منفرد عید

335

آمنہ آفاق
۔’’شادی کے بعد کی پہلی عید اور وہ بھی اس لاک ڈائون کی نذر ہوجائے گی!‘‘ اس خیال کے آتے ہی اُس کا دل ڈوب سا گیا اور وہ مہندی سے سجے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر بے آواز رونے لگی۔ اس کو اپنی شادی سے پہلے کی عید شدت سے یاد آرہی تھی۔ عید کے تینوں دن کے الگ الگ سوٹ، میچنگ کی چوڑیاں، چپل، جیولری، مہندی۔ اس کے امی ابو اس کی خریداری پر خاص توجہ دیا کرتے تھے۔ اسے اب بھی یاد ہے کہ اس کا عید کے تیسرے دن کا سوٹ نہیں سل پایا تھا تو کس طرح بابا اور فیضی بھائی چاند رات تک ایک ایک درزی کے پاس گئے اور اس کا سوٹ سینے کے لیے زیادہ رقم دینے پر بھی آمادہ تھے، لیکن چوں کہ درزیوں کے پاس بھی اس وقت کام زیادہ تھا، اس لیے انہوں نے معذرت کرلی، پھر کس طرح فیضی بھائی نے اپنے ایک ٹیلر دوست سے التجا کرکے اس کا ارجنٹ سوٹ سلوایا، جس کو زیب تن کیے وہ کسی شہزادی سے کم نہ لگی تھی۔
اس کو امی، بابا شدت سے یاد آنے لگے تھے۔ اس نے ایک نظر مصنوعی پھولوں سے سجی چھت پر ڈالی۔ اعلیٰ قسم کے قالین، میچنگ پردوں، اور خوب صورت اسٹائلش فرنیچر نے اس عام سے کمرے کو بہت زیادہ پُرکشش بنادیا تھا۔ اس نے نظر گھما کر اپنے بہترین منتخب کیے ہوئے سینٹ اور اعلیٰ قسم کے میک اَپ سے سجی ڈریسنگ ٹیبل پر ڈالی، اور پھر سے سب منظر دھندلا گیا۔ اسے اب بھی یاد تھا کہ فیضی بھائی کی شادی کے بعد اُن کی پہلی عید پر اس نے کس طرح بھابھی کی عید کا لطف دوبالا کیا تھا۔ ڈیزائنر سوٹ سے لے کر بالوں کے کلپ تک میں اس نے کوالٹی کا خاص خیال رکھا تھا… اور امی، بابا نے کس طرح سمیرا بھابھی کی ہر خواہش کا احترام کیا تھا۔
’’اور میرے ساتھ یہاں کیا ہورہا ہے؟ کسی کو خیال ہی نہیں کہ میں بھی انسان ہوں، میرا بھی دل ہے۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائی۔ اس کو ساس صاحبہ کے کل شام والے جملے یاد آئے ’’ ابھی تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے مارکیٹ بند ہے، عید کی خریداری کیسے ہو؟ تم اپنے جہیز یا بری کا کوئی اچھا سا سوٹ نکال کر عید پر پہن لینا۔‘‘ ساس نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا تھا۔ گو کہ دل میں اتھل پتھل ہونے کے باوجود اس نے اپنے تاثرات پر قابو پا لیا تھا، مگر دل ٹوٹ جانے کی وجہ سے ساس کے سامنے گردن بھی نہ ہلا پائی، نہ نفی میں اور نہ ہی تائید میں… اور اب اکیلے بیٹھ کر پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
عمیر کے آنے میں ابھی خاصا وقت تھا۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ شادی کے فوراً بعد ہی لاک ڈاؤن کے چکر میں اس کا اچھا خاصا چلتا ہوا کاروبار بھی خسارے کا شکار ہوچکا تھا۔ مگر وہ پھر بھی خالی ہاتھ گھر میں بیٹھنے والوں میں سے نہ تھا، کوئی نہ کوئی کام کرکے اپنی ماں بہنوں کی ضروریات اور نئی نویلی بیگم کے ناز نخرے اٹھانا چاہتا تھا، مگر نازش جس کی بچپن سے لے کر آج تک کوئی بھی خواہش لبوں پر آنے سے پہلے ہی پوری ہوجاتی تھی، اُس کے لیے اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا بہت مشکل ہورہا تھا، خاص طور پر عید کی تیاری پر تو وہ سرے سے کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھی۔
’’ارے بیٹا کیا ہوا تمہیں؟ کچھ تو بولو، دیکھو ایسے اپنی امی کو پریشان تو نہ کرو۔‘‘ فون کان سے لگائے زرمینہ بیگم کو فکروں نے آگھیرا تھا۔ اپنی بیٹی کے خاموش شکووں کو وہ اچھی طرح سمجھ سکتی تھیں۔
’’میری بچی، میری نورِ نظر ضروری تو نہیں ہے ناں کہ سارے حالات ایک جیسے ہوں، زندگی میں نشیب و فراز تو آتے ہی رہتے ہیں، تم اس وقت حوصلہ رکھو، اپنے آپ کو من مانی کرنے سے باز رکھنا، میری جان تمہیں تو موقع بہت جلدی مل گیا اپنے سسرال والوں کو اپنا کرنے کا، اس وقت اپنے شوہر اور سسرال کی عزت کی لاج رکھنا تمہارا کام ہے۔‘‘ زرمینہ بیگم ہولے ہولے اپنی معصوم بیٹی کو سمجھا رہی تھیں۔
’’جی امی!‘‘ نازش نے ہولے سے جواب دیا۔
’’تم عید کی فکر نہ کرو، میں نے تمہیں چوتھی کی دعوت پر جوڑا دیا تھا وہ تمہارا اپنا منتخب کیا ہوا ہے، وہ پہن لینا۔‘‘ امی نے اس کے مسئلے کا حل سوچا۔
’’لیکن امی پہلی عید کی خوشی تو یہ ہوگی ناں کہ میں اپنے شوہر کی کمائی کا، اُس کی پسند کا جوڑا پہنوں۔‘‘ نازش کے دل کی خواہش لبوں پر آئی تو وہاں زرمینہ بیگم کا دل بھی کٹ گیا۔ اپنی بیٹی کی ہرچاہ پوری کرنے کی عادت ہی ہوگئی تھی، اور اب جبکہ بیٹی کسی اور گھر میں بس گئی ہو، ایسے میں ماں کے دل کی تڑپ کا انداز ہی نرالا ہوتا ہے۔
’’اس عید کو الگ انداز میں منانا میری بیٹی۔ کچھ لینے کے بجائے کچھ دینے میں جو مزا ہے ناں، اب اپنی عملی زندگی میں اس ذائقے کو چکھ پائو گی۔ اور صرف ایک تم ہی تو نہیں ہو ناں جو عید پر نیا جوڑا نہیں بناؤ گی، تمہاری ساس، نندیں بھی تو اس عید پر کوئی سوٹ نہیں بنا پارہیں۔ اس عید پر نیا جوڑا نہیں تو کیا ہوا، دل جڑے ہوئے ہونے چاہئیں۔ میری بچی تمہارے پاس تو پوری الماری بھری پڑی ہے نئے جوڑوں سے، اور میں جانتی ہوں کہ میری نازو اعلیٰ ظرف کی مالک ہے۔ چلو اپنے دل کو راضی کرلو اور ایک منفرد عید مناکر دیکھو۔‘‘ زرمینہ بیگم کی بروقت مثبت رہنمائی سے نازش کو بہت حوصلہ ملا اور وہ اپنے آنسو پونچھ کر افطاری کی تیاری کے لیے باورچی خانے کی جانب چل دی۔
فون رکھ کر زرمینہ بیگم نے اپنے آپ کو ڈریسنگ کے سامنے والی کرسی پر جیسے گرا سا لیا۔ ’’تو میری بیٹی کو بھی اب سمجھوتا کرنا پڑے گا۔‘‘ انھوں نے گویا آئینے سے سوال کیا۔
’’تمہیں کیا ملا تھا قدم قدم پر سمجھوتا کرکے! تم نے بھی تو شادی کے بعد کتنی قربانیاں دی ہیں، کتنا درگزر کیا ہے۔ بتاؤ کون ہے تمہارا؟ سب لوگ بھول جاتے ہیں آپ کی قربانیاں، آپ کا ایثار…ایک ذرا سی لغزش پر سب کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔‘‘ آئینہ اب انہیں آئینہ دکھا رہا تھا، اور انہیں اپنی ساس، نندوں کے لیے کی ہوئی بے لوث خدمات یاد آئیں۔
’’بھول جاتے ہیں سب تو کیا ہوا؟ میرا اللہ تو یاد رکھتا ہے جس کے لیے میں نے خود کو روکا، جس پر میں نے ہر معاملہ چھوڑا، تو بس اجر بھی اسی سے چاہیے۔ بندوں سے توقع نہیں رکھنی ہے، بس اپنے رب کو راضی کرنا ہے اور اس سے ہی انعام کی توقع ہے۔‘‘ زرمینہ بیگم کی خاموش نگاہوں نے آئینے کو اچھا خاصا جواب دے دیا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو کافی مطمئن کرلیا تھا۔
’’ارے… ارے! یہ کیا کررہی ہو! اتنے اچھے اچھے سوٹ کہاں لے کر جارہی ہو بھئی؟‘‘ عمیر اسے الماری سے ڈھیر سارے سوٹ نکالتے دیکھ کر پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔ شادی کے چار ماہ بعد بھی وہ اپنی خوب صورت بیوی کے مزاج کا اندازہ لگانے سے قاصر تھا جو کبھی ایک دم خاموش ہوجانے اور کبھی بہت کچھ کر گزرنے والوں میں سے تھی۔
’’عمیر! آپ کو پتا ہے عید میں صرف دس دن باقی رہ گئے ہیں، میں نے سوچا کہ مارکیٹ تو پتا نہیں کب کھلے گی، اس لیے ایک کام کرتے ہیں کہ یہ دونوں سوٹ فوزیہ آپی اور شہلا کے لیے سلوا دیتے ہیں، اور یہ پنک والا امی کے لیے۔‘‘ اس نے نفیس سے کاموں والے سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، تو عمیر اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
’’لیکن یہ سب تو تمہارے ہیں ناں؟‘‘ عمیر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
’’تو کیا ہوا، عمیر اس گھر کے مکین بھی تو میرے ہی ہیں، اور اگر میں اپنی عید کی تیاری کے حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتا کرنا پسند نہیں کرتی تو شہلا تو پھر مجھ سے بھی چھوٹی ہے، اُس کے دل پر اس عید کو لے کر کیا گزر رہی ہوگی؟ اور جب میں عید والے دن اپنے جہیز یا بری کا نیا سوٹ پہنوں گی تو کیا مجھے اچھا لگے گا کہ آپ کی امی اور بہنیں پرانے سوٹ پہنے ہوں! بس میں نے سوچ لیا ہے کہ اس عید کو نئے انداز سے منانا ہے۔‘‘
اس نے دوٹوک انداز میں کہا تو عمیر نے محبت سے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ’’اور میں جو اس عید کی ٹینشن لے رہا تھا وہ تو آپ نے چٹکیوں میں دور کردی۔‘‘ اور نازش اپنی اس انوکھی عید کی خوشیاں اپنے چاروں طرف محسوس کررہی تھی۔

حصہ