عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی کی شاعرانہ عظمتوں کا اعتراف

477

‘‘چہار سو ‘‘ گزشتہ تیس سال سے بلا ناغہ شائع ہو رہا ہے اور اس سے پہلے بھی ہند و پاک کی ممتاز ادبی شخصیات پر خصوصی شمارے شائع کر چکا ہے۔ یہ رسالہ دنیا کے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تیس سال کا طویل عرصہ اس کے مدیر اعلی گلزار جاوید کے اخلاص اور قوت ارادی ہی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے دیگر شماروں کی طرح اس شمارہ کو بھی خاص بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلزار جاوید نے اپنے اداریے میں لکھا ہے’’ کوشش کی گئی ہے کہ ڈاکٹر نواز دیوبندی کی نسبت اثابت رائے کو مربوط انداز میں پیش کرکے نواز صاحب کے خال و خد اور شعری نقوش کچھ اس طرح نمایاں اور واضح کیے جائیں کہ موجودہ زمانے کے ساتھ آنے والے وقت میں بھی قاری، ناقد اور محققین کے لئے آسانیاں مہیا ہو سکیں‘‘
راولپنڈی پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی رسالے ماہنامہ ‘‘چہار سو’’ نے خصوصی اشاعت کے طور پر مئی جون کا شمارہ ‘‘ ڈاکٹر نواز دیوبندی نمبر’’ کے عنوان سے شائع کیا ہے لہٰذا موقع کی مناسبت سے انٹرنیشنل قلم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ‘‘ تقریب پذیرائی’’ کے نام سے آن لائن ایک تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت حیدرآباد دکن سے مشہور شاعر ڈاکٹر رؤف خیر نے فرمائی اور مہمان خصوصی کے طور پر چنڈی گڈھ سے اردو کی معروف افسانہ نگار ڈاکٹر رینو بہل نے شرکت کی۔ آن لائن تقریب میں نوئیڈا سے ملک زادہ جاوید، علی گڈھ سے ڈاکٹر عبید اقبال عاصم اور ہشیار پور پنجاب سے سبھاش گپتا شفیق نے شرکت فرمائی۔ صاحب اعزاز ڈاکٹر نوازدیوبندی موجود رہے تقریب کی آن لائن کارروائی عبداللہ نواز نے بحسن و خوبی انجام دی
صدر تقریب ڈاکٹر رؤف خیر نے کہا کہ کسی شاعر کی شاعری اور اس کی ذاتی زندگی پر مبنی تاثرات اور تحریروں کو اگر دستاویز بنا دیا جائے تو یہ دستاویز اس شاعر کی عمردراز بھی ہے اور اس کے مستقبل کا سرمایہ بھی! کم ایسے خوش نصیب شاعر ہوتے ہیں جن کی شاعرانہ عظمتوں اور صلاحیتوں کا اعتراف ان کی زندگی میں منظر عام پر آئے۔ عصر حاضر کے مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی انہی خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں۔ نواز دیوبندی نے زندگی کو شاعری اور شاعری کو زندگی بنایا ہے۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر رینو بہل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نواز دیوبندی کی شاعری صاف شفاف آئینہ کی طرح ہے اس آئینے میں انہیں اور ان کی شاعری کو آسانی سے دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے ان کی شاعری میں سادہ، سہل اور عام فہم لفظیات ان کا خصوصی امتیاز ہے۔ ملک زادہ جاوید نے کہا کہ نواز بھائی کی شاعری میں زندگی کی رمق بھی ہے اور بندگی کی چمک بھی اور یہ صفت کوئی معمولی صفت نہیں ہے یہ صفت آج نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہے۔ سبھاش گپتا شفیق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نواز صاحب جتنا اردو حلقے میں مشہور ہیں اتنا ہی ہندی حلقے میں! وہ زبان کے معاملے میں معتدل مزاج ہیں۔ ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے ماہنامہ ‘‘چہار سو’’ کے ‘‘ڈاکٹر نواز دیوبندی نمبر’’ کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ‘‘چہار سو ‘‘ گزشتہ تیس سال سے بلا ناغہ شائع ہو رہا ہے اور اس سے پہلے بھی ہند و پاک کی ممتاز ادبی شخصیات پر خصوصی شمارے شائع کر چکا ہے۔ یہ رسالہ دنیا کے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تیس سال کا طویل عرصہ اس کے مدیر اعلی گلزار جاوید کے اخلاص اور قوت ارادی ہی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے دیگر شماروں کی طرح اس شمارہ کو بھی خاص بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلزار جاوید نے اپنے اداریے میں لکھا ہے’’ کوشش کی گئی ہے کہ ڈاکٹر نواز دیوبندی کی نسبت اثابت رائے کو مربوط انداز میں پیش کرکے نواز صاحب کے خال و خد اور شعری نقوش کچھ اس طرح نمایاں اور واضح کیے جائیں کہ موجودہ زمانے کے ساتھ آنے والے وقت میں بھی قاری، ناقد اور محققین کے لئے آسانیاں مہیا ہو سکیں‘‘ اس شمارہ میں نواز دیوبندی کا ایک تفصیلی اور دلچسپی سے بھر پور ایک انٹرویو بھی شامل ہے نیز ان کی غزلیں اور نظمیں بھی اس شمارہ کی زینت ہیں یہ شمارہ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ نواز دیوبندی کی شاعری پر جن شعرا ، ادباء اور صاحبان نقد و نظر کے تائثرات مضامین کی شکل میں شامل کئے گئے ہیں ان میں گوپال داس نیرج ، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر اخترالواسع، ڈاکٹر راحت اندوری، پروفیسر یعقوب یاور، ڈاکٹر ایس وائی قریشی، ڈاکٹر توقیر احمد خاں، ڈاکٹر عنبرین حسیب، منظور عثمانی، ڈاکٹر امام اعظم، مولانا محمود احمدخاں دریابادی، ڈاکٹر عبید اقبال عاصم، ڈاکٹر سراج الدین ہاشمی اور ڈاکٹر رضوان انصاری کے نام نامی شامل ہیں ان صفحات میں نواز دیوبندی کی شاعرانہ عظمتوں کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے یہ خصوصیت شعرا کے قبیلے میں انہیں مختلف اور ممتاز بناتی ہے۔ ان کا لڑکیوں کی تعلیم پر زبردست کام ہے آخیر میں نواز دیوبندی نے آن لائن شرکاء کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہنامہ ‘‘ چہار سو’’ کے مدیر اعلی گلزار جاوید کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بغیر کسی ذاتی شناسائی اور ربط کے اردو کے ایک معمولی سے طالب علم کی طرف متوجہ ہونا اور اسے یہ اعزاز دینا منجانب اللہ ہے میں ان کی اس نظر التفات کے لئے شکر گزار ہوں میرے بڑوں نے اور میرے دوستوں نے جو اپنے قیمتی الفاظ میرے لئے خرچ کیے ہیں یہ میرے لئے افتخار بھی ہے اور میرا سرمایہ بھی! میں ہمیشہ کہتا ہوں مجھے میرے بڑوں کی شفقت، دوستوں کی محبت اور چھوٹوں کی عزت میسر ہے اور شاید یہی میری شناخت ہے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی بتایا کہ مشہور قلم کار ڈاکٹر الف ناظم نے میری شاعری اور ذاتی زندگی پر دنیا کے تقریبا’’ ایک سو سے زائد صاحبان علم و فن کے مضامین یکجا کرکے ’’ذرہ نوازی‘‘ کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی ہے جو ان شاء اللہ عنقریب منظر عام پر آئے گی۔

سبیلہؔ انعام صدیقی

کب کس نے روکی ہے دنیا
دریا ہے‘ بہتی ہے دنیا
جس رخ سے منظر تھا بہتر
اْس رخ سے دیکھی ہے دنیا
جتنی اِس کو سمجھی ہو تم
ٓٓٓٓٓٓاتنی کب اچھی ہے دنیا؟
جس میں رہتی ہوں میں خوش خوش
میرے خوابوں کی ہے دنیا
تم تو سب سے ہٹ کے ہو ناں؟
تم میں کیوں رہتی ہے دنیا
جذبوں کو بے وقعت جانے
دولت پر مرتی ہے دنیا
ظاہر ، باطن ایک نہیں ہے
سچ بولوں ! جھوٹی ہے دنیا
جتنا اس کو پکڑو گے تم
اُتنا ہی اڑتی ہے دنیا
ٹھہری کب ہاتھوں میں آ کر
اک بہتا پانی ہے دنیا
قیمت دے کر لے لو سب کچھ
منٹوں میں بکتی ہے دنیا
اتنا کیوں سامان سبیلہؔ
بالاخر فانی ہے دنیا

حصہ