۔”ہوجمالو” اور سندھی ثقافت

1099

سندھ کا کلچر بڑا سادہ مگر رلی کے سارے رنگوں کی آمیزش لیے رنگین بھی ہے۔ سندھ کی تہذیب بہت پرانی ہے اور یہ قدیم روایات کی امین ہے۔ خوشی اور غمی کے مواقع پر مختلف گیت گائے جاتے ہیں۔ رنگ برنگی ساڑھیاں اور بازوئوں میں رنگ برنگی چوڑیاں پہنے تھر کی عورتیں سندھ کے تمام رنگوں کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ خوشی کے مواقع پر ’’ہو جمالو‘‘ کا گیت گایا جاتا ہے اس گیت میںخیریت سے آنے‘ فتح حاصل کرنے اور سکھر پل سے گزرنے کا ذکر ملتا ہے جس ’’جمالو‘‘ کی تکرار آئی ہے وہ دراصل انگریزوں کے دور میں جمال نامی غلام تھا‘ جسے سزائے موت ہوئی تھی اور وہ کال کوٹھڑی میں پڑا اپنی پھانسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اُس زمانے میںسکھر بیراج کے پاس مال گاری کے گزرنے کے لیے لوہے کا ایک پُل بنایا گیا تھا۔ پُل پر سے آزمائشی طور پر ایک مال گاڑی کو گزارنا تھا تاکہ پُل کی مضبوطی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ لیکن اس آزمائشی مال گاڑی کو چلانے کے لیے کوئی شخص تیار نہ تھا‘ سب کو خدشہ تھا کہ یہ پُل مال گاڑی کا وزن سہار نہ سکے گا اور گر جائے گا۔ چنانچہ جمال کو بلایا گیا اور اس کے سامنے ایک تجویز رکھی گئی کہ اگر وہ مال گاڑی کو پُل پر سے گزارنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کی سزا معاف کر دی جائے گی اور اگر اس دوران یہ پُل گر گیا تو اُسے ویسے بھی مرنا ہی ہے۔ جمال اس تجویز پرراضی ہو گیا اور اُس نے دو‘ تین بار کامیابی کے ساتھ پُل پر سے مال گاڑی گزاری۔ حسب وعدہ جمال کی سزا معاف کر دی گئی اور وہ خوشی سے رقص کرنے لگا۔ مال گاڑی کے گزرنے کا منظر دیکھنے کے لیے وہاں جمال کے رشتے دار اور عام لوگ جمع تھے۔ جمال کو رقص کرتا دیکھ کر اس سے ناواقف لوگوں نے جمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سندھی میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا ’’اُھو کیر آھی۔‘‘ (وہ کون ہے؟) لوگوںنے بتایا ’’اُھو جمال آھی۔‘‘ (یہ جمال ہے) چنانچہ ’’اُھو جمال‘‘ سے ’’ہو جمالو‘‘ بن گیا۔اس گانے کی شاعری بھی ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے مثلاً ’’منجھو کھٹیی ویو خیر سا‘ ہو جمالو‘‘ (جیت کر آیا‘ وہ جمالو)۔
’’سکھر وارے پآل سا‘ ہو جمالو‘‘ (سکھر والے پل سے‘ وہ جمالو)۔
’’جن جواکھیوں رب رکھیو۔‘‘ (خدا نے جس کی آنکھیں سلامت رکھیں) کیوں کہ اگر پھانسی ہو جاتی تو جمالو کی آنکھیں باہر نکل آتیں۔
’’جن جا پیر پنج سر جا‘‘ (جس کے پائوں پانچ سیرکے تھے۔) یعنی غلام سخت کام کرتے ہوئے سخت جان ہو جاتے ہیں۔ اس گانے کے آخر میں ذکر ہوتا ہے ’’جن جاوار گھنڈی وارا‘ جو جمالو‘‘ (جس کے بال گھنگھریالے ہیں‘ وہ جمالو)۔

حصہ