پیارے ابو کی یادیں

268

فریحہ مبارک
سن شعور کی یادوں کے دریچوں پر آج بھی وہ شیشے کی نازک سی دیوار گیر الماری جگمگاتی ہے،جس میں قرآن پاک اور تفاسیر بڑی ترتیب سے سجے ہوئے تھے،ہمارے پیارے ابو (مبارک علی )نے اس الماری کو ایک نمایاں جگہ ایستادہ کیاتھا۔ ہمارا بچپن،لڑکپن اور پھرجوانی اس شیلف سے جھانکتی کتابوں سے متعارف ہوتے اور ان کے عنوانات پڑھتے گزریں،ان جلدوں پر آج بھی ان کی موتیوں جیسی خوبصورت لکھائی میں نوٹس تحریر ہیں ۔۔اور کانوں میں ان کی خاص تاکید گونجتی ہے کہ۔۔۔ اسے ضرور پڑھنا !۔۔یہ کام تو ان کے مزاج میں رچ بس گیا تھا، اپنے انتقال سے چند روز قبل آئی سی یو میں ڈیوٹی پر موجود وارڈ بوائےکو اشارے سے بلایا اور ایک کتاب کھول کر نشان ذد حصے پڑھنے کے لئے دئے، ایک ھفتے تک کتاب کا مطالعہ اسی طرح کرواتے رہے کہ ایک دن وہ آبدیدہ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا اس کتاب نے تو میری زندگی بدل دی ہے،میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرا دنیامیں آنے کا مقصدکیاہے،گھر آنے سے پہلے ابونے مذید کتب اسے تحفے میں دیں ۔یہ واقعہ خود ابو کی زبانی سننے کو ملا ،۔۔۔۔ابو کہتے تھے قرآن چھپا کر اونچی جگہ رکھنے کی چیز نہیں ہے،یہ ایسی جگہ رکھو جہاں سب کی د سترس میں ہو۔۔۔۔۔ہمیں امی سے پروگرامز کی اجازت لینے میں کبھی مشکل پیش آتی تو ابو کہتے میری طرف سے اجازت ہے،باپ کا حکم مانو اور ماں کی خدمت کرو۔۔۔۔اور بن مانگے ہاتھ پر ممکنہ اخراجات کی رقم رکھ دیتے کہ جاؤ تیاری کرو،دین کے کاموں میں ہم تمہارے مکمل مددگار ہیں ،۔۔۔۔۔پکار رسالے کی ادارتی ٹیم کے ساتھ رسالے کی تیاریوں میں اکثر ڈرائنگ روم دفتر کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔۔۔ہر آدھے گھنٹے بعد ابو پھل کاٹ کر ڈرائنگ روم میں بھجواتے،کبھی گرما گرم چائے آرہی ہے اور اس کے ساتھ لوازمات!۔۔۔ دوستیں حیران رہ جاتیں ۔۔ابو کا خیال تھا کہ وقت ضائع کئے بغیر کام کرو ،۔۔۔ابو اکثر اپنے بچوں کو ایک کام کا نکتہ سمجھاتے تھے کہ ۔۔۔وقت پر ایک ٹانکا سینے سے نو ٹانکے ادھڑ نے سے بچ جاتے ہیں ۔۔۔اس لئے کسی نقصان کی ابتداء میں ہی اس کی اصلاح کی تدبیر کرو۔۔۔۔۔ابو خود بھی بہت نڈر اور دلیر انسان تھے اور بچوں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے ،بچپن میں اگر کسی نےخوف کا ذکر بھی کیا تو اسے اسی چیز کے پاس لے جاتے جس سے ڈر لگ رہا ہوتا ،ایک مرتبہ بھائی فیصل کو رات کے وقت چھت سے کچھ آوازیں آئیں پہلے وہ خود دیکھ کر آئے پھراسے حکم ملا کہ اکیلے چھت کا ایک چکر لگا کر آؤ۔۔ اس طرح ہمارے دلوں سے اللہ کے سوا ہر خوف کو مٹانے کی کوشش کرتے.. دین کے کاموں میں وہ امی اور ہم سب کے بہترین مددگار ثابت ہوتے.اور کوشش کرتے کہ ایسے کسی بھی موقع پر رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچائی جائیں ، جہاں دیکھتے کہ قدم سست پڑ رہے ہیں ،میرا لکھنا کم ہو گیا ہے تو متحرک کرنے کے لئے ایک طویل نشست کرتے ،اور مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ۔آخر میں یہ ضرور کہتے ،مجھے تمہاری تحریر سے توانائی ملتی ہے ۔۔ تحریر پسند آتی تو خوش ہو کر انعام ضرور دیتے۔۔۔ہر بچے کی صلاحیت کی پہنچان کرواتے اور اس میں محنت کی تلقین رہنمائی اور مدد فراہم کرتے ۔۔۔۔۔لباس کا خاص اہتمام کرتے ،اگر بچوں میں سے کسی کو بے ڈھنگے حلیے میں دیکھ لیتے تو سخت ناراض ہوتے۔۔۔۔۔ابو بہت محنتی اور جفاکش انسان تھے ،گاڑی موجود ہونے کے باوجود میلوں پیدل چلتے ،گھرکی چیزوں کی مرمت ایسی کرتے کہ برس ہا برس خراب نہ ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔امی کی گھریلو انتظامی صلاحیتوں کے دل سے معترف تھے اور ہمیں بار بار ان سے سیکھنے کی طرف رغبت دلواتے ،اور ان باتوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کرتے تھے کہ تمہاری امی نے فلاں مشکل مرحلے پر کیسے اس کام کو سرانجام دیا تھا۔۔۔۔ آخری وقت تک ہمیشہ ان کی خدمت اور قدر دانی پر زور دیتے رہے،۔۔۔ہر چیز کے روشن پہلو پر نگاہ رکھتے تھے، مشکل اور مایوس کن حالات میں بھی سیکھنے کی طرف توجہ مبذول کرواتے،ہمارے گھر میں جب حادثاتی طور پر آگ لگی ،تو آتے ہی جائزہ لیا پھر بڑے نقصان سے بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور انعام دیتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ اس بات کا انعام ہے کہ اس صورتحال میں اپنےہوش و حواس بحال رکھے ، ۔۔۔۔نفاست پسندی اور ہنر مندی گویا ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی ۔۔۔ جذبہ خدمت گزاری کا معیار بہت اعلٰی تھا۔۔۔گھر یا رشتہ داروں میں سے اگر کوئی بیمار ہوجاتا تو رات بھر اس کی تیمارداری و خبر گیری میں لگے رہتے ،۔۔کہ مریض خود کہہ اٹھتا کہ میں آدھا تو آپ کی خدمت سے ہی ٹھیک ہو گیا ہوں۔خدمت کے ساتھ دلجوئی کے الفاظ ان کا خاصہ تھے ! ۔۔۔۔۔ اپنی ذمہ داریوں کے معاملے میں بہت ایماندار تھے جو کام ناممکن لگے یہ بھی صاف بتا دیتے ۔ٹال مٹول سخت ناپسند تھی۔۔۔۔داماد آتے تو بہت خوش ہوتے ،دل سے ان کا بھرپور استقبال کرتے ،کہ آج بھی داماد اس بات کا اظہار بڑی عقیدت سےکرتے ہیں،بہوؤں عینی اور ثروت کی ان کی موجودگی میں سب کے سامنے کھل کر تعریف اور حوصلہ افزائی کرتے ۔۔۔۔کسی کی جھوٹی تعریف نہیں کرتے تھے بلکہ اسے کام بہتر کرنے کے مشورے دیتے تھے ,لگی لپٹی کے بغیر صاف گوئی سے کام لیتے ،اور کہتے کہ جھوٹی تعریف سے دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے ۔۔حلال و حرام کے بارے میں بہت حساس تھے،۔۔۔۔بیٹیوں سے بہت محبت کرتے تھے اور انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے ،صدر جاتے تو خاص طور پر پوچھتے کہ کچھ منگوانا ہو تو بتاؤ ،شادیوں کے بعد بھی ان کا پھلوں اور کسی بھی اچھی چیز کا حصہ ہر ھفتے یا پندرہ دن میں خود ان کےگھروں کو جا کر پہنچاتے ،بچوں کی کوئی جائز خواہش رد نہیں کی اور ناجائز کبھی پوری نہیں کرتے تھے ،۔۔۔۔موسم کا ہر پھل ہر ایک کی پسند کے لحاظ سے ضرور لا تے ۔۔ بعض دفعہ پھل یا سبزیوں کے پورے ٹھیلے کا سودا کر لیا کرتے تھے،گھر لاتے تو معلوم ہوتا ہر سبزی یا پھل 20کلو یا اس سے زیادہ ہے،ان کے پیکٹ بنوا کر محلے اور جاننے والوں کو تحفتاً بھجوا دیتے، ایک برگر والے سے طے تھا کہ اگر سر شام اس کے کباب بچ گئے تو وہ ابو خرید لیتے،اور گھر کے علاوہ تحفتاً بھی بھجواتے ۔۔۔ابو کی شخصیت میں جہاں رعب ودبدبہ بہت تھا وہیں گھنٹوں ہم ان سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ، اس میں کھل کر اختلاف رائے بھی ہوتا ،لیکن سب بہت مؤدب رہتے ۔انھوں نے ہمیں دماغی کھیل شطرنج کھیلنا سکھایا،سب بچوں کو چھوٹی عمروں میں گاڑی چلانا سکھائی موٹر سائیکل کی سواری رکھنے سے منع کرتے کہ لڑکے اس پر بیٹھ کر سمجھتے ہیں گھوڑے پر بیٹھے ہوا میں اڑ رہے ہیں ۔۔۔جب وہ گھر میں بیٹھ کر عمر کے آخری سالوں میں اپنا جیولری کا کام کرتے تو ساتھ ساتھ اس کام کو سمجھاتے رہتے،اصلی اور نقلی نگینوں کی پہنچان کرواتے۔۔۔
آج جب کہ انھیں ہم سے بچھڑے چھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے ،لیکن ان کی یاد رہ جانے والی باتیں اور سکھائے گئے کام ان کی موجودگی کا ہمہ وقت احساس دلاتے ہیں۔۔ڈائری لکھنے کی شروع سے عادت تھی ،ایک ڈائری لکھی کہ *آج میری سالگرہ ہے ،بوڑھوں کی سالگرہ کون یاد رکھتا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ میری چھوٹی بیٹی ثمرین مجھے مبارکباد ضرور دے گی،(البتہ اس دن اتفاق سے میں ان کے لئے کیک لے کر گئی) *بیماری کے ایام میں ثمرین کی خدمات کا وہ دل سے اعتراف کرتے تھے،اس کے علاوہ بھی جس سے بھی فیض پائیں دل سے اس کی تعریف کرتے تھے ۔۔۔خود بھی بہت مہمان نواز تھے اور ہمیں بھی نصیحت کرتے کہ دسترخوان وسیع رکھو۔۔۔انتقال کے بعد ان کا روشن چمکتا ہوا پر سکون چہرہ دیکھ کر جہاں صبر آیا وہیں ان کی یہ بات بھی یاد آئی جو وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آخرت کی تیاری ایسی رکھو کہ جب جانے کا وقت آئے تو بس روانگی کے لئے تیار ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے کو نور کی طرح روشن کر کے ہمارے دلوں کو سکینت عطا کی ،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے حسنات کو بڑھا چڑھا کر قبول فرمائے,ہمیں ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور ان غلطیوں سے درگزر فرمائے۔۔ آمین۔

حصہ