اب بھی نہ سدھروگے تو کب سدھروگے

438

افروز عنایت
دو مہینوں کے بعد گھر سے باہر نکلنے کا اتفاق ہوا، کیونکہ لاک ڈائون کی وجہ سے صرف بیٹے ضروری کاموں سے ہی ہفتے میں دو یا تین مرتبہ گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ آج میں بھی ان کے ساتھ نکلی، کیونکہ مجھے اپنا بینک کا کام تھا۔ بینک کے کام سے فارغ ہوکر ہم نے گھر کا راشن وغیرہ لینے کے لیے گاڑی کو ایک مناسب جگہ دیکھ کر روکا۔ سامنے ہی راشن کی دکان تھی جہاں بے تحاشا رش تھا، بلکہ صرف اُس دکان پر ہی نہیں بلکہ ہر دکان پر۔ ٹھیلے پر بھی رش نظر آیا۔ دونوں باپ بیٹے گاڑی سے اترے۔ میں گاڑی میں بیٹھ کر یہ سب تماشا دیکھ رہی تھی۔ گاڑی کے شیشوں پر دھوپ کے شیڈ لگے ہوئے تھے جس سے باہر سے کچھ (اندر گاڑی میں) نظر نہیں آرہا تھا، لیکن باہر کا ہر منظر واضح طور پر دیکھ رہی تھی۔ گاڑی کے سامنے سبزی کا ٹھیلا تھا۔ سبزی والے نے نہ جانے کہاں سے گندہ پانی بوتل میں بھرا تھا، وہ اس پانی سے اب سبزیوں پر چھڑکائو کرنے لگا۔ پانی کا گدلا پن مجھے صاف نظر آرہا تھا۔ پانی چھڑک کر اُس نے وہیں زور سے ناک سُڑکی، بلغم زور سے سامنے اچھالا جو گزرتے ہوئے ایک صاحب پر پڑا، جنہوں نے غصے سے سبزی والے کو دیکھا۔ میں ابھی اس منظر کو دیکھنے سے فارغ بھی نہیں ہوئی تھی کہ سامنے ایک گاڑی آکر رکی جس میں سے ایک خاتون اور صاحب برآمد ہوئے۔ خاتون کے کاندھے پر ایک شیر خوار بچہ تھا جس کا منہ پورا کھلا ہوا تھا۔ خاتون نے اپنے ہاتھوں میں دستانے اور منہ پر ماسک چڑھایا ہوا تھا۔ دونوں میاں بیوی سامنے موجود گوشت کی دکان میں گھس گئے جہاں لوگوں کا ایک ہجوم (جیسے کندھے سے کندھا جڑا ہوا ہو) موجود تھا۔ میرے شوہر گوشت والے کو آرڈر دے کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں نے انہیں یہ بات بتائی کہ خاتون کو اس معصوم کی صحت کا ذرہ برابر خیال نہیں۔ ہم دونوں ابھی اسی بات پر حیران تھے کہ ہماری گاڑی کی اوٹ میں ایک 35-30 سالہ خاتون (جو عبایا اور اسکارف میں تھی، منہ اس کا ڈھکا ہوا تھا، ہاتھ میں ایک پنسل اور بال پین کا چھوٹا ڈبہ تھا۔ خاتون کے ساتھ 9-8 سال کا ایک لڑکا بھی تھا۔ بظاہر نچلے متوسط گھرانے سے معلوم ہورہے تھے) آکر کھڑے ہوگئے۔ میں سمجھی دھوپ سے بچنے کے لیے آکر کھڑے ہوئے ہیں، لیکن اُس وقت میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب خاتون نے پرس کھولا، لڑکا چھپ کر دونوں جیبوں سے (پینٹ کی نچلی جیبیں) نوٹ نکالتا گیا اور خاتون کے پرس میں ڈالتا گیا۔ ان نوٹوں میں دس، بیس، پچاس اور سو کے نوٹ تھے۔ لڑکے نے تیزی سے سارے نوٹ جلدی جلدی ماں کے پرس میں ڈالے۔ میں نے حیرانی سے شوہر سے کہا ’’ان پنسلوں اور بال پینوں سے اس خاتون نے ہزار ڈیڑھ کمالیے ہیں جبکہ ابھی دوپہر کا ایک بھی نہیں بجا، یہ شام تک تو دو تین ہزار کما لیتی ہوگی‘‘۔ میرے شوہر نے ہنس کر کہا ’’یہ ’پین‘ تو ایک بہانا ہے، یہ پیسے اس نے بھیک سے کمائے ہیں‘‘۔ اور یہ حقیقت تھی، اس خاتون کو میں نے اگلے ہی لمحے دکان داروں سے مانگتے دیکھا۔ کچھ دکان دار دس، بیس اس کے بیٹے کے ہاتھ میں تھما دیتے، اور کچھ جھڑک دیتے۔ سامنے والی دکان پر نظر پڑی…سامنے مرغی والا بھی گاہکوں سے نظر بچاکر مرغی کی ایک بوٹی پار کرتا جارہا تھا… دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں یہ ’’بیماریاں‘‘ عام ہیں، لیکن میں حیران اس لیے تھی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہم ’’وہیں‘‘ پر ہیں! میں انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ بیٹا بھی راشن لے کر آگیا۔ وہ بڑبڑا رہا تھا۔ ’’کیا ہوا عبداللہ؟‘‘ نے پوچھا۔
’’امی پچھلے ہفتے اشیاء کے جو ریٹ تھے وہ دگنے ہوگئے ہیں، میں نے دکان دار سے پوچھا کہ کیا یہ قیمتیں حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہیں؟ میری بات پر دکان دار کو غصہ آگیا، بولا ’’لینا ہے تو لو، وقت ضائع نہ کرو‘‘… مجبوراً میں اگلی دکان پر گیا، وہاں بھی یہی حال تھا۔ آوے کا آوہ بگڑا ہوا ہے، لہٰذا انہی قیمتوں پر راشن کی خریداری کی ہے۔‘‘ بیٹا گاڑی میں راشن رکھ کر گوشت والے کی دکان سے گوشت لینے گیا۔ میں پھر گاڑی سے باہر لوگوں کے رش اور ہجوم کو دیکھنے لگی۔ عام دنوں سے بھی زیادہ رش… زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس مرض سے بچنے کے لیے یہ احتیاط لازمی ہے کہ دوسروں سے میل جول اور مصافحہ سے پرہیز کیا جائے، صفائی کا خیال رکھا جائے۔ لیکن افسوس… بے حد افسوس کہ زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لگ رہے تھے لیکن احتیاط نہیں کررہے تھے۔
بریانی کی دکان پر بھی رش تھا، لائن میں لگ کر لوگ بریانی کے پارسل خرید کر پلٹ رہے تھے۔ اب سامنے ایک اور منظر تھا۔ یہ ایک خوبرو لڑکی تھی جو عوام الناس کی نگاہوں کا مرکز تھی۔ ٹائٹ اسکن کلر کا پاجامہ، چھوٹی شرٹ جس سے تمام ٹانگوں کی ہیئت نمایاں تھی، خراماں خراماں ہاتھوں میں سبزی کا تھیلا لیے وہ ہماری گاڑی کے پاس سے گزری۔ میرا دل چاہا کہ دروازہ کھول کر اسے احساس دلائوں۔ شوہر نے روکا کہ کس کس کو روکو گی! وہ تمہاری بات پر عمل تو دور کی بات، چیخنے لگے گی کہ تم کون ہوتی ہو سمجھانے والی…!
جب وہ گھر سے نکلی ہوگی تو یقینا اُس کے گھر والوں نے اس کا یہ حلیہ دیکھا ہوگا۔ استغفراللہ… ہم تو وہ قوم ہیں جو چاروں طرف سے برائیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس وبائی مرض سے جو ہم سب کے لیے ایک تنبیہ ہے، ہم نے کیا عبرت لی؟
جبکہ ہم جانتے ہیں احادیثِ نبیؐ اور قرآنی آیات سے بھی واضح ہے کہ جھوٹ، خیانت، دھوکے بازی، بے حیائی اور رزقِ حرام جیسی برائیاں اور گناہ ہی عذاب کا سبب بنتے ہیں۔ ہم کب سدھریں گے؟ کیا یہ اتنی بڑی ’’وبا‘‘ اور ’’آزمائش‘‘ بھی ہمیں بدل نہ سکی؟ میں نے ان چند لمحوں میں ان چاروں کبیرہ گناہوں کو اپنے چاروں طرف دیکھا۔ یہ برائیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ یہ سب کچھ ہمیں ’’عام سی باتیں‘‘ محسوس ہوتی ہیں جیسے یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہو۔ معاشرے میں پھیلی ان برائیوں کو براہِ راست کہنے کی کوئی جرأت کرتا ہے تو اسے بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ معاشرتی گناہ کب ختم ہوں گے؟ کیا ہم اس سے بڑے عذاب کے منتظر ہیں؟ استغفراللہ جب ہمیں توبہ کا موقع بھی نہ مل سکے گا۔ دین صرف صوم و صلوٰۃ تک محدود نہیں۔ جب تک پورے کے پورے دین میں داخل نہیں ہوتے ہم مومن کیسے ہوسکتے ہیں! مسلمان تو وہ ہے جو ’’یکسو‘‘ ہوکر رب کے احکامات کی پیروی کرے، جیسا کہ سورۃ البقرہ آیت 208 میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’مومنو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کے پیچھے نہ چلو، وہ تو تمہمارا صریح دشمن ہے۔‘‘
آج ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی آسانی اور سہولت کے لیے اللہ کے کچھ احکامات پر عمل کرتے ہیں اور کچھ سے روگردانی کرتے ہیں، استغفراللہ۔ یہی وتیرہ ماضی میں یہود و نصاریٰ کا تھا۔ رب العزت سے ہم سب کو اس کڑے وقت میں تو توبہ استغفار کرنا چاہیے، اپنے گناہوں، کوتاہیوں، لغزشوں کے لیے نہ صرف معافی مانگنی ہے بلکہ اصلاح بھی کرنی ہے، اپنے نفس کو سدھارنا بھی ہے، نہ کہ اسے بے لگام گھوڑے کی طرح آزاد چھوڑنا ہے۔ ہم اب بھی نہ سدھرے تو پھر کب سدھریں گے! کہیں ہم یہ موقع بھی نہ گنوا دیں کہ پچھتاوا اور صرف ندامت رہ جائے۔

حصہ