جو جہاں ہے وہیں رہے

330

ترقی یافتہ ممالک میں عوام کی بنیادی سہولیات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، خاص طور پر صحت و تعلیم جیسے محکموں پر وہاں کے حکمران خاصی نظر رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست بیس سال لندن کے ایک مضافاتی علاقے میں مقیم رہے، وہ اکثر ہم سے وہاں کے عوام کو دی جانے والی سہولیات پر بات کرتے رہتے تھے۔ بیس سال دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود وطن کی محبت انہیں واپس پاکستان کھینچ لائی۔ ان کی پرورش کراچی میں ہوئی لیکن ایک عرصہ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں کچھ تبدیلیاں ضرور آئیں۔ وہاں اداروں کو اپنے دائرۂ کار میں کام کرتے دیکھ کر انہیں حقیقی جمہوریت کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ کیونکہ وہاں کے حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کا تعلق عوام کی روزمرہ زندگی سے ہوتا ہے، اس لیے ہمیں اپنے دوست سے ایک لمبی تقریر سننے کو ملتی۔ ہم ہمیشہ اُن کی باتیں سن کر خاموش ہی رہتے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ایک ترقی یافتہ ملک کے مضافات میں رہنے والے شخص کو اگر اتنی سہولتیں میسر ہیں تو وہاں کے جدید ترین مرکزی شہروں میں رہنے والے عوام کو کس قدر سہولیات میسر ہوں گی۔ وہاں کے بارے میں جو کچھ بھی ہم اپنے دوست سے سنتے، ہمیشہ یہی خیال آتا کہ اُس ملک کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے وہاں کے عوام کس قدر بے فکر اور مطمئن ہوں گے۔ ہمیں اپنے دوست کی باتوں میں ایک ایسے آئیڈیل ماحول کی تصویر دکھائی دیتی جس میں زندگی بسر کرنے کی ہر شخص خواہش رکھتا ہے۔ بڑی ترقی کی باتیں چھوڑیئے، وہاں کے شعبۂ صحت کو ہی دیکھ لیجیے، ایک ٹیلی فون کال پر ایمبولینس آپ کے دروازے پر، علاج معالجے کے تمام اخراجات سرکار کے ذمے… ایسا نظام کہ جسے دیکھ کر کوئی بھی ذی شعور تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
ایک طرف اگر میں تعریف کرتا تو دوسری جانب دل ہی دل میں کڑھتا بھی رہتا، یعنی مجھے جلن اور حسد ہوتا، میں سوچتا کہ اس دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جہاں بسنے والوں کے لیے تمام بنیادی سہولیات اُن کی دہلیز پر موجود ہیں، اور ایسے ملک بھی ہیں جہاں کے رہنے والوں کی ساری زندگی کچرے کے ڈھیروں اور سیوریج کے گندے پانیوں کو ٹاپتے ہوئے تمام ہوجاتی ہے۔ کبھی سوچتا کہ میں کیوں ایک ایسے ملک کا موازنہ اپنے ملک سے کررہا ہوں جس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ ظاہر ہے جو ملک ہزاروں سال پہلے وجود میں آیا ہو اُس کی ترقی سے ہمارا کیا مقابلہ! لیکن پھر خیال آتا کہ حکمران مخلص، ایمان دار ہوں اور حکمرانی کو اللہ کی امانت سمجھیں تو قوموں کی تقدیر بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ اللہ کے بتائے ہوئے طریق یعنی لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرنے والی جماعت نہ صرف روم اور ایران جیسی سلطنتوں کو پلٹ سکتی ہے بلکہ لاکھوں مربع میل علاقے پرحکمرانی کرسکتی ہے، ایسی حکمرانی کہ حاکم اور عوام میں کسی قسم کا کوئی طبقاتی فرق نہ ہو، وہ ریاست جہاں رہنے والا ایک عام شخص بھی حاکمِ وقت سے جواب طلبی کرسکے، ایسی ریاست جہاں بھوک سے تنگ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور نہ ہوں، جہاں سوائے اخلاق اور تقویٰ کے کسی انسان کو دوسرے انسان پر کوئی فضیلت نہ ہو۔ کالے کو گورے پر افضلیت نہ ہو، جہاں کا آئین قرآن اور اللہ کے رسولؐ کی سنت ہو۔
ایسی ریاست جب میری نگاہوں کے سامنے آتی ہے تو وہ تمام ممالک جو جمہوریت اور برابری کا منجن بیچ کر لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں مجھے اپنے پیروں کے نیچے دکھائی دیتے ہیں، جو اپنی ترقی پر ناز کرتے ہیں، لیکن جدید ترقی کے ان دعووں کے پلے اُس وقت کچھ نہیں رہتا جب ان کی جانب سے بنائے جانے والے صحت کے ادارے اور طبی ماہرین ایک معمولی سے وائرس کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں، اور سوائے فرمانِ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’’وبا کی صورت میں جو جہاں ہے وہیں رہے‘‘ پر سو فیصد عمل کرنے کے کوئی علاج نظر نہیں آتا۔ بے شک یہی وہ حق اور سچ ہے جس کو مانتے ہوئے آج ساری دنیا کے ممالک نے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کررکھا ہے، اور پھر اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جہاں جہاں بھی باقاعدگی سے اس سچ پر عمل کیا گیا، وہاں نہ صرف اس جان لیوا وائرس کی کمر ٹوٹی بلکہ کئی ممالک میں تو یہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ یہاں مجھے حیرت اُن ممالک پر نہیں جنہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق عمل کیا، بلکہ اُن پر ہے جنہوں نے اپنے ملک کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی، یعنی اس مملکتِ خداداد پاکستان میں کورونا وائرس کو لے کر جو کچھ بھی ہورہا ہے اُسے دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ یہاں وفاقی حکومت کسی اور سمت ہے، تو صوبے کوئی اور راگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں۔ طبی ماہرین کچھ اور مشورہ دیتے ہیں اور عوام اپنی من مانیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ کوئی بین الصوبائی ٹرانسپورٹ چلانے کی ضد میں ہلکان ہوئے جارہا ہے، تو کوئی بھوک و افلاس سے ڈرا کر اپنا کاروبار کھولنے کے درپے ہے۔ فکر ہے تو اپنے کاروبار کی، کسی کو ترقی کے رکے پہیّے کی، اور عوام کو خریداری کرنے کی۔ کون سا وائرس… کیا سماجی دوری… اور کیسی احتیاط…؟ بازاروں میں جاکر مشاہدہ کرلیں۔ پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ میں اس روز اپنے گھر سے نکلا اورقریبی مارکیٹ میں جا پہنچا، جہاں کے حالات دیکھ کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی۔ خدایا، یہ کیا! لوگوں کا جم غفیر مارکیٹ کی جانب امنڈ آیا تھا۔ بازار سے خریداری کرنے والوں میں خاصی بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ خریدار کندھے سے کندھا ملائے دکانوں کی جانب دوڑے جارہے تھے۔ لوگوں کا رش اور گہماگہمی دیکھ کر یوں اندازہ ہوتا جیسے اس ملک میں کورونا نامی وائرس کا کوئی وجود نہیں۔ چہرے کا ماسک اور ہاتھوں کے دستانے کس چڑیا کا نام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے میں چاہتے ہوئے بھی اس بازار کی مرکزی گلی میں داخل نہ ہوسکا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کورونا وائرس کی حقیقت کو جانتے ہوئے کس طرح اتنا بڑا رسک لے سکتا تھا! اس لیے بازار کے داخلی راستے پر کھڑے رہ کر ہی جتھوں کی شکل میں آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا۔ مجھے یہاں آئے خاصی دیر ہوچکی تھی، لہٰذا میں نے خریداری کرکے آنے والوں سے مارکیٹ کے اندر کی صورت حال سے متعلق معلومات لینے کا ارادہ کرلیا اور اپنے قریب سے جاتی ہوئی دو بزرگ خواتین کو روک کر پوچھا ’’اندر بازار کی کیا صورتِ حال ہے؟‘‘
ان میں سے ایک خاتون نے جواب دیا ’’دکانوں کے اندر تو پیر رکھنے تک کی جگہ نہیں، جبکہ چلتے ہوئے سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، رمضان کا مہینہ، اوپر سے گرمی اور اس قدر رش… اللہ کی پناہ۔‘‘
ان کا جواب سن کر میں نے کہا ’’اگر یہی صورتِ حال ہے تو آپ گھر سے کیوں نکلیں؟ ان حالات میں خریداری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا آپ کے علم میں نہیں کہ کس قدر لوگ کورونا وائرس کا شکار ہورہے ہیں؟ ایسی صورت میں خریداری کرنے کا مطلب خود کو اس موذی وائرس کے حوالے کرنا ہے۔ میں خاصی دیر سے یہاں کھڑا دیکھ رہا ہوں کہ لوگ ٹولیوں اور جتھوں کی شکل میں بازار کی جانب آرہے ہیں جو انتہائی خطرناک کام ہے، آپ لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔‘‘
مجھے کیا خبر تھی کہ میری باتیں اُن کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا، اس سے پہلے کہ مزید کچھ کہتا، اُن میں سے ایک خاتون نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا ’’تمہارا مطلب ہے کہ ہم عید کی کوئی تیاری نہ کریں، نیا سوٹ خریدیں اور نہ ہی چوڑیاں پہنیں، میک اپ کا سامان، جیولری، یہاں تک کہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے بھی نہ خریدیں؟ پہلے ہی اتنے عرصے بعد مارکیٹ کھلی ہے اور تم چاہتے ہو کہ یہ دوبارہ بند ہوجائے! جہاں تک کورونا وائرس کا تعلق ہے تو یہ کچھ بھی نہیں۔ افواہیں پھیلا کر ہمارے تہواروں کو خراب کیا جارہا ہے۔‘‘
اس خاتون کی باتیں سن کر میں لاجواب ہوگیا۔ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا سوائے خاموش رہنے کے! لیکن پھر بھی میری زبان پر آیا ہوا سوال نہ رک سکا، میں نے کہا ’’آنٹی ہمارے حکمران تو کہتے ہیں ان حالات نے غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی، لیکن یہاں یہ صورتِ حال دیکھ کر تو کچھ اور ہی اندازہ ہوتا ہے۔‘‘
اس پر ان خاتون نے کہا ’’کسی کی کمر نہیں ٹوٹی اور نہ ہی یہاں کوئی غریب ہے۔ بازار میں جاکر دیکھو، لوگ اس طرح شاپنگ میں مصروف ہیں کہ ایک ایک شخص دو دو تین تین سوٹ خرید رہا ہے۔ چپلوں،گھڑیوں اور مہنگے ترین پرفیومز کی فروخت عروج پر ہے، میں خود تین سوٹ خرید کر لائی ہوں، یہ میری باجی ہیں انہوں نے بھی اعلیٰ کوالٹی کے مہنگے دو سوٹ لیے ہیں۔‘‘
اس سارے واقعے کو پھر سے تحریر کرنے کا مقصد عوام میں یہ آگاہی پیدا کرنا ہے کہ خدارا اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر لازمی اختیار کریں، اور بازاروں میں جانے سے گریز کریں۔ جان ہے تو جہان ہے۔ خریداری ساری زندگی کرسکتے ہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں، حکمرانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے گھر اور اپنے بچوں کی جانب دیکھیں۔ ہم نے ہمیشہ ہر عید پر خریداری کی ہے، اِس عید کو سادگی سے منائیں اور اُن لوگوں کا خیال رکھیں جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ اللہ کے نزدیک لوگوں کی مدد کرنا عید کی خریداری سے زیادہ افضل ہے۔

حصہ