ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے!۔

327

عبد الرحیم متقی
جب بھی 2 جون آتا ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں…. سرنصراللہ کی شہادت کو چھ سال ہوگئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کل ہی کی بات ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود تھے ۔
وقت اتنی تیزی سے گزرا ہے کہ پتا ہی نہیں چلا ۔
دوپہر 4 بجے خبر آئی سر نصراللہ دریائے کنہار میں اپنے ایک طالب علم کو بچاتے ہوئے ڈوب گئے ہیں اور ابھی تک کوئ خبر نہیں ہے …. ان کی تلاش جاری ہے.. جب یہ خبر سنی تو یقین ہی نہ ہوا یہ سوچا کہ کچھ ہی دیر میں خبر آئے گی کہ وہ زندہ سلامت ہیں لیکن ایسا نہ ہوا اور انتہائ دکھ اور افسوس کے ساتھ اس خبر کو ماننا پڑا ۔
سر نصراللہ کے نام سے بچپن ہی سے واقف تھا گھر میں بابا سے اور گھر کے بڑوں سے ان کی بہادری اور شجاعت کے قصے پہلے ہی سن رکھے تھےاور اب یہ واقعہ بھی ہوگیا۔ اور یہ واقعہ ان کی شجاعت اور بہادری کا عملی نمونہ ہے۔
چاہے وہ جمعیت کا دور ہو یا جماعت میں گزرا ہوا وقت ہو ۔ ان کی بہادری اور شجاعت کی گواہی ہر فرد دیتا ہے ۔
نصراللہ شجیع شہید سے میرا تحریکی تعلق بچپن ہی سے تھا لیکن ان کی شہادت سے کچھ مہینے قبل میرا تعلق ان کے اور قریب ہوگیا تھا وہ نائب امیر جماعت اسلامی کراچی تو تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ وہ عثمان پبلک اسکول کیمپس 13 کے پرنسپل بھی تھے ۔اور میرا داخلہ ان کی شہادت سے کچھ مہینے قبل ہی ہوا تھا اب ان سے میرا تعلق استاد اور شاگرد کا بھی ہوگیا تھا…. آج ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے کئ برس ہو گئے لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ۔۔ کبھی کبھی تو یہ خیال بھی آتا ہے کہ جس طرح قصے کہانیوں میں دریا میں کوئ ڈوب جاے تو کچھ عرصے بعد کوئ پری اس کو لے جاتی ہے اور اس کی تیمارداری کرتی ہے پھر وہ کچھ عرصے بعد اپنے گھر واپس آجاتا ہے… یہ امید بھی بس ساتھ رہتی تھی لیکن اب…. اب یہ امید ہے کہ جنت کے حسین باغوں کی سیر کررہے ہوں گے اور حوریں ان کی تیمارداری کر رہی ہوں گی … میں یہ بات اتنے یقین کے ساتھ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اللہ تعالی نےایسے لوگوں کے لئے ہی جنت بنائ ہے انھوں نےاپنی پوری زندگی بہت ہی ایمانداری کے ساتھ اور سادگی کے ساتھ گزاری۔ ان کی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بہادری کی اعلی مثال ہیں … ان کی ہر تقریر ان کے لگائے ہوئے نعرے آج بھی کان میں گونجتے ہیں وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی یاد آج بھی ہمارے لیے اسی طرح تازہ ہے جیسے چھ سال پہلے تھی۔ سر نصراللہ بہت ہی نرم مزاج تھے ان کی شخصیت میں بہت محبت تھی وہ اپنے ہر طالب علم سے بہت مخلص تھے اور بے انتہا محبت کرتے تھے اس کا ثبوت ان کی پوری زندگی ہی دیتی اور ان کی شہادت کا واقعہ بھی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ اپنے طالب علم سے کتنے مخلص تھے اور محبت کرتے تھے کہ اس کو بچانے کے لیے دریا کی بے رحم لہروں میں چھلانگ لگادی اور شہادت کے منصب پر فائز ہوگئے ۔

کچھ اس طور سے ڈوبے ہیں ڈوبنے والے
کہ ساحل کے آبگینے بھی آبدیدہ ہیں

سر نصراللہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا مشن ان کا مقصد ہمارے پاس موجود ہے ان کا مقصد محبت کو عام کرنا تھا ان کا مقصد تھا کہ ہم زندگی ایسے کام کریں جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوجائے ان کا مشن تھا تعلیم کو عام کرنا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مشن کا حصہ بنادے اور جو لوگ اس مشن میں جدوجہد کر رہے ہیں ان کے ساتھ شامل کردے اور اللہ تعالئ ہم سے اس دنیا وہ کام لے لیں جن سے اللہ کی رضا حاصل ہوجائے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ سر نصراللہ کی شہادت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے , متعلقین کو صبر جمیل عطا فرماے اوران کے درجات بلند فرمائے ….
قیامت کے بعد جب اصل زندگی شروع ہو تو اس میں ہمیں سر نصراللہ سے دوبارہ مل وادے آمین

وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دیے چلاگیا
وہ اک شجیع جو گیا تو کئ جواں جگا گیا

حصہ