سوشل میڈیا

645

پوسٹ کچھ یوں تھی کہ ’’بدگمانی نہیں کرنا چاہیے لیکن، اِس ایک جملے میں گویاساری دُنیا سمٹ آئی ہے، کہ’طلبا کی پرسنٹیج تبدیل کی جائے گی تاکہ اگلی کلاس میں داخلہ لینے میں پریشانی نہ ہو ، وزیر تعلیم سندھ، سعید غنی۔‘اب یعنی سائل یہاں کہنا چاہ رہا ہے کہ پرسنٹیج پر ’ریٹ ‘ طے ہوگا۔‘‘ دوسری جانب ایسا ہی کچھ قربان کرنیکا عزم اس طرح ظاہر کیا گیا کہ’’دل پر پتھر رکھ کر اور کروڑوںروپے کی سالانہ آمدنی کی عظیم ’قربانی ‘دیتے ہوئے ایک اوربڑافیصلہ کر ہی لیا گیا۔سندھ میں اب نویں ،دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلباء کو اگلی جماعتوں میںپروموٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔حکومت سندھ بورڈ قوانین میں ترمیم کرے گی اور یوں طلبا کو پروموٹ کردیا جائے گا‘۔اس سے قبل پہلی تا آٹھویں جماعت کے لیے بھی یہی طے کر دیا گیا۔اب آپ اِسے کرپٹ حکومت کی فطرت کہیں یا کوئی اور نام دیں عوام کے دل و دماغ تو اِسی طرف جا رہے ہیں۔ویسے اہم ترین بات یہ ہے کہ سماجی فاصلے کا سب سے آسان اور فطری منظر امتحانات ہی میں ممکن ہو پاتا ہے اور اگر ہم ( فروری تا جون)۵ ماہ بعد بھی کورونا کے ساتھ جینے کے طور طریقے نہیں اپنا پائے اور عجیب کنفیوژ فیصلے تواتر سے کرتے رہے تو اس کے نقصانات مزید زیادہ سامنے آئیں گے۔جب بازار وں میں ہفتہ کے چار دن ، سڑکوں پر، نادرا دفاتر، بینکوں کے باہر اور دیگر جگہ عوام کو کھلا چھوڑ دیا ہے تو ایک 3گھنٹے کاامتحان جوخود خاص حالات میں منعقد ہوتا ہے اُسے کیونکر موخر کیا جا رہا ہے ؟بہر حال سوشل میڈیا پر یہ موضوع مستقل2 ماہ سے مختلف انداز سے زیر بحث رہا۔فیصلہ کرنے کے باوجود کئی اُمور پر سوالات کھڑے تھے جن کا جواب تا دم تحریر نہیں دستیاب تھا۔ قانون سازی کے بعد جا کر حتمی چیز سامنے آجائے۔ لوگوں نے اس پر خوب مذاق بنایا اور لکھاکہ،’’طلباء بغیر امتحان پاس ہونے پر حیرت نہ کریںپاکستان میں توبغیر الیکشن جیتے بندہ وزیراعظم بھی بن جاتا ہے۔‘‘ وفاقی وزیر مواصلات کو بھی خوب رگڑا دیا گیا کہ ،’’اگر مراد سعید کو یہ پتا ہوتا کہ اس سال تمام بچے بغیر امتحان دیئے پاس ہو جائیں گے تو وہ کبھی اپنے ابا جی کو آسٹریلیا ذلیل ہونے نا بھیجتا۔‘‘ صوبہ پنجاب کے تناظر میںایک اور سیاسی پوسٹ یہ بھی مقبول رہی ،’’وہ بریانی اور قیمے والے نان دے کر الیکشن خریدتے تھے۔خان صاحب نے بغیر امتحان بچے پاس کر کے پوری جنریشن خرید لی۔‘‘اسی طرح اُن پڑھاکو طبقات کی جانب سے یہ اعتراض آیا کہ، ’’بغیر امتحان اگلی کلاس میں پروموٹ ہونے پر نالائق بچوں، بیک بینچرز اورنت نئے طریقوں سے نقل مار کر پاس کرنے والوںمیں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔عمران خان زندہ باد کے نعرے۔ہر سال امتحانی پرچہ لیک کرنے والوں کا دھندہ بند ہونے پر سخت احتجاج‘‘۔ ویسے سوشل میڈیا پر ڈان نیوز نے ایک سروے کرایا تو اکثریت نے امتحانات کے ملتوی کرنے والے فیصلہ کی مخالفت کی اور موجودہ صورتحال میں غیر ضروری قرار دیا۔سندھ ہائی کورٹ نے یوم علیؓ کے جلوس اور مجالس پرپابندی کیخلاف دائر درخواست پر قرار دیا ہے کہ حکومتی ایس اوپیز پرعمل کرکے جلوس یاعبادات کی جاسکتی ہیں۔اب آپ دیکھیں کہ ایس او پی پر عمل کر کے جلسہ ہو سکتا ہے لیکن میٹرک انٹر کے امتحانات نہیں ہو سکتے۔فتح مکہ اور یوم حضرت علی ؓ کے حوالے سے بھی مذہبی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِن سے متعلق ہیش ٹیگز کو ٹرینڈ بنایا گیا۔داماد رسول ﷺ، امیر المومنین ، حضرت علی ؓ سے محبت و عقیدت ، اتباع اُنکا مقام سب ہی مانتے ہیں، البتہ اُس کا اظہار کرنے کے طریقہ سب کے الگ ہیں۔یوم علی ؓ کے جلوس کو لے کررمضان کے آغازسے ہی خاصا شور جاری تھا۔ لاک ڈاؤن میں نرمی یا خاتمے کو سب جانب سے اِسی دن سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ پاکستان میں اہل تشیعہ کی جانب سے مذہبی جوش و خروش و بڑی اجتماعیت کے ساتھ منائے جانے والے ایام میں ’یوم علیؓ ‘ بھی شامل ہے ۔مارچ کے آغاز میں جب سخت لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا اور مساجد بند کی گئی تھیں ، اُنہی ایام میں سوشل میڈیا پر اہل تشیعہ کی جانب سے امام حسن ؓ کے یوم پیدائش کا جوش و خروش سے منایا جانے والے جشن کی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔مزا اس صورتحال میں یہ آیا جب سندھ حکومت کا ایک نوٹیفیکیشن سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ، جس میں ایک جملہ کا اضافہ کیا گیا تھا ۔جملہ کیا تھا صرف یہ دو الفاظ ہی تھے کہ ’’تمام قسم کے مذہبی اجتماعات ، جلوس وریلی‘‘ اب عوام نے صرف انہی الفاظ کو غنیمت جانا اور اوپر کی ساری تحریر کو ایک طرف کر کے خوب پروپیگنڈہ کیا ۔سندھ حکومت کو خوب رگڑا لگایا ، زبردستی کی بھڑاس نکالی، جبکہ اُس نوٹیفیکیشن کی حقیقت و مفہوم اس کا بالکل برعکس تھا۔ نو ٹیفیکیشن میں پچھلے جاری شدہ پابندیوں کے اعلان میں تمام قسم کے مذہبی اجتماعات ، جلوس وریلی کا اضافہ کیا گیا تھا جسے سب نے یہ سمجھا کہ اس کی اجازت دی گئی ہے۔پھر جب کسی عقل سلیم والے نے بات سمجھائی تو عجیب ڈھٹائی دیکھیں کہ کوئی غلطی ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔وہ تو اسلام کی عظیم تاریخ میں بے شمار اہم ایام ہیں لیکن شاید اہل پاکستان میں کسی طور سے بیلنس کرنے کیلیے علیم و خبیرو حکمت والی ذات باری تعالیٰ نے فتح مکہ کی عظیم کامیابی بھی اِسی روز مقدر کر دی تھی۔شکر ہے کہ اس عظیم کامیابی پر ابھی تک مسلمانان پاکستان کو جلوس یا ریلی کا خیال نہیں آیا وگرہ صورتحال عجیب ہو جاتی ۔اس لیے اب ایک جانب سوشل میڈیا پر ’شہادت امیر المومنین علیؓ کا ذکر تھا تو دوسری جانب فتح مکہ کی یاد میںاسلام کی عظمت سوشل میڈیاپر خوب بلند کی جاتی رہی ۔ رات گئے سے ہی دونوں ہیش ٹیگ پر کام شروع ہوا سحری تک پہلے فتح مکہ اور کچھ دیر بعد شہادت امیر المومنین ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں دونوں آ چکے تھے ۔ تواتر سے پوسٹوں کی بمبارٹمنٹ جاری تھی ایسا لگ رہا تھا کہ ایک گروپ نائٹ ڈیوٹی پر تھا تو دوسرا گروپ فجر بعد والی ڈیوٹی سنبھالنے آ پہنچا تھا۔
سوشل میڈیا پر اس ہفتہ کا ایک اہم موضوع’مقبوضہ کشمیر‘ بھی رہا۔کشمیر کی صورتحال پرکئی ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنے، واضح رہے کہ پچھلے ہفتہ ایک بڑی جھڑپ میںحزب المجاہدین کمانڈرریاض کی شہادت کے بعد کشمیر کی صورتحال ، برہان وانی کی شہادت کے بعد کے رد عمل کی صورت ابھر کر سامنے آئی ۔ باوجود اس کے کہ بھارت کی جانب سے لاک ڈاؤن بدستور جاری ہے۔ویسے لاک ڈاؤن کا فارمولا گھروں میں قید رہنے کا ہے لیکن مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کا ظلم ایسی صورتحال میں گھروں کے اندر پہنچ کر جاری ہے۔کئی اضلاع میں ڈور ٹو ڈور سرچ آپریشن جاری ہے ۔ضلع بڈگام میںبھارتی فوج کے ہاتھوںکئی دکانیں، گھروں، گاڑیوں کو تباہ کرنے لوٹنے کی خبریں مستقل آ رہی ہیں۔وہیں نام نہادقاتل سیکیورٹی فورسزکی جانب سے ایک نوجوان شہری معراج الدین کو بلاوجہ فائرنگ کر کے شہید کرنے کا معاملہ سامنے آیا ۔ جس کے بعد ضلع بڈگام سے سخت رد عمل ظاہر ہوا کہ پولیس کا بنایا ہوا ڈرامہ سب نے یکسر رد کر دیا تھا۔یہ سب حرکتیں ایک بار پھر سوشل میڈیا پر بھارتی مظالم کو منظر عام پر لے آئیں۔دوسری جانب بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی مستقل خلاف ورزی جاری ہے اور آزاد کشمیر کی شہری آبادی پر مستقل حملہ جاری ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا کا سیاسی منظر نامہ بدستور اپنے اپنے قائدین و جماعتوں کے موقف کے تحفظ کے لیے ڈٹا نظر آیا۔پہلے پیپلز پارٹی اور وفاق کے درمیان اے آر وائی پھنسا ،اسکے بعد روٹین کے مطابق نواز لیگ اور پی ٹی آئی مد مقابل آ گئیں۔ اس بار تختہ مشق بنے شاہد خاقان عباسی جنہیں ’ شاہد بد زبان عباسی‘کے عنوان سے پی ٹی آئی کے جوانو نے اپنے وزیر اعظم پاکستان پرٹی وی شو اور قومی اسمبلی میںتنقید کرنے پر خوب رگڑا لگایاپھر کیا تھا۔ جواب میں ن لیگ کی جانب سے ’ نواز کا شیر شاہد خاقان‘ کا ٹرینڈ لایا گیا اور شاہد خاقان عباسی کی جرأت کو سلام پیش کیا جاتا رہا۔شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اسمبلی میں اٹھائے گئے بہترین سوالات پر ایک بھی جواب کسی نے نہیں دیا ۔ یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ شاہد خاقان عباسی صرف معمولی رکن اسمبلی نہیں بلکہ پاکستان کا ہی تازہ سابق وزیر اعظم ہے جو حکومتی معاملات ، انتظام وانصرام بہت بہتر جانتا ہے۔اُس کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات معمولی نہیں قرار دیئے جا سکتے۔بات یہاں نہیں رُکی ، اب پی ٹی آئی کی جانب سے مخالفت کا عجیب انداز دیکھیے کہ
اپنے چہیتے وزیر اعظم کی ہدایت پر نشر ہونے والے ترکی ڈرامہ سیریل ’ارتغرل‘ کی بے پناہ مقبولیت کا منفی استعمال کر دیا اور میاں نواز شریف کو ’کرپٹطغرل غازی‘ بنا کر پیش کر دیا۔جسے کبھی سلطان فرار الدین کرپٹتغرل کہا گیا تو کبھی بیسویں صدی کے کھاؤ قبیلے کی داستان‘ سے جوڑا گیا۔تو کبھی اس انداز سیپوسٹ کیا گیا کہ ’ترکی کے پاس طیب اردوان ہے تو ہمارے پاس ’خوربردگان ‘اوراگر ترکی کے پاس ’ارطغرل‘ ہے ، تو ہمارے پاس ’کرپٹتغرل ‘ہے ۔‘یہ ساری حرکت دوبارہ بتاتی ہے کہ سماجی میڈیا پر سیاسی مخالفین کی دھجیاں اڑانے کے لیے ہر حد سے گزرنا ہی ا صل کام ہے۔ڈرامہ کی روز بروز بڑھتی مقبولیت بتا رہی ہے کہ اہل پاکستان کے نزدیک ارتغرل ایک ہیرو ہے ، جس کو متعارف کرانے کا سہرا وزیر اعظم ہی کو مل رہا ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے اپنے وزیر اعظم کی محنت پر پانی پھیر ڈالا۔
ڈرامہ سیریز ارتغرل پاکستان بلکہ پورے ایشیا ریجن میں بمبارٹمنٹ کی صورت نمودار ہوئی ہے ، ایسی توقع کسی کو نہیں تھی۔یو ٹیوب پر عالمی ریکارڈ کے قریب پہنچ چکا ہے یہ ڈرامہ اور اسکا چینل۔ابھی تو پہلا سیزن ہے اسلیے فطری طور پر عوام کرداروںکے سحر میں مبتلا ہو گئے ۔ جس کا فائدہ لبرل طبقات کے ساتھ اُن افراد نے بھی کسی حد تک اُٹھایا جو اس ڈرامہ بلکہ ہر قسم کے ڈرامہ کو بطور ’گناہ‘ بوجہ نا محرم خواتین قراردیتے۔عوام کو ڈرامہ کے پیغام سے متنفر کرنے کے لیے باحیا پروقار کرداروں کی ماضی کی زندگیاں اُن کے سوشل میڈیا پیجز سے نکال نکال کر شیئر کی جاتی رہیں تاکہ عوام کو یہی لگے کہ یہ اسلام و دیگر باتیں صرف انٹرٹینمنٹ کیلیے ہی اچھی ہیں ، عملی زندگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس موضوع پر خاصی تفصیلی بات ہو سکتی ہے ،کئی لوگوں نے بہتر جوابات بھی دیئے اور سمجھایا کہ یہ ڈرامہ تو ہمیں ہماری اقدار یاد دلا رہا ہے ، دینی تعلیم، مقصد زندگی سے جوڑ رہا ہے اگر آپ پیغام چھوڑ کر کرداروں کے پیچھے جائیں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ ڈرامہ ہو یا فلم اُس کے ریکارڈ ہونے کا انداز اتنا الگ ، بے ربط اور اتنا پھیکا ہوتا ہے کہ اُس میں اور فائنل پروڈکٹ یعنی اسکرین پر ناظر کے سامنے آنے والی چیز میں کئی گنا فرق ہوتا ہے ۔ صرف بیک گراؤنڈ موسیقی ہی ماحول بدل دیتی ہے کسی بھی منظر کا، یہ آپ کو ارتغرل دیکھ کر اندازہ ہو ہی چکا ہوگا ۔دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جو ہم کئی سالوں سے سنتے، پڑھتے، تحقیق کرتے آئے ہیںکہ اگر ڈراموں سے عریانی، فحاشی کا کلچر، ہندو تہذیب ،زبان و بیا ن اور نہ جانے کیا کیا پھیل سکتا ہے تو اسلام کیوں نہیں پھیل سکتا؟میں یقین سے کہہہ سکتا ہوں کہ جن گھرانوں میں ارتغرل دیکھا جا رہا ہے وہاں کے بچوں نے کاغذ، گتہ، لکڑی سے تلوار، تیر ، کلہاڑیاںضروربنا لی ہونگی۔دوسرے ، تیسرے سیزن تک پہنچنے والوں نے اپنی گفتگو میں اے واللہ، یا شافی ، کارداشم، بیم جیسے کئی الفاظ اپنا لیے ہونگے، نبی کریم ﷺ کے ذکر پر سینے پر ہاتھ اور سر جھکنا بھی شروع کر دیا ہوگا۔میرے تو بچے اب نماز کے بعد دُعا بھی ارتغرل کی طرح دونوںہاتھ فاصلے کے ساتھ کھول کراٹھاتے ہیں۔اُن کے لیے لفظ ’صلیبی‘ انتہائی کوئی بُرا لفظ بن چکا ہے کہیں امریکی صدر کا ذکر آجائے تو پوچھتے ہیں کہ یہ صلیبی ہے ؟اب اس عمر میںاور کتنا نظریاتی بنایا جا سکتا ہے نئی نسل کو؟

حصہ