ایک موقع اور۔۔۔

386

عبدالعزیز غوری
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے یہ کائنات تخلیق کی، بغیر ستونوں کے آسمان کی چھت بنائی اور آسمانِ دنیا کو روشن کرنے کے لیے سورج چاند ستارے اور سیارے بنائے۔
زمین کا فرش بچھایا، اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑیں…. پہاڑوں پر برف جمائی….. سمندر اور دریا بہائے…..
آسمان سے شہاب ِثاقب برسائے… سمندروں کےطوفان اور دریاؤں کی طغیانی، تیز موسلا دھار بارشوں، تندوتیز طوفانی ہواؤں اور زلزلوں نے زمین کو مختلف علاقوں میں تقسیم کردیا۔
انسانی حیات کے لیے زمین کا ماحول سازگار بنایا اور اللہ رب العزت نے کرئہ خاکی پر خاک و آب سے بنائے ہوئے انسان حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت حوا کو اتار دیا…
اس دنیا میں پہلا انسان انسان ہی تھا۔ انسان کیڑے مکوڑوں، جانوروں کی ارتقائی شکل نہیں بلکہ انسان جیسا ہے ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔
انسان جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں نہیں بلکہ علم و ہدایت کی روشنی کے ساتھ لایا گیا تھا۔ انسان کا اولین مذہب توحید ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پہلے انسان جاہل تھا تو حقیقت میں وہ لوگ اپنی حقیقت سے ہی آشنا نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بسانے کے ساتھ ہی ہدایت و رہنمائی کا انتظام فرمادیا تھا۔ بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل مبعوث فرمائے ۔آسمانی کتابیں اور صحیفے نازل کیے۔ مگر افسوس انسانوں کی اکثریت نے نہ تو آسمانی ہدایت کو قبول کیا اورنہ ہی وقت کے پیغمبروں کی بات مانی۔
ہر دور میں نفسانی خواہشات نے ان کو ہدایت پر آنے سے روکے رکھا، اور انہوں نے نہ صرف پیغمبروں کو ماننے سے انکار کیا بلکہ وہ دوسرے بندگانِ خدا کو بھی زبردستی راہِ راست سے روکتے رہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی مگر ان کی قوم گناہوں پر جمی رہی۔ انہوں نے صبح و شام لوگوں کو ہجوم وتنہائی میں سمجھانے کی کوشش کی، مگر ان لوگوں کی گمراہی بڑھتی گئی۔ نوح علیہ السلام نے اپنا پورا سرمایۂ زندگی لگادیا لیکن لوگ نہیں سمجھے،لوگوں نے ہدایت سے منہ موڑ لیا، وہ اندھے، بہرے اور گونگے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں پر مہر لگادی اور عذابِ الٰہی کا فیصلہ ہوگیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار ذی حیات کے سوا زمین پر موجود ہر ذی روح کو ہلاک کردیا گیا۔
پیغمبرِ وقت کا ساتھ نہ دینے والا بیٹا بھی اُن لوگوں کے ساتھ ہلاک کر دیا گیا، اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مثال قائم کردی گئی کہ وقت کے پیغمبر کا ساتھ نہ دینا ہلاکت ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں بچ جانے والوں نے دنیا نئے سرے سے آباد کی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو بیش بہا نعمتوں سے نوازا، وہ پھلتے پھولتے رہے، مگر نوح علیہ السلام کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد آہستہ آہستہ غلط راہوں پر چلنے لگے تو ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھیجا، لیکن جب انہوں نے بھی اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلا دیا تو وہ بھی عذاب میں گھر گئے۔اسی طرح ہر زمانے میں انسانیت کے قاتل، ظالم و جابر ،توحید و رسالت کی تکذیب کرنے والوں، عوام پر ظلم ڈھانے والوں، بندگانِ خدا کو اپنا غلام بنانے والوں پر عذاب کا کوڑا برستا رہا ہے۔
خدائی کے جن دعوے داروں نے زمین و آسمان میں فساد برپا کیا ہوا تھا اُن کا انجام دیکھنے کے بعد بھی ظالم اور خدا کے باغی ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے ان کو مبتلائے عذاب رکھا۔
زمین کا دھنسنا، سمندروں کے طوفان، دریاؤں کی طغیانی، پہاڑوں کا لرزنا، زلزلوں کا آنا، آسمان سے آگ اور پتھروں کی بارش، پانی کا خون بننا، لاکھوں مینڈکوں کا منظرعام پر آجانا، زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑوں کا لاکھوں کی تعداد میں کھانے پینے کی چیزوں میں آجانا، تیز ہوا کا چلنا، انسان کا سوکھے ہوئے پتوں کی طرح ہوا میں اڑنا، بارش کا رک جانا، فصلوں کا تباہ ہوجانا، قحط سے دوچار ہوجانا، آپس میں لڑنا، ایک دوسرے کو قتل کرنا، بھوک، غربت اور خوف کا مسلط ہونا، اور اس طرح کے اور بھی عذاب آتے رہے ہیں۔ تو کیا یہ سب کچھ اپنے آپ ہورہا تھا؟ یا کسی کے حکم پر؟
اگر یہ خودبخود ہورہا ہے یا کوئی کررہا ہے، دونوں صورتوں میں اس کا کھوج لگانا ضروری ہے۔
اگر آپ مانتے ہیں کہ زمین و آسمان اللہ نے بنائے ہیں، یہ سورج، چاند، ستارے، یہ پانی، یہ مٹی، یہ ہوا، جنگل، نخلستان، ریگستان، صحرا، پہاڑ وغیرہ سب اللہ نے بنائے ہیں۔
جن و انس، فرشتے، حیوان اور تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور انسان کو بہترین مخلوق بنایا ہے اور اسے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔
اپنی بندگی کے لیے چنا، اس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل اور کتابیں بھیجیں۔
اسے صحیح اور غلط دو راستے بتائے۔
اشیاء کو پرکھنے کی تمیز عطا کی۔
اسے دنیا میں ایک عظیم مقصد کے لیے بھیجا اور اسے بتایا کہ دنیا عارضی ہے، اسے ختم ہونا ہے، قیامت اور حشر کو برپا ہونا ہے، اچھے کاموں کی جزا اور برے کاموں کی سزا دی جانی لازمی ہے۔ یہ سب کو سمجھا دیا گیا ہے کہ یہ دنیا وقتی ہے، اسے ختم ہو جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن حکیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی اور یہ واحد کتاب اللہ ہے جو اصل حالت میں موجود ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہود و نصاریٰ موجود تھے… اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے ان کو تلقین کی کہ یہ وہی دین ہے جو تمہارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام لائے تھے۔
یہ تمہاری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔
قرآن حکیم اللہ کی کتاب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں۔ لیکن انہوں نے تعصب و ہٹ دھرمی کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو تسلیم نہیں کیا۔
ان کے ضمیر نے گواہی دی مگر ان کی شیطانی نفسیات نے ان کو دبوچ لیا۔
قرآن حکیم نے ان کے کالے کرتوتوں سے عوام کو آگاہ کیا کہ ان کے علماء اور مشائخ نے کس طرح آسمانی کتابوں میں تحریف کرکے اپنے انبیاء کی تعلیم کو پس پشت ڈالا۔
ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات یاد دلائے۔ انہیں یاد دلایا کہ تمہیں دنیا کی تمام نعمتیں دی گئی تھیں، تمہارے لیے آسمان سے من و سلویٰ اتارے گئے، فرعون کی غلامی سے تمہیں نجات دلائی گئی، تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے سب سے بڑے دشمن فرعون کو غرق کیا، مگر وہ اسلام دشمنی سے باز نہیں آرہے، اور ان کے دل میں کینہ و نفرت کی جو آگ چودہ سو سال پہلے بھڑکی تھی وہ اب تک بھڑک رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ ان سے دور رہیں۔ ان کی اسلام دشمنی اور خدا سے بغاوت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب ِ امامت سے ہٹا کر امت ِ مسلمہ کو منصب ِ امامت پر فائز کردیا۔
اب دنیا میں صرف امت ِ مسلمہ ہی خدا کی واحد نمائندہ جماعت ہے، باقی سب کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔
بنی اسرائیل کے کرتوتوں کا تفصیلی تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان وہ کام نہ کریں جو انہوں نے کیے، ان سے دوستی اور محبت کا رشتہ نہ رکھیں کیونکہ یہ مغضوب اور گمراہ قوم ہے۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ دنیا میں ہم انفرادی و اجتماعی طور پر جو کچھ بھی کررہے ہیں کیا انہی کاموں کے کرنے کی وجہ سے ہمیں بہترین امت ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا؟
وہ کون سا گناہ ہے جو پچھلی امتوں نے کیا اور ہم نہیں کررہے؟
کیا اللہ کے حلال کو ہم نے حرام، اور حرام کو حلال نہیں کیا؟
وہ کون سا ضابطہ و قانون ہے جو ہم نے نہیں توڑا؟
ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقہ بلاخوف و خطر خدا کے قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
ہمارے عوام، تاجروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں نے خدا کے کس قانون کی خلاف ورزی نہیں کی؟
پیمانوں میں ردو بدل، اشیائے خورونوش میں ملاوٹ، شراب، جوا، زنا۔۔۔
کیا معصوم بچیوں کی عزت تار تار کرکے انہیں قتل نہیں کیا جاتا؟
کیا کاروبار میں سود، ناجائز منافع خوری اور بلیک مارکیٹنگ نہیں ہے؟
کیا ہمارے علماء و مشائخ نے دین کو فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم نہیں کیا؟
کیا ہم نے امت ِ مسلہ کو قومیتوں میں تقسیم نہیں کیا؟
کیا ہم نے نظریہ پاکستان اور شہیدوں کے خون سے بے وفائی نہیں کی؟
کیا ہماری اشرافیہ اور حکمران توہینِ رسالت کے مرتکب نہیں ہوئے؟
کیا ہم نے قادیانیوں کی ہمنوائی نہیں کی؟ ان کے سہولت کار نہیں بنے رہے؟
کیا ہم نے اہلِ ایمان کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ کو ترجیح نہیں دی؟
کیا حکمرانوں نے ملک کے خزانے کو نہیں لوٹا؟
کیا آئینِ پاکستان کو بار بار نہیں توڑا گیا؟
یہ تو ہمارے اپنے دیس کے حالات ہیں۔
کیا بچے بھوک سے نہیں مررہے؟
کیا عوام کو دو وقت کی روٹی، پینے کا صاف پانی، علاج اور تعلیم میسر ہے؟
آج دنیا پر ایک بلا چھائی ہوئی ہے، خوف نے ڈیرے ڈال دیے ہیں، معیشت کا پہیہ جام ہے، ہر ایک کو اپنی موت دوسرے میں نظر آرہی ہے۔
ہر آدمی دوسرے سے بھاگ رہا ہے اور نفسی نفسی کا مصداق بنا ہوا ہے۔ قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے؟
دنیا پر یہ قہر کس کے ظلم کی بنا پر آیا ہے؟
کیا دنیا کے حکمران اور اپنے آپ کو سپر طاقت سمجھنے والے ظالم نہیں ہیں؟
ان کی گردنوں پر لاکھوں انسانوں کا خون نہیں ہے؟
جو لوگ بھوک، بیماری، مفلسی و فاقہ کشی سے مرتے ہیں ان سب کا خون ان کی گردن پر ہے۔
فلسطین، کشمیر، برما، شام، یمن، عراق اور ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کا بہنے والا خون، معصوم بچیوں کی آہ و بکا، پاک خواتین کی عصمت دری۔۔۔
کیا اس کے بعد بھی یہ توقع ہے کہ ان ظالموں سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا؟
آج بھی ظالم دنیا یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ آفاتِ ارضی و سماوی ان کے ظلم و ناانصافی، ان کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل، مظلوم انسانوں کی چیخ پکار اور خدا کے دین سے بغاوت کا ہی تو نتیجہ ہے۔
یہ موقع تھا کہ دنیائے اسلام کے علماء ومشائخ قرآن کی روشنی میں دنیا کے ظالم حکمرانوں کے سامنے حقائق رکھتے، ان کو احساس دلاتے، ان کو ظلم سے باز رہنے کی تلقین کرتے، ان پر اخلاقی دباؤ ڈالتے کہ وہ ظلم سے باز رہیں۔ کشمیر، فلسطین، برما، شام وغیرہ میں ظلم بند کردیں اور ان کو آزاد کردیں۔
ساری دنیا کو معلوم ہے کورونا وائرس چین، اٹلی، اسپین، فرانس، امریکا، برطانیہ سے ہوتا ہوا پاکستان میں آیا ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ ان ممالک میں تبلیغی جماعت نہیں گئی۔
مگر افسوس ہمارے علماء اور اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان کے حکمرانوں نے عالم انسانی تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا یہ موقع ضائع کردیا۔ علماء، حکومت و عوام اس بات پر دست و گریباں ہیں کہ مساجد میں باجماعت نماز ہوگی یا نہیں۔ جمعہ ہوگا یا نہیں۔
افسوس اس مصیبت کے موقع پر بھی قوم ایک پیج پر نہیں ہے۔
اس وقت حکمران عوام کی بھلائی اور بیماری کی روک تھام کے لیے جو احتیاطی تدابیر اختیار کررہے ہیں وہ پورے ملک کی بھلائی اور خیر خواہی میں ہیں۔
آؤ سب مل کر اس موقع پر رجوع الی اللہ کریں، حکمران اور عوام اللہ رب العزت کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ عوام حکومت سے ٹکرانے کے بجائے تعاون کریں۔ احتیاط کریں۔
اللہ رب العزت سے پناہ مانگیں۔ اپنے کرتوتوں کی معافی مانگیں،ایسی معافی کہ جس کے بعد گناہ کی طرف رغبت نہ ہو، اور ایسی توبہ کہ نیکی کیے بغیر راحت نہ ملے۔ملک پاکستان میں اسلامی نظام کی حقیقی جدوجہد میں شریک ہوکر سرخ رو ہوجائیں۔ ان شاءاللہ کامیابی و کامرانی ہمارا مقدر ہوگی۔

حصہ