شاہد آفریدی کا پاؤں مودی کی دُم پر

337

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی جو اب اپنی فاونڈیشن بنا کر سماجی بھلائی کے کاموں میں سرگرم ہیںکورونا بحران میں آزادکشمیر کے عوام کی دلجوئی اور خبر گیری کے لئے کچھ علاقوں کا دورہ کیا ۔اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس سے اندازہ ہوا کہ ان کے دورے کا اہتمام ملک کی معروف سماجی تنظیم الخدمت فاونڈیشن نے کیا تھا جو مختلف بحرانوں اور حادثات وآفات میں حکومتوں سے بڑھ کر عوامی خدمت کا ریکارڈ قائم کر چکی ہے ۔شاہد آفریدی نے مختلف مقامات پرعوام میں راشن تقسیم کیا اور عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کیا ۔شاہد آفریدی نے اپنے خطابات میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر بھی بات کی اور انہوںنے ایک مقام پر کہا کہ کورونا سے زیادہ خطرناک وائرس مودی کے دماغ میں گھس گیا کہ وہ مذہب کی بنیاد لوگوں میں تفریق پیدا کر رہا ہے ۔شاہد آفریدی نے کشمیری عوام کی مظلومیت اور بھارتی جبر وستم کی بات بھی کی اور کہا بھارت کے حکمرانوں کو اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا حساب دینا ہوگا ۔شاہد آفریدی کی اس باتوں پر سوشل میڈیا میں ایک طبقہ چیں بہ جبیں ہواجنہیں ان کی کھلی ڈلی باتیں پسند نہیں آئیں اور انہوںنے شاہد آفریدی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک محاذ کھول دیا ۔کسی نے ماضی میں قبائلی یلغار کی بات چھیڑی تو کسی کو اپنا کوئی اور دکھ یاد آیا ۔شاہدآفریدی ایک عالمی شناخت کے حامل کھلاڑی ہیں اور ان کا آزادکشمیر کی سرزمین پر کھڑے ہونا اپنا ایک معانی اور مفہوم رکھتا ہے ۔ یہ بات بھارت کے ایک اخبار نے بھی تسلیم کی ۔روہان راج نامی بلاگر نے لکھا کہ شاہد آفریدی صرف کرکٹر ہی نہیں ایک ایسے ہیرو بھی ہیں جو اپنے بیانات اور اظہار خیال سے نوجوانوں کا ذہن بھی بدل سکتے ہیں ۔وہ بائیس کروڑ عوام کی رائے سازی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر گوریو آریا نے ایک ٹویٹ میں اسی دورے کے دوران کمانڈو ٹی شرٹ پہنے اور فوجی جوانوں کے آگے کھڑے شاہد آفریدی کے خطاب کی وڈیو اس تبصرے کے ساتھ ٹویٹ کی ہے ’’کہ پاکستان تو ہندئووں کی نفرت میں ہی قائم ہوا تھا۔جب ایک پاکستانی فلم ،کھیلوں اور کاروبار کے ذریعے پیسہ بنانے کے لئے بھارت آتا ہے یا سیاحت کی غرض سے سہی تو اس کے چہرے پر محبت اور انسانیت کا ماسک ہوتا ہے یہ اس ماسک کے پیچھے اصل چہرہ ہے‘‘ موجودہ حالات میں بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کشمیر کے حالات پر دنیا میں کہیں سے آواز ہی نہ اُٹھے ۔اسی لئے وہ بیرونی دنیا میں ہر اس آواز کو دھونس دھمکی یا منت سماجت کسی بھی حربے سے دبانا چاہتا ہے جو کشمیر کی حالت زار کی عکاس اور ترجمان ہوتی ہے ۔بھارت نے یورپ سے امریکہ تک کشمیر کے لئے بلند ہونے والی بہت سی آوازوں کو انہی حربوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی ہے۔بھارت کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان اور آزادکشمیر کے عوام بھی اپنے مسائل اور معاملات میں اس قدر پھنسے رہیں کہ انہیں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر توجہ دینے یا بولنے کا خیال ہی نہ آسکے ۔یوں وہ کشمیر کے معاملے پر قبرستان جیسی خاموشی چاہتا ہے اواس خاموشی کی آڑ میں وہ کشمیر میں آپریشن کلین اپ کرکے مجاہدین کا قتل عام چاہتا ہے اور بھارت کے وہ تمام قوانین لاگو کرنا چاہتا ہے جو اس کی آنے والے زمانوں کی حکمت عملی یعنی آبادی کے تناسب اور تشخص کی تبدیلی کے مضبوط بنیاد بن سکتا ہے ۔کشمیر میں اپنی سیاہ کاریوں پر’’سکوت مرگ ‘‘کے خواہش مند بھارت کو شاہد آفریدی کا مودی پر طنز اور کشمیریوں کی حمایت میں آواز بلند کرنا ایک آنکھ نہیں بھایا ۔یوں لگتا ہے کہ آفریدی کا پائوں مودی کی دُم پر آگیا ہے ۔اسی لئے بھارتی ٹی وی چینلوں نے شاہد آفریدی کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا ۔انہوںنے شاہد آفریدی کے بیان کو چھوٹا منہ اور بڑی بات ۔پاکستانی عوام میں مقبول ہونے کی کوشش اور ایک اور’’ عمران خان‘‘ کی تیاری کے آغاز سمیت نجانے کیا کیا رنگ نہ دئیے ۔ایک ٹی وی نے پاکستان کے ہندومذہب سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی دانش کنیریا کو پروگرام میں مدعو کرکے شاہد آفریدی کی مخالفت میں بیان حاصل کرنے اور انہیں مذہبی متعصب ثابت کرنے کی کوشش کی مگر دانش کنیریا نے بھارتی میڈیا کی اس کوشش کو آغاز میں ہی یہ کہہ کر ناکام کیا کہ وہ پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور او ل وآخر پاکستانی ہیں جب بھی پاکستان پر مشکل لمحہ آیا تو اپنے وطن کے ساتھ ہوں گے ۔انہوںنے شاہد آفریدی سے اپنے گلے شکوئوں کا اظہار کرنے سے بھی گریز کیا اور یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ شاہد آفریدی مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے تھے ۔اس بات کا تعلق صرف کرکٹ سے تھا ۔دانش کنیریا جب یہ باتیں کر رہے تھے تو بھارتی ٹی وی اینکر اور پینل کے دوسرے شرکاء کے منہ لٹک رہے تھے ظاہر ہے انہیں اپنے مطلب اور پسند کی بات نہیں مل رہی تھی۔ پروگرام کے شریک طارق فتح بھی دانش کنیریا کے رویے پر مایوس اور حیران دکھائی دئیے کیونکہ دانش کنیریا کی طرف سے بھارتی میڈیا کی ضرورت پوری نہ کرنے کے بعد اس کام کا سارا بوجھ طارق فتح پر آن پڑا تھا جو مسلمانوں ،اسلام اور پاکستانیوں کے خلاف بات کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔طارق فتح کی صورت میں بھارتی میڈیا کے ہاتھ میں چابی والا کھلونا آگیا ہے اور وہ جب چاہیں چابی بھر کر کسی بھی اسلام اور پاکستان مخالف پروگرام میں کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور پھرطارق فتح یہ ضرورت پوری دیانت داری سے پوری کرتے ہیں ۔شاہد آفریدی کے خلاف بھی طارق فتح نے اپنا یہ کردار نبھایا ۔ٹی وی اینکروں کی چیخ وپکار سے شاید مطلوبہ فضا ء نہ بن سکی اسی لئے بھارتی حکومت نے اپنے سابق اور موجود کھلاڑیوں سے بیان بازی کرانے کی حکمت عملی اختیار کی ۔ان میں کئی ایسے کھلاڑی بھی تھے جو کچھ عرصہ قبل شاہد آفریدی فاونڈیشن کی مدد کی اپیلیں کرچکے تھے اور اب ظاہر ہے کسی دبائو پر وہ ان اپیلوں پر معذرت کررہے تھے ۔ان میں یوراج سنگھ ،سوادیشی موجیٹو،اور ایک کشمیری پنڈت سریش رینا بھی شامل تھے ۔اول الذکر کھلاڑیوں نے تو آفریدی پر تنقید سے گریز کرتے ہوئے ان کی سماجی خدمات کی حمایت کی اپیل پر معذرت کا انداز اپنایا جبکہ پنڈت سریش رینا نے کہا آفریدی اپنے ناکام ملک کی فکر کریں اور کشمیر کو معاف کریں۔ان کھلاڑیوں کاکہنا تھا کہ آفرید ی نے ہمارے معزز وزیر اعظم کی توہین کی ہے ۔صاف لگتا ہے کہ ان کھلاڑیوں نے یہ بیان مودی کی صفائی میں مگر کسی دبائو پر دیا ہے ۔شاہد آفریدی کی آزادکشمیر میں کھری کھری باتوں پر بھارتی میڈیا کی چیخ وپکار بتارہی ہے کہ تیر صحیح نشانے پر جا لگا ہے۔بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان کے لوگ کشمیر کا ذکر کرنا بھول جائیں تاکہ وہ وادی کے عوام کو باور کرائے کہ پاکستان کے عوام نے انہیںفراموش کر دیا ہے اب وہ بھارت کے قبضے کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیں۔اس کے برعکس ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ کشمیر او ر کشمیری عوام ہماری لوح ِحافظہ پر قائم اور دائم رہیں اور آفریدی جیسے نامور لوگ اس معاملے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

حصہ