مدد کرنے والے خوش نصیب!۔

1600

مولانا رضی الاسلام ندوی
ایک حدیث ِ قدسی میں ہے: اللہ تعالیٰ روزِ قیامت بندے سے فرمائے گا: میں بیمار تھا، لیکن تُو نے میری دیکھ بھال نہیں کی تھی۔ بندہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں کیسے تیری دیکھ بھال کرتا، تُو تو سارے جہاں کا نگہبان ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تُو نے اُس کی دیکھ بھال کی ہوتی تو مجھے اُس کے پاس پاتا؟(پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، مگر تُو نے مجھے نہیں کھلایا تھا۔ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھلاتا؟ تُو تو سارے جہاں کا پالن ہار ہے؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، مگر تُو نے اسے نہیں کھلایا تھا؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تُو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟ (پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، مگر تُو نے مجھے نہیں پلایا تھا۔ بندہ کہے گا: اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پلاتا، تُو تو سارے جہاں کا پالن ہار ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تُو اسے پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟ ( مسلم)۔
اس حدیثِ پاک سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں خدمت ِ خلق کو کتنا عظیم مقام دیا گیا ہے۔ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی مدد کرتا ہے۔ وہ بھوکے ہوں تو ان کے لیے راشن یا کھانے کا انتظام کرتا ہے۔ پیاسے ہوں تو ان کے لیے پانی کا انتظام کرتا ہے۔ بیمار ہوں تو ان کے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے والے فرد نے انسانوں کی مدد نہیں کی بلکہ خود اللہ کی مدد کی ہے۔ اس نے انسانوں کا علاج نہیں کیا بلکہ خود اللہ کا علاج کیا ہے۔ اس نے انسانوں کو کھانا نہیں کھلایا بلکہ خود اللہ کو کھلایا ہے۔ اس نے انسانوں کو پانی نہیں پلایا بلکہ خود اللہ کو پلایا ہے۔
اس تصور کو قرآن و حدیث میں بہت نمایاں کرکے پیش کیا گیا ہے کہ یہ مال و دولت اور آسودگی، اللہ کا دیا ہوا انعام ہے۔ لیکن جب ایک بندۂ مومن اسے انسانوں کی ضروریات پر خرچ کرتا ہے، تو اللہ اسے اپنے ذمے قرض کی حیثیت دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ روزِ قیامت اسے خوب بڑھا چڑھا کر خرچ کرنے والے کو واپس کرے گا۔ قرآن کریم میں ہے ’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے، تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟‘‘(البقرہ)۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے ’’جب انسان اپنی پاکیزہ کمائی میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسے خوب اہتمام سے پروان چڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے پالتو جانور کے بچے کی نگہداشت اور پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس نے ایک کھجور کا صدقہ کیا ہو تو وہ اللہ کی نگرانی میں بڑھتے بڑھتے پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم)۔
’’کورونا‘‘ نامی وبائی مرض کے پھیلاؤ کے موقع پر جو لوگ خدمت ِ خلق کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وہ انتہائی عظیم مشن کے خوش نصیب راہی ہیں۔ اس مرض کی خطرناکی سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود جو لوگ علاج معالجے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، اُن کا کام بلا مبالغہ ’’جہاد‘‘ کے مثل ہے۔ جو لوگ اس کام میں اپنی زندگی ہار بیٹھے، وہ بلاشبہ ’’شہادت‘‘ کے منصب پر فائز ہوں گے۔ جو لوگ اس موقع پر خوب بڑھ چڑھ کر خیرات و صدقات دے رہے ہیں، وہ درحقیقت اللہ کو قرض دے رہے ہیں، جسے خوب بڑھا چڑھا کر واپس کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے، اور اللہ کا وعدہ پورا ہونا یقینی ہے۔
جو لوگ اس موقع پر غذائی اشیاء ضرورت مندوں تک پہنچانے کی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ حقیقت میں اللہ کی مدد کررہے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے کاموں کا بھرپور بدلہ پائیں گے۔

بھوکوں کو کھانا کھلانا ایک عظیم خدمت

ہمارے ملک]بھارت[ میں آج کل لاک ڈاؤن سے جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے وہ خون کے آنسو رلانے والی ہے۔ اپنے گھر سے باہر نکلیے یا فون پر کسی عزیز سے بات کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہرطرف قدم قدم پر ایسے مرد، عورت، بوڑھے، جوان، لڑکے، لڑکیاں، بچیاں اور بچے نظر آتے ہیں جو فاقوں سے دوچار ہیں۔ ان کے مُرجھائے ہوئے چہرے ان کی بے چارگی کی گواہی دیتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آجاتا ہے ’’سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ تم کسی بھوکے کو کھانا کھلادو۔‘‘
امن کی حالت اور شکم سیری اللہ تعالیٰ کی دو بہت بڑی نعمتیں ہیں (قریش) ان کے مقابلے میں خوف اور بھوک اللہ کی نعمتوں پر ناشکری کی سزا بھی ہے، جس سے اللہ انسانوں کو دوچار کرتا ہے (النحل)، اور اس کی طرف سے کی جانے والی آزمائشیں بھی ہیں، جو انسانوں کو لاحق ہوتی ہیں۔ (البقرہ)۔
انسان اپنی دیگر ضروریات کو ٹال سکتا ہے، اس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو تو کچھ صبر کرسکتا ہے، مکان نہ ہو تو کھلے آسمان کے نیچے گزارا کرسکتا ہے، لیکن بھوک کو زیادہ وقت تک ٹالنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ بچوں کا معاملہ تو اور بھی دگرگوں ہوتا ہے کہ وہ بھوک برداشت نہیں کرپاتے۔ چنانچہ رونے پیٹنے اور واویلا کرنے لگتے ہیں اور انھیں دیکھ کر والدین کا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ رفاہی کاموں کی بے شمار صورتیں ہیں، لیکن آج کل بھوکوں کو کھانا کھلانا ایک انتہائی اہم اور ضروری کام ہے، جس کی طرف اصحابِ خیر کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ غور طلب بات ہے، جس میں اجمالی طور پر کہا جاسکتا تھا ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو، غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات پوری کرو، ان کے کام آؤ‘‘۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب کیوں دی؟ اور اس کے آخری رسول (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) نے کھانا کھلانے کو عظیم صدقہ کیوں قرار دیا؟
قرآن مجید میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی مختلف صورتوں کا بیان ہے۔ ’’جو شخص روزہ نہ رکھ سکے، اس کا فدیہ مسکین کو کھانا کھلانا ہے‘‘(البقرہ)۔ ’’قسم کا کفّارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے‘‘(المائدہ)۔ ’’حرم میں کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کفّارہ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے‘‘(المائدہ)۔ ’’ظِہار (بیوی کو ماں کہہ دینے) کا کفّارہ60 مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے‘‘ (المجادلہ)۔ ’’پریشانی کے دن یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کو عظیم عمل کہا گیا ہے‘‘(البلد)۔ ’’اہلِ جنت کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا کہ وہ دنیا میں اللہ کو خوش کرنے کے لیے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے‘‘ (الدھر)۔ اسی طرح جہنم کا ایندھن بننے والوں کا ایک جرم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’وہ نہ خود مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور نہ دوسروں کو اس نیک کام پر ابھارتے تھے۔‘‘(الفجر، الماعون)۔
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی ہیں:۔
’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ ( بخاری)۔
’’کھانا کھلانے والے جنت میں جائیں گے۔‘‘(مسند احمد)۔
’’جو شخص کسی بھوکے کو کھانا کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھلوں میں سے کھلائے گا۔‘‘ (المجموع للنووی)۔
’’صدقے کی ایک صورت یہ ہے کہ تم بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء،الذھبی)۔
’’وہ شخص مومن نہیں جو خود تو آسودہ ہو، لیکن اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘ (الترغیب و الترھیب)۔
ان آیات اور احادیث میں خاص طور پر کھانا کھلانے کا تذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی وجوہِ خیر میں اس عمل کو بارگاہِ الٰہی میں بہت زیادہ پسندیدگی سے دیکھا گیا ہے۔ ان اطلاعات سے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ پورے ملک میں بہت سے اصحابِِ خیر نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور بلا تفریق مذہب و ملّت وہ سب کو فیض یاب کررہے ہیں۔ بعض علاقوں میں جماعت اسلامی کی جانب سے کھانے کے پیکٹس کی تقسیم کا نظم دیکھنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جماعت کے علاوہ بھی بہت سے لوگ اس خیر کو انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنی گاڑیوں میں پکے ہوئے کھانے کے پیکٹس بھر کر لاتے ہیں اور مسافروں، راستہ چلتے ہوئے لوگوں اور جھگیوں، جھونپڑیوں کے مکینوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس وقت کی بہت بڑی ضرورت پوری کررہے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو خوش کررہے ہیں، اور جو کچھ کررہے ہیں اس کا بدلہ صرف جنت ہے۔

سفید پوشوں کی خبر لیجیے

لاک ڈاؤن کے نتیجے میں عوام جس بھوک اور افلاس کا شکار ہیں، اس کے تدارک کے لیے اصحابِ خیر کا جذبۂ انفاق ماشاء اللہ جوش میں ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر کھانا پکاکر بھی تقسیم کررہے ہیں اور راشن کے پیکٹ اور پیکیج تیار کرکے بھی مستحقین تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد قابلِ مبارک باد اور لائقِ تحسین ہے۔ اس موقع پر ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ کہیں وہ نظر سے اوجھل نہ رہ جائے۔ وہ ہے اُن لوگوں کی طرف دستِ تعاون بڑھانا، جو اپنی ضرورت مندی کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کرسکتے، جن کی سفید پوشی ان کے منہ پر تالے ڈال دیتی ہے، جو فاقوں پر فاقے تو کرسکتے ہیں لیکن اپنے فقر کی بھنک اپنے قریبی لوگوں کو بھی دینا گوارا نہیں کرتے۔
قرآن مجید میں دو مقامات پر اہلِ ایمان کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک وصف یہ ہے ’’اور جن کے مالوں میں ایک حق مقرر ہے، سائل (مانگنے والے) کا بھی اور محروم کا بھی‘‘ (المعارج)۔ (یہی مضمون ایک لفظ (معلوم) کی کمی کے ساتھ سورئہ ذاریات میں بھی آیا ہے۔)
ان آیات میں دو الفاظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں، ایک ’’حق‘‘ اور دوسرا ’’محروم کا حق‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان جب اپنی کمائی میں سے کسی کو کچھ دیتے ہیں، تو یہ نہیں سوچتے کہ وہ اُس پر احسان کررہے ہیں، بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات روزِ روشن کی طرح صاف دکھائی دے رہی ہوتی ہے کہ ان کے مال میں یہ ان کا حق ہے۔ اس طرح انھیں دے کر وہ ان کے حق سے سبک دوش ہورہے ہیں۔ ان آیات میں ’’محروم‘‘ کا لفظ ’’سائل‘‘(مانگنے والا) کے مقابلے میں آیا ہے، جس سے اس کے معنی متعین ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہ شخص جو ضرورت مند ہونے کے باوجود مانگنے کی ہمت نہ کرسکے اور ہاتھ نہ پھیلائے۔
ہمارے اردگرد معاشرے میں بہت سے سفید پوش ہوسکتے ہیں، جن میں ہمارے رشتے دار، ہمارے دوست احباب، ہمارے دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین، محلوں میں پھیری لگاکر روزمرہ کا سامان بیچنے والے اور خوانچہ فروش وغیرہ۔ ہم اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تو ایسے متعدد سفید پوشوں کی تصویریں ہمارے سامنے آجائیں گی۔ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان کی غیرت اور خودداری کو مجروح نہ ہونے دیں، اور اس موقع پر ان سے اس طرح تعاون کریں کہ انھیں شرمندگی کا ذرا بھی احساس نہ ہو۔ ہم عام صدقات و خیرات کے علاوہ زکوٰۃ سے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ دینے والے کی نیت ہونی چاہیے کہ وہ ’’زکوٰۃ‘‘ ادا کررہا ہے۔ جس کو زکوٰۃ کی رقم دی جا رہی ہے اُس کا جاننا ضروری نہیں کہ اس کو دی جانے والی رقم زکوٰۃ ہے۔
شریعت میں مستحق کو مدد دیتے وقت انفاق کے معاملے میں پوشیدگی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ روزِ قیامت جو لوگ اُس وقت عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے، جب اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا، جو اس طرح خرچ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونے پائے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔‘‘ ( بخاری، مسلم)۔
موجودہ بحران میں بہت سے لوگ دل کھول کر اپنا مال لُٹا رہے ہیں۔ انھوں نے بڑے بڑے لنگر کھول رکھے ہیں، جن کے ذریعے بلا تفریق مذہب و ملّت انسانوں کی بھوک مٹا رہے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ بارگاہِ الٰہی میں خصوصی اجر کے مستحق ہوں گے جو بہت خاموشی سے معاشرے کے ایسے سفید پوشوں کی مدد کررہے ہیں جن کی خودداری انھیں ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتی اور جن پر عموماً اصحابِِ خیر کی نظر نہیں پڑتی ۔

صدقے کی ہزار صورتیں

ایک مرتبہ غریب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ’’مال دار لوگ ہم سے بازی لے گئے، وہ نماز پڑھتے ہیں، ہم بھی پڑھتے ہیں، وہ روزہ رکھتے ہیں، ہم بھی رکھتے ہیں، وہ صدقہ کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس مال نہیں ہے کہ صدقہ کرسکیں۔‘‘
رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’اللہ نے تمھارے لیے صدقے کی بہت سی صورتیں بتائی ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ابنِ آدم کے ہر جوڑ، ہڈی، پور کے حساب سے روزانہ اس پر صدقہ کرنا لازم ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’ہم اتنا صدقہ کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے اعمال کا تذکرہ کیا اور انھیں صدقہ قرار دیا۔ یہ احادیث بہت سی کتبِ حدیث میں مروی ہیں۔ ان احادیث میں صدقے کی جو صورتیں بیان کی گئی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:۔
٭اللہ کی پاکی بیان کرنا (سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے۔ ٭اللہ کی کبریائی بیان کرنا صدقہ ہے۔ ٭لا الٰہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔ ٭اللہ کی حمد بیان کرنا (الحمدللہ کہنا) صدقہ ہے۔ ٭نماز پڑھنا صدقہ ہے۔ ٭دو رکعت چاشت کی نماز پڑھنا صدقہ ہے۔ ٭روزہ رکھنا صدقہ ہے۔ ٭حج کرنا صدقہ ہے۔ ٭جنازے کے پیچھے چلنا صدقہ ہے۔ ٭مریض کی عیادت کرنا صدقہ ہے۔ ٭کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے۔ ٭راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹادینا صدقہ ہے۔ ٭راستے سے ہڈی، پتھر، کانٹا ہٹا دینا صدقہ ہے۔ ٭ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ ٭اچھی بات کی تلقین کرنا صدقہ ہے۔ ٭کسی غلط کام سے روکنا صدقہ ہے۔ ٭میاں بیوی کا صنفی تعلق صدقہ ہے۔ ٭تنگ دست مقروض کو مہلت دینا صدقہ ہے۔ ٭کسی کمزور کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ ٭کوئی آدمی اونچا سنتا ہو، زور سے بول کر اسے کوئی بات سنا دینا صدقہ ہے۔ ٭کسی شخص کی بینائی کمزور ہو، اُس کی کوئی ضرورت پوری کردینا صدقہ ہے۔ ٭کوئی شخص کمزور، لاچار ہو، اپنی طاقت سے اس کا کوئی کام کردینا صدقہ ہے۔ ٭کوئی شخص اپنی بات صحیح طریقے سے نہ رکھ سکتا ہو، اپنی قوتِ بیانی سے اس کی بات صحیح طریقے سے پیش کردینا صدقہ ہے۔ ٭کسی کا لباس بوسیدہ ہوگیا ہو، اُسے لباس فراہم کردینا صدقہ ہے۔ ٭کسی ننگے کو کپڑا پہنا دینا صدقہ ہے۔ ٭کسی نابینا کو صحیح راستے پر پہنچا دینا صدقہ ہے۔ ٭اپنے بھائی سے مسکرا کر بات کرنا صدقہ ہے۔ ٭اپنے برتن سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈال دینا صدقہ ہے۔ ٭کوئی شخص بھٹک گیا ہو تو اسے صحیح راستہ بتادینا صدقہ ہے۔ ٭لڑائی جھگڑا کرنے والے دو افراد کے درمیان انصاف سے فیصلہ کردینا صدقہ ہے۔ ٭کسی شخص کو سواری پر بیٹھنے میں مدد دینا صدقہ ہے۔ ٭سواری پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کا سامان اٹھاکر اسے دے دینا صدقہ ہے۔ ٭اچھی بات صدقہ ہے۔ ٭نماز کے لیے مسجد کی طرف اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے۔ ٭کسی کے درخت/کھیتی سے کوئی شخص کچھ کھا لے، یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ ٭کسی کے درخت/ کھیتی سے کوئی جانور یا پرندہ کچھ کھا لے، یہ اس کا صدقہ ہے۔ ٭کسی کاریگر کو اس کے کاروبار میں مدد کرنا صدقہ ہے۔ ٭کسی کو پانی پلادینا صدقہ ہے۔ ٭کسی کام میں اپنے بھائی کی مدد کردینا صدقہ ہے۔ ٭آدمی جو خود کھائے (حلال روزی) وہ صدقہ ہے۔ ٭آدمی جو اپنے بچوں کو کھلائے، وہ صدقہ ہے۔ ٭آدمی جو اپنے خادم کو کھلائے وہ صدقہ ہے۔ ٭کوئی پریشان حال مدد کا طالب ہو، اُس کے ساتھ جاکر اس کی پریشانی دور کردینا صدقہ ہے۔ ٭اپنی جان اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کی جدوجہد کرنا صدقہ ہے۔ ٭کسی کو اپنی ذات سے نقصان نہ پہنچانا بھی صدقہ ہے۔
صدقے کی ان تمام صورتوں کا تذکرہ احادیث میں آیا ہے۔ ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے صرف چند ہی حقوق اللہ سے متعلق ہیں، زیادہ تر کا تعلق انسانوں کے حقوق سے ہے جن میں اہلِ خانہ، رشتے دار، عام مسلمان، غیر مسلم، حتیٰ کہ حیوانات بھی شامل ہیں۔ ان احادیث کی رُو سے کورونا کی وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں جو افراتفری برپا ہے اس میں کسی بھی حیثیت سے کسی انسان کی مدد کردینا صدقہ ہے۔

حصہ