عید کی ملاقات

525

خولہ بنتِ سلیمان
الحمدللہ! تمام مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ رمضان المبارک کو بہت اچھی طرح سے گزار سکیں۔ اب ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ باقی تمام سال بھی اسی طرح صبر و شکر اور قناعت کے ساتھ گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
اب جو ہمیں یہ چاند رات ملی ہے، جس کو ’’لیلۃ الجائزۃ‘‘ کہتے ہیں، اس رات اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے دلوں کو جو عبادت میں رات گزارتے ہیں، خاص زندگی عطا فرماتے ہیں۔ اور جو لوگ اس رات کو بازاروں میں اور ٹی وی کے آگے یا دنیا کی رسموں میں گزارتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص رحمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہوسکے تو یہ پوری رات عبادت میں گزاری جائے۔
عیدالفطر کے دن مسلمانوں کے لیے دو بڑی خوش خبریاں ہیں۔ ایک یہ کہ اس دن اللہ تعالیٰ صدقۂ فطر قبول فرماتے ہیں، یعنی اپنے مال میں سے پہلے کچھ مال اللہ کی راہ میں صدقہ کریں، اور یہ صدقہ پورے گھر والوں کی طرف سے ہوتا ہے، یہاں تک کہ جو بچہ اس دن پیدا ہو، اُس کی طرف سے بھی دیں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔ دوسری خوشی مسلمانوں کی اجتماعی نماز ہے جو عید کی نماز کہلاتی ہے۔ اس میں اللہ کے حضور دو رکعت نماز ادا کرکے شکر ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
بھوکے پیاسے رہنے والے عاشقوں کو اللہ تعالیٰ آج ایک خاص ملاقات کے لیے بلا رہا ہے۔ یہ خاص ملاقات عید کی نماز ہے۔ اس کے لیے صبح اٹھ کر خوب اچھی طرح نہائیں، مسواک کریں، جو اچھا لباس ہو زیب تن کریں، آنکھوں میں سرمہ لگائیں، خوشبو لگائیں اور عمامہ‘ ٹوپی پہن کر کوئی میٹھی چیز کھا کر گھر سے نکلیں۔ ایک راستے سے جلدی جلدی عیدگاہ پہنچیں، کوشش کریں کہ پہلی صف میں جگہ ملے۔ عیدالفطر مسلمانوں کی ایک دینی خوشی ہے، جب چاند رات عبادت میں اور عید کی صبح نماز میں گزرتی ہے تو شیطان چیختا ہوا بھاگتا ہے۔
اکثر لوگ خصوصاً خواتین عید نہیں مناتیں یہ کہہ کر کہ ہمارے گھر موت ہوگئی ہے اور ہم خوشی منائیں! اس لیے ہم اس سال عید نہیں منا رہے۔ یہ طریقہ ناشکری اور تکبر والا ہے۔ عید تو ایک دینی خوشی ہے۔ رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں کا مہینہ ہے۔ جس شخص کی اس ماہِ مبارک میں بخشش ہوگئی اُس کی عید تو خودبخود ہوگئی۔ اور جو رمضان المبارک کی رحمتوں، فضیلتوں اور برکتوں سے محروم رہا، اُس کی کوئی عید نہیں۔
مدینہ میں آج عیدالفطر کی خوشیاں منائی جارہی ہیں، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کاشانۂ نبوت سے باہر آتے ہیں۔ پورے مدینۃ النبی میں بچے رنگ برنگے کپڑوں میں خوشی خوشی پھر رہے ہیں۔ ہر چہرے پر خوشی ہے، مگر ایک بچہ ہے جو بہت اداس نظر آرہا ہے، اُس کے کپڑے بھی میلے ہیں اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہیں۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس بچے پر پڑتی ہے، اس کے پاس جاکر اس کی اداسی کا سبب پوچھتے ہیں۔ وہ بچہ کہتا ہے: یارسول اللہ! میرے والدین حیات نہیں ہیں، اس لیے میری عید بھی نہیں ہے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور آپؐ اس بچے سے فرماتے ہیں ’’بیٹا! اگر میں تمھارے باپ کی جگہ ہوں اور امی عائشہؓ تمھاری والدہ کی جگہ، اور حضرت فاطمہؓ تمھاری بہن کی جگہ ہو، تو کیا تم راضی ہو؟‘‘ اس بچے کے چہرے پر خوشی دوڑ جاتی ہے۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس بچے کی انگلی پکڑ کر اسے گھر لے جاتے ہیں، امی عائشہؓ اس کو نہلا دھلا کر کپڑے بدلواتی ہیں۔ بچے کی خوشی دیکھنے کے قابل ہے۔ پھر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو کندھے پر بٹھا کر اُس جگہ سے گزرتے ہیں جہاں وہ کچھ وقت پہلے اداس اور تنہا بیٹھا رو رہا تھا۔ اس کو ہنستا کھلکھلاتا، صاف ستھرا دیکھ کر بچوں کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اس یتیم بچے کی جگہ ہم ہوتے۔
بچو! یہ ہے ہمارا دین، اور یہ ہے اس بچے کی سچی خوشی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے سچے دین کو سمجھنے اور اس پر صحیح طرح سے عمل کرنے والا بنائے،آمین۔

حصہ