رجسٹر نکال۔‘‘
رجسٹر میں دو دن پہلے عبداللہ کا فون نمبر اور بکنگ درج تھی، لہٰذا عبداللہ کو آٹا تو دیا گیا لیکن اضافی رقم کے ساتھ۔
٭…٭
دکاندار: (تمسخر سے ہنستے ہوئے) کہاں رہتے ہیں صاحب، ’’ماسک‘‘ آپ کو کہیں نہیں ملیں گے… جو آخری بچے کھچے کہیں سے مل بھی گئے تو ’’وہ‘‘ سو روپے والا پیکٹ اب 2500 سے کم نہیں ملے گا۔
٭…٭
اسپین سے آئے مسافر نے اپنا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود ایئرپورٹ عملے کو 6 ہزار روپے رشوت دی اور رہائشی علاقے میں پہنچ گیا۔ اس کے کیا نتائج سامنے آئے سب کو پتا ہے۔ یہ خبر نیٹ پر گشت کررہی تھی۔
٭…٭
معروف ’’مال‘‘ میں، جہاں سے میں ہر ہفتے گھر کی ضرورت کی اشیاء و راشن خریدتی ہوں، وائرس کی وجہ سے ایک ہی ہفتے کے اندر تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نظر آیا (جبکہ حکومت کی طرف سے کسی بھی شے کی قیمت میں اضافے کا اعلان نہیں ہوا)۔ میں نے اپنے عزیز و اقارب سے معلوم کیا تو سب نے یہی شکایت کی۔ نہ صرف قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں بلکہ مال کی قلت (مصنوعی) کی وجہ سے خریدار پریشان تھے۔ اس موقع پر دکانداروں نے خوب لوٹ مار مچائی ہے۔
٭…٭
آج انتہائی کڑے اور آزمائشی دور میں، میں نے چند مثالیں اور تصویریں آپ کے آگے رکھی ہیں جس سے سب پڑھنے والے متفق ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ اس عذابِ الٰہی میں جہاں تمام دنیا مبتلا اور تکلیف میں ہے، وہاں نت نئے لطائف، گانے، مزاحیہ خاکے، بیہودہ میسجز کی بھی بھرمار نظر آتی ہے، اور دوسری طرف بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہماری قوم اپنی پرانی ڈگر پر قائم ہے۔ وہی چور بازاری، رشوت، ذخیرہ اندوزی، دھوکے بازی، بے حیائی، جھوٹ، دوسروں کی حق تلفی اور دوسری کبیرہ و صغیرہ برائیاں چاروں طرف نظر آرہی ہیں… اور ہر طرف پھیلی افواہوں نے ماحول کو مزید رنجیدہ کردیا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن بھی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ کیا ایسی صورتِ حال میں ہم سب کی یہ روش، یہ طریقہ کار مناسب ہے؟ یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ ہے ہم سب کے لیے۔ عذابِ الٰہی کی جھلک (کورونا وائرس) ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے ہے۔ زمانۂ ماضی میں مندرجہ بالا برائیوں میں سے کسی ایک میں مبتلا قوموں پر بھی عذابِ الٰہی کے واقعات سے ہم مسلمان باخبر ہیں کہ کس طرح رب العزت نے انہیں نیست و نابود کردیا… جبکہ ’’آج‘‘ ہماری قوم میں یہ تمام برائیاں اکٹھی ’’پھن پھیلائے‘‘ کھڑی ہیں جن کے ’’زہر‘‘ سے ہر عام و خاص متاثر ہے۔ اس کڑے وقت میں ان برائیوں کو صرف برائی سمجھنا ضروری نہیں، بلکہ روکنا بھی انتہائی ضروری امر ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے کہ ’’تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر ایسا نہ کرسکتا ہو تو زبان سے، اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو دل سے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
آج صرف علمائے کرام کا ہی نہیں، ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ان برائیوں کو آگے بڑھ کر روکیں۔ آج بے حیائی نے جس طرح ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے اس سے آنکھیں نہ چرائیں، بلکہ آگے بڑھیں اور اس بے حیائی کو روکنے کی کوشش کریں، کیونکہ حیا ایمان کا جز ہے۔ (مشکوٰۃ)۔
بلکہ آپؐ نے ایک جگہ فرمایا: ’’وہ پورا ایمان ہے۔‘‘
دعائوں اور استغفار کی بڑی اہمیت ہے۔ رب کریم ہماری کوتاہیوں کو معاف کرتا ہے۔ لیکن آئندہ کے لیے بندے کی یہ کوشش بھی لازم ہے کہ وہ استغفار کے ساتھ ان برائیوں سے بچے… نہ صرف خود بلکہ اپنے آس پاس بھی لوگوں کو احساس دلائیں کہ وہ اس برائی سے بچیں، دوسری صورت میں اللہ کے عذاب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں…
آپؐ نے وبائی بیماریوں کی وجہ یہی بے حیائی بتائی ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے ’’جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہوجائے اور لوگ عَلانیہ اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ان میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے آباو اجداد کے زمانے میں نہ تھیں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)۔
آج اس کڑے اور انتہائی آزمائشی وقت میں اپنی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ ہر مکتبہ فکر کا فرض ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنی غلطیوں کو دور کرے۔ آج ہر بندہ دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرا رہا ہے، دوسرے کی غلطیوں کو جانچ رہا ہے۔ بحیثیت مسلمان خشیتِ الٰہی کو دل میں اہمیت دیں تاکہ اس رب العزت کے ڈر سے ہم ان غلطیوں اور گناہوں سے اپنا دامن صاف رکھ سکیں۔ اوپر بیان کی گئی تمام کوتاہیاں ایسی ہیں جن سے معاشرے میں فساد و انتشار پیدا ہوتا ہے، بندوں کو تکلیف و اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کیا یہ روش درست ہے؟ حقوق اللہ تو رب العزت معاف فرما دیں گے، لیکن اس کے بندوں کے حقوق؟
ہماری وہ خصلتیں جن کے سبب اس کے بندوں کو تکلیف و اذیت پہنچ رہی ہے ان کا حساب کتاب ہر صورت میں دینا پڑے گا نہ صرف اُس دنیا میں بلکہ اِس دنیا میں بھی۔ آج ہمارے ان منفی اعمال کی وجہ سے ہی ہم پر اتنی بڑی آزمائش آئی ہے۔ یہ رب کی طرف سے تنبیہ ہے۔ خدارا سنجیدگی اختیار کریں، اس کڑے وقت کو مزید کڑا نہ بنائیں، اپنی اپنی اصلاح کریں۔ یہ وقت لطیفوں اور مزاح کا، یا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے یا افواہیں اور انتشار پھیلانے کا نہیں ہے۔ توبہ و استغفار کے ساتھ اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ رب العزت ہم سب کو اس عذاب سے محفوظ رکھے۔ (آمین ثم آمین)۔
ہمارے سامنے حضرت یونسؑ کی قوم کی مثال موجود ہے کہ جن قوموں پر عذاب کا فیصلہ ہوا اُن پر عذاب آکے رہا، مگر ایک قومِ یونس تھی جنہوں نے عذاب کے آثار کو دیکھ کر خوب توبہ استغفار کی، اور رب کریم نے ان سے عذاب ٹال دیا۔ بے شک وہ ہماری خطائوں، کوتاہیوں، لغزشوں کو معاف کرنے والا ہے۔ اس کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ آئیے سب باری تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں، وہی ہمیں اس عذاب سے نجات دلانے والا ہے، وہی خطائوں کو بخشنے والا ہے۔ خدارا اپنے آپ کو بدلیں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔ رب العزت کی طرف رجوع کریں۔

حصہ